میں اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوں اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کس موضوع پر کالم لکھا جائے۔ ایک طرف سیلاب کی سرائیکی علاقوں میں تباہ کاریاں ہیں جہاں بقول ہمارے ملتانی صحافی دوست شکیل انجم بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور جب پانی اترے گا تو دنیا کو اندازہ ہو گا کہ کتنی بڑی قیامت ان علاقوں میں گزر گئی ہے اور بچوں‘ خواتین اور مردوں کو کیسے لمحوں میں پانی نگل گیا۔ دوسری طرف یہاں اسلام آباد میں روز کسی نہ کسی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چل رہا ہوتا ہے جہاں میں جاتا ہوں تاکہ پتا چلے کہ اس ملک کے عوام کیلئے بیورو کریٹس اور عوامی نمائندے کیا کر رہے ہیں؟
میں سرائیکی علاقوں میں خوفناک تباہی کے جو مناظر ملتانی دوستوں شکیل انجم اور جمشید رضوانی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اور ان کی خبروں کے ذریعے دیکھ اور پڑھ رہا ہوں وہ دہلا دینے والے ہیں۔ ان علاقوں میں لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں یا پانی میں ڈوب رہے ہیں لیکن دوسری جانب جب میں قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہوتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ اس ملک میں کتنی لُٹ مچی ہوئی ہے۔ اب بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت میں تین گھنٹے کے اجلاس کی کارروائی دیکھ کر آیا ہوں جس کی صدارت سینیٹر انوشہ رحمن کررہی تھیں۔ بدھ کے روز سینیٹ کی کمیٹی برائے فنانس کا اجلاس تھا جس کی صدارت سلیم مانڈوی والا کر رہے تھے۔ اگرچہ ہمارے ہاں عام تصور یہ ہے کہ سیاستدان نالائق اور کرپٹ ہیں اور موقع ملنے پر ایک ٹکا بھی نہیں چھوڑتے‘جبکہ بیورو کریٹس بڑے اچھے ہیں‘ اگر یہ نہ ہوتے تو سیاستدان کب کا ملک کو بیچ کر نکل جاتے۔ ان دونوں باتوں میں کسی حد تک سچائی ہے لیکن تیسری بات بھی اہم ہے‘ جس کا ہمارے ہاں کم لوگوں کو علم ہے‘ مگر جب لوگوں کو اس کا علم ہوتا ہے کہ بیورو کریسی کیسے اندھا دھند مال بنا رہی ہے تو اس وقت سیاستدان فرشتے لگنے لگتے ہیں۔ یقینی طور پر سب بیورو کریٹس برے نہیں‘ بہت سارے اچھے افسران بھی ہیں‘ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ اب تو غیرمعمولی چھوڑیں‘ تھوڑا سا مناسب افسر بھی کسی کمیٹی میں اچھی گفتگو کرتا مل جائے یا اپنے محکمے یا وزارت پر اٹھائے گئے سوالات کا مناسب جواب دے کر سینیٹرز اور ایم این ایز کو مطمئن کر سکے تو حیرانی ہوتی ہے۔
پچھلے چند ہفتوں میں اوپر نیچے قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا اور بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا اور یقین کریں اس سے ڈپریشن ہی ہوا‘ حالانکہ ہم صحافی دھیرے دھیرے یہ سب کچھ دیکھ کر ڈھیٹ ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کمیٹی اجلاسوں میں ایسے ایسے کیسز آپ کے سامنے آ جاتے ہیں کہ ڈھیٹ ہونے کے باوجود آپ کو بڑا دھچکا لگتا ہے کہ اب بھی بڑے بڑے وارداتیے ہمارے اندر موجود ہیں جو قانون کے نام پر لُٹ مار مچائے ہوئے ہیں اور اپنی اس لُٹ مار کے ایسے ایسے جواز پیش کرتے ہیں کہ سینیٹرز چکرا جاتے ہیں۔ یہ دو‘ تین کیسز ہی دیکھ لیں جو سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں پیش ہوئے بلکہ اس سے پہلے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی لینڈ کیے‘ یہ کیسز سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ان کے تین کمشنرز کے بارے میں تھے۔ پتا چلا کہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چار بڑے افسران نے اپنی تنخواہیں خود ہی بڑھا کر چالیس کروڑ روپے الاؤنس کے نام پر لے لیے۔ مزے کی بات ہے کہ تنخواہ بڑھا کر انہوں نے کہا کہ ہم یہ تنخواہیں بیک ڈیٹس سے لیں گے۔ مطلب پچھلے کئی ماہ کی تنخواہیں بھی شامل کر لیں۔ ویسے ان سکیورٹی ایکسچینج کمیشن افسران کو عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے جیل سے بیٹھ کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر سے استعفیٰ لے لیا۔ جنید اکبر نے جس دن یہ استعفیٰ دیا اسی دن پی اے سی کے ایجنڈا پر ان سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے افسران کی ''قانونی واردات‘‘ پر بات ہونا تھی اور پی اے سی ممبران پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے کہ ہماری چند لاکھ تنخواہ بڑھ جائے تو میڈیا اور عوام واویلا کرنے لگتے ہیں اور یہاں چالیس کروڑ کا بونس صرف چار افسران نے آپس میں بانٹ لیا۔ لیکن اللہ بھلا کرے عمران خان کا‘ انہوں نے فرمایا کہ اس کمیٹی کے چیئرمین‘ جو پی ٹی آئی کے جنید اکبر تھے‘ استعفیٰ دے دیں۔ یوں کمیٹی میں اس دن چیئرمین نہ تھا تو ان افسران کی بچت ہو گئی اور پی اے سی ہی ختم ہو گئی۔
خیر پھر سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں یہی ایشو اٹھا جو انوشہ رحمن اور محسن عزیز نے اٹھایا تھا۔ وہاں چیئرمین سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن عاکف سعید کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ اختیار حکومت نے دے رکھا ہے کہ ہم اپنی تنخواہ اور مراعات کا تعین خود کر سکتے ہیں۔ اس پر فاروق ایچ نائیک صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی کہ حکومت نے اگر آپ کو اتھارٹی دی بھی تھی تو آپ نے اس قانون کا مناسب استعمال کرنا تھا یا اس قانون کا غلط استعمال کرنا تھا کہ چار افسران نے چالیس کروڑ روپے پچھلی تاریخوں سے لے لیے کہ قانون اجازت دیتا ہے۔ مطلب آپ کو قانونی اختیار مل جائے تو آپ پورا کھیت اجاڑ دیں گے یا اپنی مراعات میں کوئی مناسب سا اضافہ کریں گے؟
انوشہ رحمن نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو تین فیڈرل سیکرٹریز فنانس‘ کامرس اور وزارتِ قانون اس سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بورڈ کے ممبران ہیں‘ ان کو بورڈ ممبرز بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ چیئرمین اور کمشنرز کو اندھا دھند لوٹ مار کرنے سے روکیں لیکن پتا چلا ہے کہ وہ تینوں افسران بھی اس لُٹ مار میں افسران کے ساتھ تھے۔ جن کا کام اس لُٹ مار کو روکنا تھا وہی اس کا راستہ صاف کر رہے تھے۔ اس پر چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بڑی زبردست بات کی کہ ان بورڈز میں ایک نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پہلے بورڈز کے ممبران چیئرمین اور ایم ڈی کو اَن گنت مراعات اور بونس یا تنخواہ کے نام پر کھل کر نوازتے ہیں‘ جواباً محکمے کا چیئرمین یا ایم ڈی بورڈ ممبران پر مراعات اور دیگر انعام و اکرام کی بارش کر دیتا ہے۔ یوں دونوں کا کام چل رہا ہے اور اس کھیل میں بڑے بڑے سرکاری بابوز شامل ہیں۔
اس اجلاس میں ایک اور انکشاف ہوا کہ اس کمیشن کے افسران کو نوازنے کیلئے سیلری سلپ میں کل سترہ کالمز بنائے گئے اور ہر کالم میں الگ الگ لاکھوں کروڑوں روپے شو کرائے گئے۔ اندازہ کریں کہ ایک سیلری سلپ پر سترہ کالم ہیں جو ایک بندے کی تنخواہ ہے۔ کمیٹی نے ان سترہ کالموں کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ یہ دراصل ٹیکس بچانے کا طریقہ ہے۔ اندازہ کریں کہ افسران خود ٹیکس سے بچنے کیلئے مختلف کالموں کا سہارا لے رہے ہیں۔ ویسے کسی نے کمیشن کے چیئرمین اور دیگر تین ممبران کو نہیں بتایا کہ وہ after tax تنخواہ کی منظوری لے لیتے اور اسی بورڈ سے منظوری کراتے جس کے ممبران نے چالیس کروڑ کے الاؤنس منظور کر لیے تھے‘ وہ دو تین کروڑ روپے مزید بھی دے دیتے۔ یہ پیسہ کون سا بورڈ ممبران کی جیب سے جا رہا تھا۔
بورڈ سے یاد آیا کہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے نو میں سے تین ممبران تو فیڈرل سیکرٹریز ہیں‘ باقی چھ ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے ہیں اور سبھی کراچی سے ہیں۔ ابھی یہ قصہ ختم نہیں ہوا اور کمیٹی میں چل رہا ہے لہٰذا آپ کو اس کی مزید کہانیاں سناتا رہوں گا۔ ہاں! نیشنل کارپوریشن کے سابق چیف ایگزیکٹو کا پتا چلا کہ ان موصوف نے بھی اس طرح بورڈ ممبران کو ساتھ ملا کر 34کروڑ روپے کا بونس تین سال میں لیا اور چلتے بنے۔ ایک طرف پانی نے وسطی پنجاب سے سرائیکی علاقوں تک تباہی مچائی ہوئی ہے تو دوسری طرف ان بابوز نے کراچی سے اسلام آباد تک مالی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک اکیلا بندہ 34کروڑ لے اڑا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved