اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ''بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے۔ اسی دن ان کی توبہ قبول کی گئی۔ اسی دن ان کا انتقال ہوا اور اسی دن قیامت برپا ہو گی (سنن ابی دائود)۔ یاد رہے کہ یہود کے لیے ہفتے کا دن مقدس ہے جبکہ اتوار کا دن مسیحی برادری کے لیے مقدس ہے۔ ہم اہلِ اسلام کے لیے جمعہ کا دن مقدس ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اپنی پیدائش کے دن کا خود اعلان فرمایا اور یہ دن سوموار ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ جی ہاں! اولین دن... یعنی جمعۃ المبارک کا دن بھی ہمارے حضور نبی کریمﷺ کا دن ہے اور سوموار کا دن بھی ہمارے حضورﷺ کا دن ہے۔ ہمارے حضورﷺ سید الاولین اور سید الآخرین ہیں۔ لوگو! ہر مسلم اعلان کر سکتا ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت کے دن تک کا زمانہ ہمارے حضورﷺ کی عظمت و رفعت کا زمانہ ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہر مسجد میں خطبہ کا دن ہے؛ یعنی یہ دعوت و تبلیغ کا دن ہے۔ جمعہ کا دن وہ دن بھی ہے جس کے بارے میں ہمارے حضورﷺ نے فرمایا کہ اس دن قیامت آئے گی۔ بات واضح ہو گئی کہ انسانیت کے آغاز کا دن جمعہ ہے تو اختتام کا دن بھی جمعہ ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ حضورﷺ قیامت کے دن تک آخری رسول ہیں۔ ہر جمعہ کو یہ اعلان ہوتا رہے گا۔ اور سوموار کا ہر دن حضورﷺ کے میلاد شریف کی یاد کو تازہ کرتا رہے گا۔
2025ء کے سال میں 12ربیع الاول کا بہار آفریں دن گزرنے کے بعد سوموار کا دن آیا تو یہ میلاد شریف کا دن تھا۔ اسی دن لاہور میں ایک تقریب تھی۔ جس ہال میں تھی اس کا نام ''ایوانِ اقبال‘‘ ہے۔حبِ حضور عالیشان اور کلامِ اقبال کے مابین ایسی سنگت ہے کہ جس کی نورانیت یہاں لمحہ بہ لمحہ جھلمل کرتی تھی۔ یہ ادارہ منہاج القرآن کی تقریب تھی‘ خرم نواز گنڈا پور صاحب اس کے منتظم اعلیٰ تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی اور افتتاحی گفتگو میں اعلان کیا کہ یہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی پانچ کتابوں کے افتتاح اور تعارف کی تقریب بھی ہے۔ چار دن قبل مجھے سیرت پاک پہ شائع ہونے والی کتاب کی پہلی جلد فراہم کردی گئی تھی اس کتاب کا نام '' الانوار من سیرۃ سید الابرار‘‘ ہے یعنی حضورﷺ کی سیرت پاک جو جو پڑھتا چلا جائے گا‘ اس پر عمل پیرا ہوتا چلا جائے گا وہ اَبرار (نیکوکاروں) کی صف میں جگہ بناتا چلا جائے گا۔ دنیا میں بھی عزت پائے گا‘ اگلے جہاں میں بھی سرفرازی پائے گا اور وہ مقام پا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ جو اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب میں بیان ہوا۔ ''اور بلاشبہ اَبرار لوگ نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے‘‘۔ (المطففین: 22)
کتاب ملنے کے بعد سوموار کے دن تک میرے پاس چار روز تھے۔ میں نے دن رات ایک کرکے مطالعہ شروع کر دیا اور بحمد للہ بارہ ربیع الاول کی رات تک ساڑھے سات سو صفحات پڑھ لیے۔ پہلا باب نورِ نبوت کے امین حضور کریمﷺ کا پاک شجرہِ نسب ہے۔ دوسرا باب انسانوں اور جنوں کے سردار حضور کریمﷺ کے ایمان افروز احوال پر مبنی ہے۔ تیسرا باب حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے اس پہلو پر ہے کہ نبوت سے پہلے اور بعد کی‘ ساری حیاتِ مبارک معصوم ہے اور تعلیماتِ نبوت کی حامل ہے۔ چوتھا باب اگلے جہاں میں حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے متعلق ہے۔ پانچواں باب آپﷺ کے معجزات پر اور چھٹا اور آخری باب ان خبروں اور پیشگوئیوں پر مبنی ہے جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے آپﷺ تک پہنچتا ہے۔ آپﷺ کا اپنا عہد مبارک ہے اور پھر قیامِ قیامت تک کی خبریں ہیں۔ جی ہاں! یہ پہلی جلد ہے۔ مستقبل میں ایسی کئی جلدوں کا تانتا بندھنے والا ہے۔
حسنِ کردار سے متعلق القابات پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کو اچھے اچھے القابات سے یاد فرمایا اور اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کو بشیر‘ نذیر‘ رئوف‘ رحیم‘ مزمل‘ مدثر اور سراج منیر جیسے القابات سے ملقب فرمایا۔ اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو صدیق‘ فاروق‘ غنی‘ ابوتراب‘ سید الشہداء‘ غسیل الملائکہ‘ سیف اللہ‘ سیدۃ النساء اہل الجنۃ اور صدیقہ وغیرہ جیسے خطابات اور القابات سے نوازا۔ قارئین کرام!ہم اپنے زمانے کی بات کریں اور پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو بانیِ پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں نے ''قائداعظم‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس لیے کہ انہوں نے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر پاکستان بنایا۔ لوگو! پاکستان میں ملکی شخصیات کو القابات مل رہے ہیں۔ ہمارے علماء کے لیے شیخ القرآن اور شیخ الحدیث کے القابات موجود ہیں۔ یہ ایسے القابات ہیں جو بعض علماء کی خصوصی علمی خدمات کے آئینہ دار ہیں۔ حضرت مولانا غلام اللہ کو شیخ القرآن کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری کو اہلِ علم نے شیخ القرآن کہا ہے۔ محترم سید جواد نقوی نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی خدمات اور امت کے اتحاد کے لیے ان کی جدوجہد کا ذکر کیا تو ڈاکٹر صاحب‘ جو آن لائن مجلس میں تشریف فرما‘ اس کی صدارت کر رہے تھے‘ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: آپ کا علمی مقام ''آیۃ اللہ‘‘ کے علمی منصب کا حامل ہے‘ اس میں اگر پی ایچ ڈی رکاوٹ ہے تو منہاج یونیورسٹی آپ کو اعزازی ڈگری دینے کا اہتمام کرے۔ مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری نے پانچوں کتابوں کا تفصیلی تعارف علمی انداز میں کرایا۔ عربی زبان میں 50 جلدوں میں تفسیر آخری مراحل میں ہے۔ صحیح بخاری شریف کی شرح 20 سے زائد جلدوں پر آ رہی ہے۔ ویسے ڈاکٹر صاحب کی کتب کی تعداد ایک ہزار تک ہے۔ دنیا کے 90 ممالک میں ڈاکٹر صاحب نے منہاج القرآن کے دعوتی مراکز بنا رکھے ہیں۔ یوں عالمی سطح پر ان کی علمی خدمات اور دعوتی خدمات کو دیکھتے ہوئے اہلِ اسلام نے انہیں شیخ الاسلام کا لقب دیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے شاہ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ ان کی معلومات بتلا رہی ہیں کہ انہوں نے پانچوں کتابوں کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔
دوپہر دو بجے شروع ہونے والی تقریب میں نمازِ مغرب تک سیرتِ مبارکہ اور اسلامی کتب پر تقاریر ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سمیت بہت سے افراد کی تقاریر پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا مگر خود تقریر نہیں کی۔ ان کے بڑے صاحبزادے پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری‘ جو پنجاب یونیورسٹی سے لاء گریجوایٹ بھی ہیں‘ نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں ثابت کیا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے انسانیت کو جو ''دستورِ مدینہ‘‘ دیا وہ عالمی اصولوں سے کہیں بڑھ کر آئینی اور دستوری تقاضے اس انداز سے پورے کرتا ہے کہ آج یو این میں شامل کسی ملک کا دستور‘ دستورِ مدینہ منورہ کے سامنے انتہائی نچلی سطح پر ہے۔ ڈاکٹر حسن نے عالمی فورمز پر اپنے اس چیلنج کو منوایا بھی ہے۔ ڈاکٹر حسن نے بھی خود تقریر نہیں کی بلکہ باپ بیٹے نے تقاریر کو صرف سنا۔ عاجزی‘ انکساری اور تواضع کے کتنے ہی رنگ میں دیکھتا چلا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ 75 سال کی عمر میں اب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہ جنہیں ان کے کروڑوں چاہنے والے شیخ الاسلام کہتے ہیں‘ بہت بدل چکے ہیں۔ وہ سب کلمہ گو مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سب کو جنت کی راہوں پر چلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان کی علمی کاوشوں سے لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں۔ اہلِ علم کا یہ حق ہے مگر گزارش یہ ہے کہ کسی کے لیے بھی احترام کا پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ پاک اور مقدس ومطہر سیرتِ مصطفیﷺ کا یہی پیغام ہے۔ اس نورانی محفل کا یہی پیام ہے۔ اہلِ اسلام سلامت رہیں۔ پاکستان زندہ باد۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved