خدا جانے کوئی حکمت ہے یا دائمی بدنصیبی‘ منہ سے نکلے الفاظ ملک و قوم کا مقدر ہی بنتے چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ گھاس پھوس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ یہ مقصد تو برسوں قبل حاصل ہو گیا لیکن عوام کو اب بھی گھاس پھوس کے علاوہ ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے ساتھ جھانسے اور دھوکے بھی برابر کھانے پڑ رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ اسی طرح مرحوم و مغفور مُربی عباس اطہر المعروف شاہ جی کی جمائی ہوئی کم و بیش 29 سال پرانی سرخی آج بھی زندہ اور حسبِ حال لگتی ہے کہ ''شیر آٹا کھا گیا‘‘۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کھانے کا لطف دوبالا کرنے کے لیے اب اس نے چینی بھی شامل کر لی ہے جبکہ چسکا مزید بڑھانے کے لیے گھی کے ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ بھی مینو میں شامل ہو رہی ہیں۔
سامنے بکھرے سبھی اخبارات میں مشترک شہ سرخی وزیراعظم کی طرف سے زرعی و ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان ہے جبکہ دوسری طرف ہیلتھ ایمرجنسی میں لاہور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال جانے والی ایک مریضہ کو پتے کے آپریشن کے لیے اپریل 2027ء کی تاریخ دی گئی ہے جبکہ احتیاطی تدابیر میں درد اور تکلیف سے بلکنے اور تڑپنے کی بھرپور آزادی کے علاوہ پتے کو پتھری کا سائز بڑھنے کی صورت میں پھٹنے کی کوئی ممانعت نہیں۔ ایسی جان لیوا ناگہانی صورتحال کو حکم ربی سے منسوب کر کے کسی قریبی ہسپتال لے جاکر اِتمامِ حجت بھی کیا جا سکتا ہے۔ جسم میں زہر پھیلنے کی ایمرجنسی پر مسیحا آپریشن کے لیے کون سی تاریخ اور کون سا سن تجویز کرتے ہیں‘ اس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ احساسِ عوام کے تحت ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کے آپریشن کا فیصلہ شاید مہورت نکال کر کیا جاتا ہے‘ ممکن ہے ستمبر 2025ء میں پتے کے آپریشن کے لیے آنے والی مریضہ کا شُبھ مہورت اپریل 2027ء نکلا ہو اور مسیحاؤں نے آپریشن کی ناکامی اور بدشگونی ٹالنے کے لیے اسے تقریباً 19ماہ مؤخر کر دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قصور وار عوام بھی ہیں‘ ایویں وقت بے وقت بیمار ہو جاتے ہیں‘ اپنے جسموں کے اندر پتھریاں اور ناسور پال لیتے ہیں‘ جب جان پہ بنتی ہے تو ایمرجنسی میں بھاگے چلے آتے ہیں کہ بروقت آپریشن نہ ہوا تو جان بھی جا سکتی ہے۔ ایمرجنسی تو مریض کو لاحق ہے‘ مسیحاؤں کو تو نہیں‘ جان تو ایک دن جانی ہی ہے‘ کیا آپریشن سے پہلے کیا آپریشن کے بعد‘ آپریشن سے پہلے جان جانے کی صورت میں مریض کو آپریشن کی تکلیف اور کاٹ پیٹ سے تو بچایا ہی جا سکتا ہے۔
اب چلتے ہیں وزیراعظم کی لگائی گئی ایمرجنسی کی طرف۔ خاطر جمع رکھیے! ابھی تو سیلابی صورتحال جاری ہے‘ پانی اپنے اہداف کی طرف رواں دواں ہے‘ پانی کے حتمی پڑاؤ کے بعد آباد کاری کے کڑے مرحلے سمیت بھوک‘ بیماری کے علاوہ چھینا جھپٹی اور نجانے کیسے کیسے عذاب و عتاب سر اٹھانے کو ہیں جبکہ سیلاب کو اکانومی سمجھنے والے پہلے ہی آستینیں چڑھا کر مال بنانے کود پڑے ہیں۔ کوئی مالِ غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہے تو کوئی ریسکیو کے منہ مانگے دام وصول کر رہا ہے۔ اتنی بڑی تباہی اور انسانی المیے کے آگے حکومتی وسائل اور اقدامات کم پڑ چکے ہیں۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی مدد طلب کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف خطے میں انقلابی تبدیلیوں کا سیلاب تھمنے کو تیار نہیں۔ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے بعد نیپال کے عوام نے تو حالیہ سبھی ریکارڈ چکنا چور کر ڈالے ہیں۔ صرف 36گھنٹوں میں دنیا کو وہ سبھی مناظر دِکھا ڈالے کہ عوام کی زندگیاں تنگ کرنے والوں پر زمین تنگ پڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز پر تبصرہ شروع کروں تو ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ جب زمینی قانون داد رسی اور سماجی انصاف سے قاصر ہو تو قانونِ قدرت اپنے ہونے کا ثبوت ضرور دیتا ہے۔ وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں‘ جب آسمانوں سے مہلت ختم ہو جائے تو قصرِ اقتدار اور حفاظتی دستے پناہ دینے کے بجائے ٹھکرانے سے گریز نہیں کرتے۔ مشتعل ہجوم کے ٹھڈوں‘ جوتوں‘ لاتوں کے رحم و کرم پر زندگی کی بھیک مانگتے حکمران کس طرح عوام کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے تھے‘ اندھیر نگری چوپٹ راج ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد کو کون روک سکتا ہے۔ مفادِ عامہ کے منصوبے حکمران اور اشرافیہ کے بچوں کے اللوں تللوں پر وارے جاتے ہوں تو عوام میں احساسِ محرومی کی سلگتی چنگاریاں بھڑکتا ہوا الاؤ بن جاتی ہیں‘ اس آگ میں قصرِ اقتدار جل کر خاکستر ہو جائے یا کوئی زندہ جل مرے‘ کس کو معلوم یہ آگ کہاں تک پہنچے؟ ریاستی جبر اور آسمانوں کو چھوتی ہوئی ہوشربا لوٹ مار کے دفاع میں سوشل میڈیا کی بندش اور آزادیٔ اظہار جرم بن جائے تو ضبط اور برداشت کا پریشر ککر پھٹ ہی جاتا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے نیپال کے بعد اگلا نمبر بھارت کا لگا رہے ہیں۔ کشمیریوں کے استحصال اور سوشل میڈیا پر پابندی کے علاوہ بھارت میں علیحدگی کی تحریکوں کو کچلنے کے تانے بانے نیپال سے جوڑ کر بھارت کو اگلا ہدف ثابت کرنے کی دانشوری جاری ہے‘ ان سبھی کی جمع تفریق سے حاصل یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ بھارت میں جن موضوعات پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی اجازت ہے‘ خطے میں کوئی ملک اس کا ثانی نہیں ہے۔ راج نیتی کے بھید بھاؤ سے لے کر محلاتی سازشوں اور غلام گردشوں کے علاوہ سماج سیوک نیتاؤں کے روپ بہروپ جس بے باکی سے اُتارے جاتے ہیں اس کا تصور خطے کے دیگر ممالک میں ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی‘ سماجی بدعتوں اور وطن پرستی سمیت دیگر نازک موضوعات پر اٹھائے جانے والے سوالات فلمانے کا کریڈٹ بھی بجا طور پر انہیں جاتا ہے۔ تاہم یہ دو جمع دو کا فارمولا ہے‘ اس میں ضرب اور تقسیم لگانے والے خاطر جمع رکھیں! کہیں انیس بیس کا فرق ہے تو کہیں اٹھارہ بیس کا‘ حلف کے انحراف سے لے کر قانون اور ضابطوں کی پامالی سمیت سماجی ناانصافی اور کلیدی عہدوں کی مصاحبین میں بندر بانٹ اور اقربا پروری کے علاوہ سرکاری وسائل پر موج مستی اور تام جھام تک سبھی اپنی دھن میں مست ہیں۔ سبھی کے رتبے بس ان کے داؤ تک ہیں‘ جب تک داؤ چل رہا ہے ان کا سکہ بھی چل رہا ہے۔
اقتدار اور وسائل کے بٹوارے ہوں یا ایک دوسرے کے چوروں کو تحفظ دینے کی بدعت‘ سبھی طرزِ حکمرانی کے روپ بہروپ ہیں۔ نیپال میں عوام جیت چکے ہیں‘ سپریم کورٹ اور وزیراعظم ہاؤس سمیت وزرا کی رہائش گاہوں کو نذرِ آتش کرنے کے علاوہ پروٹوکول میں نکلنے والے وزرا کا گھیراؤ اور چھترول کے واقعات نے سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جس طرح قربِ قیامت کی نشانیاں پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں اسی طرح دنیا میں حکمرانی کی عطا کو اپنی ادا کا چمتکار سمجھنے والے حکمرانوں کی غلط فہمیاں اور مغالطے بھی دور ہوتے چلے جا رہا ہے۔ جبر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو جائے‘ صبر غالب آہی جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ خسارے میں ہیں وہ لوگ جو چلتی پھرتی زندہ نشانیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ نواز دیو بندی کے چند اشعار بس ایویں یاد آ گئے:
جلتے گھر کو دیکھنے والو! پھوس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے‘ آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved