تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-09-2025

اس آفت میں اتنی فرصت کیسے مل گئی ؟

میں بددعا دینے کا بالکل بھی قائل نہیں۔ اگر کسی شخص کا کوئی کام برا لگے‘ کسی حرکت سے دکھ پہنچے اور کسی فعل سے مایوسی ہو تو میں اسے بددعا دینے کے بجائے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتا ہوں۔ اس عاجز کو درویشی کا دعویٰ ہرگز نہیں مگر یہ فقیر جانے سے پہلے کچھ بہتر کرنا چاہتا ہے۔ بددعا بہرحال ایک منفی کام ہے اور دعا ایک مثبت فعل ہے۔ بھلا منفی کام مثبت کام سے بہتر کب ہو سکتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی دل بہت ہی ملول ہو جاتا ہے اور یہ فقیر کچھ منفی کہنا بھی چاہے تو رک جاتا ہے۔ اپنے آپ کو سمجھاتا ہے اور وہ جو انگریزی کا لفظ ہے ''کونسلنگ‘‘ تو یہ عاجز اپنی کونسلنگ کرتا ہے۔ ایسی صورتحال سال میں دوچار بار تو ضرور پیش آتی ہے۔ خاص طور پر جب ہم لوگ‘ جو امتِ رسولِ ہاشمی ہونے کے دعویدار تو ہیں مگر اُن کی سنت پر نہ تو عمل پیرا ہیں اور نہ ہی نافرمانی پر شرمندہ ہیں۔
رمضان میں لوٹ مار پر تو اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اب لکھتے ہوئے اپنے حرف بیکار اور کوشش وقت کا ضیاع لگتی ہے مگر اس سیلاب کو بھی یار لوگوں نے نفع اور کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ پانی میں ڈوبے ہوئے‘ بے سروسامان اور تہی دست لوگوں کو پانی سے نکالنے کیلئے کشتی مالکان بیس سے چالیس ہزار روپے مانگ رہے ہیں۔ اتنے فاصلے کیلئے وہ عام دنوں میں ہزار بارہ سو سے زیادہ نہیں لیتے تھے۔ اس سیلابِ بلا خیز کے طفیل وہ دیہاڑی لگا رہے ہیں اور انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر پانی جلد اُتر گیا تو ان کا کمائی کا سیزن مارا جائے گا۔
پنجاب میں اکیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبہ زیرِ آب ہے اور یہ بیشتر رقبہ گائوں‘ دیہات‘ کھیت اور باغات پر مشتمل ہے۔ یعنی برباد ہونے والوں کی غالب تعداد زراعت سے وابستہ افراد پر مشتمل ہے۔ کاشتکار کی بدقسمتی کی کہانی لمبی بھی ہے اور دردناک بھی۔ پہلے اس کی گندم پِٹ گئی۔ پھر اس کی مکئی کی فصل کو صنعتکاروں اور آڑھتیوں نے ہتھیا لیا۔ تھوڑی بہت امید چاول اور گنے سے تھی تو اسے پانی نے ڈبو دیا۔ ساری سبزیاں دریا برد ہو گئیں اور جانور پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ گھر زمین بوس ہو گئے اور پہلے سے قرض میں ڈوبا ہوا کاشتکار خود بھی پانی میں ڈوب گیا۔کاشتکار در بدر ہے اور غنیمت ہو گی کہ وہ کسی خیمے میں پناہ گزین ہو‘ وگرنہ اس نے ایسے دن گزارے ہیں کہ پائوں کے نیچے زمین نہیں اور سر پر چھت نہیں‘ نیچے پانی اوپر بارش ہے۔ اس بدترین صورتحال میں اس لٹے پٹے کو اردگرد والے لوٹنے میں مصروف ہیں۔وہی گندم جو کسان سے دو ہزار سے بائیس سو روپے من تک خرید کر اس کا بیڑہ غرق کیا گیا تھا‘ اب مارکیٹ میں تین ہزار روپے سے اوپر چلی گئی ہے۔ لیکن بھلا اس سے زمیندار اور کاشتکار کو کیا فائدہ؟ کھیت جل جانے کے بعد ہونے والی بارش بھلا کس کام کی؟
کبیروالا جھنگ روڈ پر کوٹ اسلام سے لے کر شورکوٹ تک اور دریائے چناب کے آس پاس دیگر علاقوں میں فش فارم‘ جو ایسے وسیع وعریض تالاب بن چکے ہیں جن کے کنارے میلوں تک دکھائی نہیں دیتے‘ ان کی ساری مچھلی بہہ گئی ہے۔ سیلابی ریلوں کی آمد سے چند روز قبل اگر کسی فش فارم والے نے مچھلی فروخت کرنے کی عقلمندی دکھائی تو اسے ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے بھی کم ریٹ دیا گیا۔ سیلاب کی وجہ سے کاشتکار کی ساری سبزی برباد ہو گئی مگر آڑھتی اور بیوپاری اپنے پاس موجود سبزی کو اس شارٹیج کے پیشِ نظر تین سے چار گنا قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ کل تک سو روپے کلو والا ٹماٹر چار سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس کو کاشت کرنے والا اس منافع میں حصہ دار تو کجا‘ اس حالت میں ہے کہ وہ اپنی کاشت کردہ سبزی خریدنے کے بھی قابل نہیں ہے۔
دو سال سے مسلسل استحصال کا شکار کاشتکار پانی اترنے پر جب واپس جائے گا تو اس کے پاس نہ چھت ہو گی اور نہ اگلی فصل کاشت کرنے کیلئے دمڑی جیب میں ہو گی۔ یہ تو کاشتکار کی حالت ہے لیکن اس کے بعد کا نقشہ زیادہ بری صورتحال کا عکاس ہے۔ کاشتکار نے گزشتہ فصل والے بدترین تجربے کے بعد صرف اتنی ہی گندم کاشت کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا جتنی اس کے گھر کی ضرورت ہے۔ جس کام سے اسے اپنے لیے سال کی روٹی کا بندو بست کرنا ممکن نہ رہے بھلا وہ دوبارہ ایسا کام کیوں کرے گا؟ جس ملک میں حکومت ازخود گندم کی فی من امدادی قیمت 3900 روپے مقرر کرے اور جب فصل پک کر بازار میں آئے تو حکومت خریداری سے یکسر مُکر جائے‘ کھلے آسمان تلے پڑی گندم کو کاشتکار نہ تو سٹور کر سکے اور نہ ہی حکومت کے وعدہ کردہ ریٹ پر بیچ سکے تو پھر وہ کیا کرے؟ ایسی صورتحال میں آڑھتی‘ بیوپاری‘ فلور ملز مالکان اور ذخیرہ اندوز اس کا معاشی استحصال کرتے ہوئے اسکی فصل اس قیمت پر خریدیں جس سے اس کی لاگت بھی بمشکل پوری ہو تو بھلا وہ اب حکومت کے اعلانات پر کیا اعتبار کرے گا۔ جس ملک میں حکومت عوام سے جھوٹ بولے بھلا وہاں کسی اور پر اعتبار کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
اگلا منظرنامہ زیادہ خوفناک ہے۔ جہاں سیلاب زدہ علاقوں میں سارا انفراسٹرکچر برباد ہو گیا ہو، گھر‘ دکانیں‘ کاروبار‘ کھیت کھلیان‘ باغات اور دیگر ذرائع آمدن وآمدورفت پانی بہا کر لے جا چکا ہو اور آنے والے دنوں میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی سر اٹھانے والا ہو تو بھلا کیا اچھا سوچا جا سکتا ہے؟ اس بدترین صورتحال میں کشتی والوں کی دیہاڑی لگی ہوئی ہے۔ آڑھتی کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ چوروں نے خالی گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ریسکیو والوں کی کشتیاں چھوٹی ہیں اور چوروں کی کشتیاں بڑی ہیں۔ کچے کے ڈاکو اس سیلابی پانی کی وجہ سے کچے سے نکل کر پکے پر وارداتیں کر رہے ہیں۔ ملتان‘ سکھر موٹروے پر چند روز قبل ٹرکوں اور ٹرالروں پر فائرنگ ہوئی ہے۔ گیارہ لوگ اس موٹروے یعنی ایم فائیو سے اغوا کر لیے گئے ہیں۔ اندھڑ گینگ کے سربراہ نے وڈیو کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ اس کے پندرہ سال سے جیل میں قید بھائی کو رہا نہ کیا گیا تو وہ ان اغوا شدگان کو ایک ایک کرکے قتل کر کے ان کی لاشیں وہیں پھینکے گا جہاں سے وہ انہیں زندہ اٹھا کر لایا تھا۔
سرکاری اداروں کی نالائقی کا یہ عالم ہے کہ سیلاب کی آمد کی اطلاع اور شروعات کے باوجود کشتیوں کا نہ صرف یہ کہ انتظام نہ کیا گیا بلکہ ان کشتیوں کو چلانے‘ لوگوں کو پانی سے نکالنے اور امدادی کارروائیوں کے لیے جس مہارت اور قابلیت کی ضرورت تھی ہمارے سرکاری امدادی ادارے اس سے یکسر عاری تھے۔ اب تک تین سے زائد امدادی کشتیاں ڈوب چکی ہیں‘ جن میں تیس سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ایک وڈیو وائرل ہے‘ جس میں ریسکیو کشتی میں تیل ختم ہو چکا ہے۔ اگر کسی کو تیل ختم ہونے کا علم ہی نہیں تھا تو یہ از حد درجہ کی نالائقی ہے اور اگر دیگر سرکاری محکموں کی مانند ایمرجنسی میں کام آنے والی کشتیوں کا تیل بھی بیچ کر کھایا گیا ہے تو یہ از حد درجہ کی کمینگی اور بے حسی ہے کہ جان بچانے والے محکمے کی بھی وہی صورتحال ہے جو اس ملک کے باقی عام سرکاری اداروں کی ہے۔
سرکار نے اس تباہ کاری اور بربادی کو بھی اپنی اشتہاری مہم کا حصہ بنا رکھا ہے۔ ایک ضلع کا سرکاری افسر سیلاب متاثرین کو چھ چھ روٹیوں کا جو پیکٹ دے رہا ہے اس پر بھی وزیراعلیٰ کی فوٹو چھپی ہوئی ہے اور وہ سیلاب زدگان میں پچاس روپے مالیت کا پیکٹ تقسیم کرتے ہوئے احسان جتا رہا ہے کہ یہ روٹیاں آپ کیلئے مریم نوازشریف نے بھیجی ہیں۔ مجھے حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اس تباہی اور بربادی کے درمیان چھ روٹیوں کے پیکٹ پر وزیراعلیٰ کی تصویر چھپوانے کا نادر خیال کس کو آیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس افراتفری‘ ایمرجنسی اور آفت کے دوران چھ روٹیوں کیلئے خصوصی لفافے بنوانے اور اس پر وزیراعلیٰ کی تصویر چھپوانے کی فرصت کیسے مل گئی ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved