ایک اور عافیت کدے کی باری آ گئی۔ دوحہ‘ قطر کی ایک عمارت پر حملہ کرکے اسرائیل نے بظاہر حماس کے کئی رہنماؤں کو شہید کر دیا ہے۔ اسرائیل نے اس حملے کی تصدیق کی ہے۔ عرب میڈیا نے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ سمیت چھ افرادکی شہادت کی خبر دی تھی لیکن حماس نے قیادت کو محفوظ بتایا ہے‘ البتہ خلیل الحیہ کے صاحبزادے سمیت عملے کے کچھ افراد کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خالد مشعل‘ خلیل الحیہ‘ ظہیر جبران‘ محمد درویش اور ابو مرزوق اس اجلاس میں موجود تھے جو جنگ بندی کی امریکی تجاویز پر غور کیلئے جاری تھا۔ امریکہ کے ایما پر مذاکرات کیلئے یہ لوگ قطر میں تھے۔ کسی بھی سفارتی‘ اخلاقی لحاظ سے اس حملے کا کیا جواز تھا؟
ہر بین الاقوامی قانون کو پامال کرکے اسرائیلی من مانی کارروائی کی ویسے تو بے شمار مثالیں ہیں‘ لیکن کئی عشروں میں کسی طاقتور عرب ملک پر براہِ راست حملے کی یہ پہلی کارروائی ہے۔ حملے کی حماس اور قطر کو توقع ہی نہیں ہو گی لیکن دنیا کے لیے بھی یہ حیران کن ہے۔ اس لیے بھی کہ قطر بہت مدت سے غیرجانبدار کردار اختیار کیے ہوئے ہے اور دنیا کی جنگوں میں فریقین اور متعلقہ ممالک کو ایک میز پر بٹھانے کی تاریخ رکھتا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے بیچ قطر ہی نے مصالحت کار کا کردار ادا کیا تھا اور بالآخر ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ ملا۔ اب غزہ میں جاری جنگ میں بھی قطر مسلسل مصالحت کار کا کردار نبھاتا چلا آیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان ابتدائی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی قطر میں ہوا تھا۔ ایسے میں اسرائیل کا قطر پر حملہ اس خطے میں نئی آگ بھی بھڑکا سکتا ہے اور جنگ بندی کی کوششیں ناکام بھی بنا سکتاہے۔ اسرائیل تو ہمیشہ سے نہ عالمی رائے عامہ کی پروا کرتا ہے نہ کسی ملک سے تعلقات کی اور نہ جنگ پھیل جانے کے خطرے کی۔ یہ اس کا معمول بن چکا ہے‘ لیکن بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور قطر کی سالمیت پر حملے نے ایک طرف قطر کو شرمندہ کرکے اس کے دفاعی نظام کو عیاں کر دیا ہے۔ دوسری طرف اس کیلئے یہ بھی مسئلہ ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرے یا نہ کرے اور کرے تو کس حد تک۔ دونوں صورتوں میں بے شمار مسائل ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قطر کے مصالحتی کردار کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا آئندہ ایسے کسی مذاکراتی عمل میں قطر کے اندر امریکی یا اسرائیلی محفوظ ہوں گے؟ یا حماس دوبارہ قطر میں خود کو محفوظ سمجھے گی؟ بلکہ اگر یہ روایت پڑ گئی تو اسرائیل کا کوئی بھی مخالف‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو‘ قطر میں غیرمحفوظ ہی سمجھا جائے گا۔ اسرائیل کسی بھی وقت کسی کو بھی ختم کر سکتا ہے۔
اگرچہ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبد الرحمن الثانی نے حملے کے بعد پریس کانفرنس میں اسے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زبانی مذمتوں اور بیانات کے بجائے اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا‘ لیکن دیکھنا ہے کہ کیا یہ پریس کانفرنس ایک رسمی کارروائی ہی رہے گی؟ قبل ازیں ایران‘ اسرائیل جنگ میں بھی بڑے بڑے دعوے سامنے آئے تھے لیکن عملی کارروائیاں دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ قطر نے وائٹ ہاؤس ترجمان کی بات بھی مسترد کی ہے جس میںکہا گیا کہ امریکہ نے قطرکو اس اسرائیلی حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ قطر کے مطابق امریکہ نے اطلاع اس وقت دی جب دوحہ دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ حملہ میری نہیں‘نیتن یاہو کی مرضی سے ہوا ہے اور میں نے قطر کے حکمرانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ یہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو قطر کے کچھ ماہ پہلے دورے میں ایک کھرب دو ارب ڈالر تجارتی معاہدوں کی صورت میں جھولیاں بھر کر واپس لوٹے تھے۔ یہ وہ ٹرمپ ہیں جن سے قطر نے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ یہ وہ ٹرمپ ہیں جنہیں خوش کرنے کیلئے مئی میں قطر نے 400ملین ڈالر کا لگژری طیارہ تحفے میں دیا۔ لیکن یہ سب قطر کو اسرائیل اور امریکہ گٹھ جوڑ سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی حملے پر ناخوشی کے اظہار کی کیا حیثیت ہے؟ کیا اس یقین دہانی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایسی یقین دہانیاں تو پہلے بھی کرائی جاتی رہی ہیں۔
طاقتور خلیجی ممالک پر یہ اسرائیل کا پہلا براہِ راست حملہ ہے۔ یہ کھلا اعلان ہے کہ اسرائیل مخالف ملکوں کے خلاف کس حد تک جا سکتا ہے‘ خواہ وہ حماس کی جنگ میں کتنے ہی غیر جانبدار ہوں۔ یہ حملہ واضح طور پر عرب ملکوں کو پیغام دیتا ہے کہ وہ اسرائیل کی مخالفت سے باز آجائیں ورنہ وہ اپنے ملکوں اور اپنے گھروں میں بھی نہیں رہ سکیں گے۔ یہ کھلا اشارہ ہے کہ سعودی عرب‘ بحرین‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکمران اپنے محلات میں خود کو محفوظ نہ سمجھیں‘ کسی وقت بھی ان پر قیامت ٹوٹ سکتی ہے۔ عرب ملکوں کو اسرائیل کی طرف سے مزید کتنے اعلانات‘ کتنے اشاروں اور کتنے حملو ں کا انتظار ہے؟ کیا یہ انتظار ہے کہ قطر کے بعد اگلی باری کس کی ہے؟ اگر قطر جیسے ملک میں اسرائیل اپنے مخالفوں کو مار سکتا ہے تو باقی ملک کس شمار میں ہیں؟
اس حملے نے ایک طرف جنگ بندی کی کوششوں کو سبو تاژ کر دیا ہے۔ دوسری طرف قطر کیلئے جوابی کارروائی کا بہت بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے جو زبانی مذمت اور تنبیہات سے بڑھ کر ہو۔ تیسرا یہ کہ حملہ عرب بادشاہتوں کو خوفزدہ کر دے گا کہ معلوم نہیں اگلی باری کس کی ہے۔ امیر قطر سے پاکستان‘ سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے رابطہ کیا اور اس حملے کی مذمت کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہم قطر کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن زبانی مذمت سے کیا ہوتا ہے۔ ایک مٹھی برابر رقبے کا ملک جسے چاہے روند کر رکھ دیتا ہے اور بڑے بڑے مالدار اور وسیع علاقوں کے ملک زبانی مذمت سے زیادہ کسی بات کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہ کھلی حقیقت عربوں کو نظر آئے یا نہ آئے‘ انہیں اپنے عافیت کدوں سے نکلنا ہی پڑے گا۔ انہیں بالآخر اس دشمن کے خلاف اترنا ہی پڑے گا جو ایک ایک کرکے سب کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے۔ وہ عرب ممالک جو جغرافیائی طور پر اسرائیل کے قریب ہیں‘ انہیں زیادہ خطرہ ہے لیکن مامون وہ بھی نہیں جو دور ہیں۔ بات نہ عربوں کے پاس مال و دولت کی ہے‘ نہ اسلحے کی۔ آپ جانتے ہیں کہ قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے 10 گنا زیادہ ہے۔ یہی صورت مصر اورسعودی عرب وغیرہ کی بھی ہے۔ بات اس جذبے اور اس حوصلے پر آکر رک جاتی ہے جو اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے لازمی ہے۔ زیادہ دفاعی بجٹ اور بڑی بڑی تجوریوں سے یہ جذبہ اور حوصلہ خریدا نہیں جا سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ممالک کے فیصلہ ساز وہ ہیں جن کے اندر یہ حوصلہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ انہیں اپنے اثاثوں اور سلطنتوں کا خوف ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو اسرائیل اور امریکہ کو مزید شیر کیے دیتا ہے۔
کہتے ہوئے دل دکھتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایک طرف خوف اور دوسری طرف تکبر عربوں کی شناخت بن چکے ہیں۔ اس واقعے اور ایسے واقعات کی کتنی بھی تشریحات‘ تاویلات کر لی جائیں‘ حقیقت صرف ایک ہے۔ اور وہ حقیقت اس دور میں سورج کی طرح روشن ہو چکی ہے۔ بار بار دہرائی جانے والی یہ حدیث شریف ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔ ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''نہیں‘ بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کے مانند ہو گے‘ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ''وہن‘‘ ڈال دے گا‘‘۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول ''وہن‘‘ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved