سمجھ نہیں آتا کہ یہ قوم (اگر یہ واقعی قوم ہے) کدھر جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہو رہا ہے کہ اخلاقیات کے حوالے سے معاشروں میں بہتری آ رہی ہے۔ شرفِ انسانی کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں غزہ میں اسرائیلی ظلم و ستم کے سلسلے کو شروع ہوئے سات سو روز سے زائد عرصہ ہو گیا ہے وہیں عشروں سے طاقِ نسیاں پر رکھا ہوا مسئلہ فلسطین ایک بار پھر زندہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں مسلم ممالک اور اُمہ سے کہیں بڑھ کر غیرمسلم ممالک میں اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ چند استثنائی واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں انسانی جان کی حرمت اور توقیرِ ابنِ آدم میں قابلِ قدر بہتری آئی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ قوم کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل فون سے وڈیو بنا کر اَپ لوڈ کرنے‘ ٹک ٹاک بنانے‘ ریلز جاری کرنے اور انسٹا گرام کو استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور معزز صورت لوگ گردن ٹیڑھی کرکے کندھے اور کان کے درمیان موبائل فون پھنسائے موٹر سائیکل بھگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں لڑائی ہو جائے لوگ بیچ بچاؤ کرانے کے بجائے اس ''معرکے‘‘ کو فلمانا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں تشدد ہو رہا ہو تو ظلم کو روکنے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے لوگ اپنے موبائل سے اس ''دلچسپ‘‘ صورتحال کی وڈیو بنانا شروع کردیتے ہیں۔ حتیٰ کہ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ اب کسی کی عزت سے کھیلتے ہیں تو اسے چھپانے یا اس پر پردہ ڈالنے کے بجائے اپنے اس کارنامے کی نہ صرف وڈیو بناتے ہیں بلکہ اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اس کی تشہیر کرتے ہوئے خود کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ جن باتوں پر لوگ شرمندگی سے مر جاتے تھے اب وہی باتیں باعثِ فخر بنتی جا رہی ہیں۔ ایسی ایسی واہیات وڈیوز اور ایسی ایسی فحش گفتگو پر مبنی آڈیوز وائرل کی جا رہی ہیں کہ سننے والا شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ اور یہ کام مردوں کے علاوہ خواتین بھی کر رہی ہیں۔ کوئی شرم والا ہو تو ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلے مگر اَپ لوڈ کرنے والے یہ کام ایسے فخر سے کر رہے ہیں جیسے انہوں نے کوئی ناقابلِ یقین کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ یقین نہ آئے تو چند روز قبل سیلاب کی تباہ کاریوں کے عین دوران جبکہ شجاع آباد خود ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہے‘ وہاں کے رہائشی بزعم خود سوشل میڈیا انفلوئنسر حکیم شہزاد کی دانیہ شاہ (بیوہ عامر لیاقت حسین) سے چوتھی شادی کے کئی ماہ بعد ولیمہ کی تقریب میں ہونے والے واہیات مجرے کی وڈیو دیکھ لیں اور اگر وڈیو سے دل نہ بھرے تو اس کی فحش گالیوں سے بھری ہوئی آڈیو سن لیں جس میں وہ دعوتِ ولیمہ میں شرکت کرنے والوں کو‘ دس ہزار سے کم ''نیندر‘‘ (سلامی) دینے والوں کو‘ عام عوام کو اور اپنے مہمانوں کو ایسی ایسی گالیاں دے رہا ہے کہ سننے والا پانی پانی ہو جائے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ آج کل ہمارے ہیرو ہیں‘ ہمارے آئیڈیل ہیں اور آئندہ متوقع ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کے امیدوار اور ''ان شاء اللہ‘‘ ایم این اے ہیں۔
ایک طرف تحصیل شجاع آباد کے درجنوں دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس سے متصل تحصیل جلالپور پیروالا میں اس سے بھی بری صورتحال ہے۔ جلالپور پیروالا شہر سے لوگوں کا انخلا جاری ہے اور انہیں محفوظ مقامات پر پہنچایا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف مجرے ہو رہے ہیں اور دعوتِ ولیمہ میں شرکت کیلئے کم از کم دس ہزار روپے کی سلامی کی شرط لگائی جا رہی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ نہ صرف یہ کہ دس ہزار روپے سلامی والے مجرے پر مشتمل دعوتِ ولیمہ میں شریک ہوئے بلکہ جنہوں نے اس ''نیک‘‘ کام میں شرکت نہ کی یا اس تقریب سعید میں شرکت کے لیے کم از کم سلامی والی شرط سے انحراف کیا انہیں ایسی مسجع و مقفع گالیوں سے سرفراز کیا گیا کہ آئندہ وہ ایسی غلطی کی جرأت بھی نہیں کریں گے۔
صورتِ احوال یہ ہے کہ اس قوم کو سوشل میڈیا سے وابستگی اور وابستگان کے علاوہ اور کسی کام سے نہ دلچسپی ہے اور نہ کوئی واسطہ ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فالو ورز رکھنے والوں پر نظر دوڑائیں تو ان میں کوئی شخص دانشور‘ پروفیسر‘ محقق‘ سائنسدان‘ پڑھا لکھا‘ ماہر معاشیات‘ علم بشریات یا سماجیات کا استاد‘ اخلاقیات کا مبلغ یا کسی سنجیدہ اور علمی شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص دکھائی نہیں دے گا۔ ٹاپ ٹین فالوورز رکھنے والوں میں ڈکی بھائی ہے‘ پی فار پکاؤ ہے‘ رجب بٹ ہے‘ حریم شاہ ہے اور جنت مرزا ہے جس کے فالو ورز کی تعداد پچیس ملین یعنی ڈھائی کروڑ ہے۔ یہی حال دیگر ٹک ٹاکرز کا ہے۔ ٹک ٹاکرز کی غیرمعمولی مقبولیت کی واحد وجہ یہ ہے کہ عوام کو تماش بینی سے غرض ہے۔ جس ٹک ٹاکر کی غیر اخلاقی وڈیو لیک ہوتی ہے اگلے روز اس کے فالوورز کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ عوامی سطح پر فی الوقت پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر عمران خان کے فالو ورز کی تعداد ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر 21ملین‘ انسٹا گرام پر 10ملین اور ٹک ٹاک پر 11ملین سے زائد ہے۔ مریم نواز شریف کے ایکس پر فالوورز کی تعداد چھ ملین ہے (اور ماہرین کے مطابق اس میں بہت سے اکاؤنٹس جعلی ہیں) جبکہ انسٹا گرام پر ان کے فالوورز کی تعداد محض سوا آٹھ لاکھ ہے۔ بلاول بھٹو کے ایکس پر فالوورز کی تعداد 5.14ملین اور انسٹا گرام پر یہ تعداد تین لاکھ سے بھی کم ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ یہ قوم اپنے مقبول ترین سیاسی لیڈروں سے بھی زیادہ غیر سنجیدہ‘ غیر اخلاقی‘ الٹے سیدھے موضوعات اور دوسروں کی توہین کرنے اور مذاق اڑانے والے نام نہاد سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور کانٹینٹ کریئٹرز سے متاثر ہے۔
قوم کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ایک بچے نے صرف یہ کہہ دیا کہ '' پیچے دیکو‘ پیچے دیکو‘‘ (پیچھے دیکھو‘ پیچھے دیکھو) اور وہ بچہ ایسا مشہور ہوا کہ لگتا تھا کہ یہ پاکستان کا آئن سٹائن ہے جس نے ''پیچے دیکو پیچے دیکو‘‘ کہہ کر ایسا محیرالعقول انکشاف کیا ہے کہ قوم اس سے پہلے اس سے محروم تھی۔ عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف میں سابقہ مقبول اور حالیہ معتوب شیر افضل مروت کی ساری مقبولیت اور سیاسی اٹھان صرف ایک جملے پر مشتمل تھی کہ ''پروگرام تو وڑ گیا‘‘۔ موصوف صرف اس ایک جملے کی بدولت مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے پی ٹی آئی کے توپ ترجمان بنے اور پھر قومی اسمبلی کی رکنیت سے سرفراز ہوئے۔ ان کا کل سیاسی اثاثہ ایک وہی جملہ تھا۔ اسی ایک جملے نے ان کو ایسا بانس پر چڑھایا کہ جب تک پوری پارٹی خود وڑ نہیں گئی وہ اس کے افق پر چمکتے اور چہکتے رہے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
جب سے موبائل فون لوگوں کے ہاتھ میں آیا ہے جس کا دل کرتا ہے وہ جرنلسٹ بن جاتا ہے۔ جس کے جی میں آتی ہے وہ ٹک ٹاکر بن جاتا ہے‘ جن کی اُردو درست نہیں وہ بھی وی لاگر کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ جن لڑکیوں سے گھر والوں نے قطع تعلق کر رکھا ہے ہم انہیں فالو کر رہے ہیں اور جن لڑکوں کو گھر والوں نے عاق کر رکھا ہے وہ ہمارے آئیڈیل ہیں۔ پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ ملک آخر ترقی کیوں نہیں کر رہا؟
جس ملک میں دانشوروں‘ علما‘ محققین‘ سائنسدانوں‘ موجدوں اور فکر و فہم رکھنے والوں کے بجائے نقال‘ لوگوں کی توہین کرنے والوں‘ اقدار کا مذاق اڑانے والوں‘ مذہب کو متنازع بنانے والوں‘ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنے والوں اور بلامقصد یاوہ گوئی کرنے والوں کو کروڑوں کی تعداد میں لوگ فالو کریں تو وہاں ویسی ہی اقدار پروان چڑھیں گی جن کو ہم بھگت رہے ہیں۔ بقول میاں محمد:
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved