تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-09-2025

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

42 برس قبل کی بات ہے‘ جب میں نے پاکستان کی خدمت کرنے کیلئے ایک انوکھی تجویز سوچی‘ اور وہ یہ تھی کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر پاکستان کے دوستوں کے گروپ کا قیام عمل میں لایا جائے‘ جو پاکستان کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے ایک انقلابی منشور لکھے اور برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو (اپنے خرچ پر) پاکستان کا دورہ کرائے تاکہ ان کا پاکستان کے ساتھ دوستی کا رشتہ مضبوط ہو اور وہ پارلیمان کے اندر اور باہر وہ پاکستانی مفادات کی حفاظت کریں۔ اس کا آغاز ہم نے وسطی انگلستان کے ایک شہر Coventry کے ایک پارلیمنٹرین Mark Fisher سے کیا۔ یہ دورہ بہت کامیاب رہا۔ ارشد سیٹھی مرحوم (جو ایچی سن کالج میں میرے شاگرد تھے) نے پنجاب کلب میں معزز مہمان کے اعزاز میں ایک استقبالیے کا اہتمام کیا۔ مارک فشر نے لاہور کے ایک ہال میں جلسۂ عام سے خطاب کیا اور صحافیوں سے ملاقات بھی کی۔اس کے بعد ''فرینڈز آف پاکستان‘‘ کی دعوت پر برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے سربراہLord Avebury پندرہ برسوں میں پانچ بار پاکستان تشریف لائے اور ہر بار میرے ساتھ آزاد کشمیر بھی گئے۔ انہوں نے ہر بار کشمیر کے عوام کی آزادی کی حمایت اور کشمیر پر ناجائز اور غیرقانونی بھارتی قبضے کی اتنی کھل کر مذمت کی کہ بھارتی حکومت نے ناراض ہو کر ان کا بھارتی ویزا منسوخ کر دیا۔لارڈ ایوبری کے دورے ختم ہوئے تو فرینڈز آف پاکستان نے ہاؤس آف کامنز کے سابق سپیکر اور ہاؤس آف لارڈز کے ممتاز رکنLord Weatherall کو پاکستان میں اپنا مہمان بنایا۔ اس دورے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس وقت کے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان نے ایک خصوصی تقریب میں معزز مہمان کو نشانِ امتیاز عطا کیا اور لارڈ ویدرال ہاؤس آف لارڈز کے ہر اجلاس میں یہ نشان اپنی جیکٹ پر آویزاں کرکے شریک ہوتے تھے۔ لارڈ ایوبری فرینڈز آف پاکستان کمیٹی کے تاحیات صدر تھے اور میں سیکرٹری۔ ان کی وفات کے بعد اس کمیٹی کا شیرازہ بکھر گیا۔
اب چلتے ہیں فرینڈز آف پاکستان کے منشور کی طرف۔ پہلا فیصلہ تو یہ کیا گیا کہ میں نے (مٹھی بھر) ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی تنظیم بنائی جس کا نام رکھا گیا ''آوازِ خلق برائے انقلابی اصلاحات اور شرکتِ عوام‘‘۔ ایک سال کے غورو خوض اور باہمی مشاورت سے ایک منشور مرتب کیا گیا جس کے بارہ نکات تھے اور سب سے پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے موجودہ چار صوبوں کی جگہ ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دیا جائے تاکہ چھوٹے انتظامی یونٹ اپنا نظم و نسق زیادہ بہتر طریقے سے چلا سکیں۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت اختیارات کے ارتکاز کو ختم کرکے ڈی سینٹرلائزیشن کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔ مقامی حکومتوں‘ جو خود مختار اور باوسائل ہوں‘ کا جمہوری نظام قائم کیا جائے۔ 42 برس بیت چکے کہ آوازِ خلق کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ بھلا ہو کراچی میں رہنے والے ایک گمنام سیاسی کارکن مرزا جواد بیگ مرحوم کا کہ انہوں نے ایک بڑے جریدے میں ہمارے مطالبات کی حمایت میں ایک مضمون لکھا۔ اگلا سنگِ میل یہ تھا کہ کراچی کے ایک ممتاز صنعتکار جناب خلیل احمد نینی تال والا نے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دینے کی حمایت میں ایک بہت اچھی کتاب لکھی۔ تیسرے مرحلہ پر مینارِ پاکستان پر ہونے والے ایک بڑے جلسے میں جناب طاہر القادری نے نہ صرف مقامی حکومتوں کے قیام پر زور دیا بلکہ پاکستان میں صوبوں کی تعداد بڑھانے کے حق میں دلائل بھی دیے۔
اس تقریر کے بعد ایک طویل عرصہ خاموشی طاری رہی۔ سہ ماہی ''آوازِ خلق‘‘ گزرے بارہ برسوں میں مندرجہ بالا دونوں مطالبات کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ لگتا تھا کہ ہماری فریاد کوئی نہ سنے گا۔ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اب ''آوازِ خلق‘‘ کے ساتھیوں کی خوشی اور حیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں جب انہوں نے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود صاحب کی وسط اگست میں کی گئی ایک تقریر کا متن پڑھا۔ جو بات 42برسوں سے ہمارے نہاں خانۂ دل میں تھی‘ وہ اگست میں پاکستان کی سب سے بڑے سیاسی خبر بن گئی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایک فرد دیانتداری سے کوئی اچھی بات سوچے تو جلد یا بدیر قدرت اس کو شرفِ قبولیت بخشتی ہے۔ میاں عامر محمود صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس کا غور سے جائزہ لیا جائے تو وہ نوشتۂ دیوار نظر آتا ہے۔ 25 کروڑ افراد کے ملک میں یہ سعادت عامر محمود صاحب کے حصہ میں آئی کہ وہ اس نوشتۂ دیوار کو پڑھ کر یارانِ نکتہ داں کو صلائے عام دیں۔
موجودہ چار صوبوں کی جگہ ہر ڈویژن (جن کی تعداد 33 ہے) کو صوبائی درجہ دینے کے حق میں اسی صفحہ پر دیگر معزز کالم نگاروں نے جتنے اچھے دلائل دیے ہیں‘ ان میں اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں اور ان کی تکرار عبث ہو گی۔ میں قارئین کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے جس میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کے زریں اصول کو تسلیم کیا گیا ہے مگر عملاً پاکستان وفاقی نہیں وحدانی طرزِ حکومت کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ وفاقی نظام کا مطلب ہوتا ہے مقامی حکومتوں کا زیادہ سے زیادہ اختیارات کا مالک ہونا اور مرکزی حکومت کے پاس کم از کم اختیارات کا ہونا۔ پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اگر کبھی نیم دلی سے ان کے وجود کی اجازت دی بھی جائے تو ان کے پر کاٹنے‘ انہیں بے اختیار اور بے وسائل کرنے اور انہیں سرکاری افسروں کے ماتحت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اس صدی کے شروع میں پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں مقامی حکومتوں کا جو نظام قائم کیا گیا‘ اسے بجا طور پر بہترین کہا جا سکتا ہے۔ ہم نے پرویز مشرف کی آمریت سے نجات پائی تو (انگریزی محاورے کے مطابق) ٹب میں نہانے والے بچے کو بھی ٹب کے پانی کے ساتھ باہر پھینک دیا۔ یہ ترقیٔ معکوس کی بہترین مثال ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم مذکورہ نظام کی خامیاں دور کر کے اسے خوب سے خوب تر بناتے‘ ہم نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس کارِ بد میں افسر شاہی اور ہمارے روایتی سیاستدانوں کے درمیان قدرتی اتحاد‘ باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کا قابلِ صد مذمت گٹھ جوڑ نظر آیا۔ مقامی حکومتیں مضبوط ہوں گی تو روایتی سیاستدانوں کی تھانہ کچہری کی سیاست کو شدید خطرہ لاحق ہو جائیگا۔ روایتی سیاستدان اپنے حلقہ کی سڑکیں اور گلیاں پکی کرانے کے بہانے ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے بطور ترقیاتی فنڈ غبن کر لیتے ہیں۔ اگر یہ کام مقامی حکومتوں نے سنبھال لیا (جو ان کا اولین فریضہ ہونا چاہیے) تو صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کی یہ لوٹ مار ختم ہو جائے گی۔ اگر چار صوبوں کو 33 صوبائی اختیارات کی حامل ڈویژنز میں تبدیل کر دیا جائے تو ہمارے آدھے سے زائد مسائل فی الفور حل ہو جائینگے۔ اس وقت ہمارے حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ نہ باگ پر ہاتھ ہے اور نہ پاؤںرکاب میں ۔ رخشِ عمر کی طرح رخشِ حکومت بھی (جس طرف اس کا دل چاہے) بے لگام بھاگ رہا ہے۔
ملک میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ایک بار پھر موجودہ نظامِ حکومت کے دیوالیہ پن کا پول کھول دیا ہے۔ میں وسط اکتوبر میں پاکستان آؤں گا تو میاں عامر محمود صاحب کا شکریہ ادا کرنے ضرور جاؤں گا اور انہیں دوستانہ مشورہ دوں گا کہ وہ ہمارے ناقص ترین طریقِ انتخاب کو ختم کرکے اس کی جگہ متناسب نمائندگی کے حل کو اپنانے کے حق میں بھی آواز بلند کریں۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہوگا کہ اس نے 42برسوں کے بعد چہروں کے بجائے نظام بدلنے والوں کی دعا کو قبولیت بخشی۔ اقبال کی ایک کمال کی غزل کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا‘ اختتام بھی اقبال کے ایک شعر پر کرتے ہیں‘ جو حسبِ حال ہے:
ہوائے دشت سے بُوئے رفاقت آتی ہے
عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved