بلاشبہ پاکستان کے مقتدر طبقات عوام نے اپنی خدمت اور سہولت کیلئے بنائے تھے‘ سیاستدانوں نے ملک کو چلانے کیلئے عوام کی رہنمائی کرنا تھی‘ بیورو کریٹس نے اداروں کا انتظامی نظم ونسق چلانا تھا‘ میڈیا نے عوام کو باخبر رکھنا تھا‘ صنعتکاروں اور تاجروں نے صنعت وتجارت کو سنبھالنا تھا‘ کسانوں اور جاگیرداروں نے زراعت کو دیکھنا تھا‘ علما ومشائخ کرام نے عوام کی روحانی آبیاری کرنا تھی‘ لیکن بدقسمتی سے یہ طبقات عوامی خدمت کے بجائے ایک دوسرے کے سہولت کار اور عوام پر بوجھ بن کر ملکی اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں مصروف ہو گئے۔
پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کھانے والے طبقات میں سے سیاستدانوں کے بعد دوسرا اہم طبقہ ہمارے ملک کی بیورو کریسی ہے۔ بیورو کریسی کو ''پبلک سرونٹ‘‘ یعنی عوامی خادم کہا جاتا ہے لیکن یہ لوگ عوام کی خدمت کے بجائے الٹا ان پر حکم چلاتے ہیں اور افسر شاہی بن کر 'صاحب بہادر‘ بنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں اور عوامی خادم بننے کے بجائے مخدوم بنے ہوئے ہیں۔ بیورو کریٹس نے جی بھر کر ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ بیورو کریسی کو ملکی ادروں میں سسٹم چلانے کیلئے بنایا گیا تھا‘ عوام ان کو اپنا پیٹ کاٹ کر‘ ٹیکس دے کر پالتے ہیں‘ ان پر خرچ ہونے والا ایک ایک پیسہ عوام کی جیب سے جاتا ہے‘ جو کچھ ان کے گھروں اور دفتروں میں ہے وہ ان کے دفاتر کے باہر بیٹھے سائلوں کے پیسوں کا خریدا ہوا ہے۔ صاحب بہادر کا پینٹ کوٹ اور ٹائی بھی انہی کے پیسوں کی خریدی ہوئی‘ جن کو وہ فقیر اورحقیر سمجھتے ہیں۔ ان کے دفاتر کے باہر کھڑی گاڑیاں ان لوگوں نے خرید کردی ہیں جن بیچاروں کے پاس گاڑی نہیں ہے لیکن وہ ان کو نہ صرف کمتر سمجھتے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کا کام کرکے ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں حالانکہ یہ بیورو کریٹس ان کے ملازم ہیں اور ان سے تنخواہ لیتے ہیں۔
کیا بیورو کریٹس کا رویہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عوامی ملازمین کا ہونا چاہیے؟ بدقسمتی سے وہ تو اس کو الٹا سمجھتے ہیں‘ بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان پر رعب جھاڑتے ہیں۔ جو لوگ ان کے ہر طرح کے ناز نخرے اور خرچے اٹھا رہے ہیں یہ انہی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو وہاں کیا جواب دیں گے کہ جن سے ہم تنخواہ لیتے تھے‘ جو ہم کو اللوں تللوں کیلئے پیسے دیتے تھے‘ ہم انہی کے کام نہیں کرتے تھے‘ ہم انہی کی فائل روک لیتے تھے۔ کام کرنے کے عوض رشوت لیتے تھے اور اس رشوت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ رشوت نہ دینے والوں کے کام کو لٹکا دیتے تھے‘ اور بار بار دفاتر کے چکر لگواتے تھے کہ عوام ان کو رشوت دینے پر مجبور ہو جائیں۔
ایسا بھی نہیں کہ تمام بیورو کریٹس ایک جیسے ہیں‘ ان میں سے کچھ بہت ایماندار بھی ہوتے ہیں جو خود کو عوامی خادم سمجھتے ہوئے عوام کی خدمت بھی کرتے ہیں‘ لیکن نوے فیصد بیورو کریٹس کرپٹ ہیں‘ ان میں سے بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں‘ ہر سال حج اور عمرے بھی کرتے ہیں‘ قربانیاں‘صدقے اور خیرات بھی کرتے ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ حرام کمائی جیب میں ڈالے حلال گوشت تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ان سے بارگاہِ الٰہی میں اس حوالے سے سوال ہو گا تو یہ لوگ کیا جواب دیں گے؟ معلوم نہیں ان کو کیا پڑھایا‘ سمجھایا اور سکھایا جا رہا ہے کہ ان کے دلوں سے خوفِ خدا جاتا رہا ہے‘ یہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں بیورو کریسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا اور ریاستی مشینری کو رواں رکھتا ہے۔ عوامی خدمات کی فراہمی ہو یا قانون کے نفاذ کا معاملہ‘ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی ہو یا قومی وسائل کی تقسیم‘ ہر شعبے میں بیورو کریسی کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر حکومتی نظام کھوکھلا اور بے اثر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بیورو کریسی ذاتی مفادات‘ گروہی وفاداریوں یا غیر قانونی دباؤ کی زد میں آ جائے تو وہی ادارہ جو ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے‘ پسماندگی اور ناکامی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جب فائلیں صرف رشوت کے عوض حرکت میں آئیں‘ جب عہدے سفارش سے ملیں اور جب میرٹ کی جگہ مصلحت لے لے تو نظام میں بددلی‘ بے اعتمادی اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ ایسی بیورو کریسی عوام کو انصاف‘ سہولت اور ترقی دینے کے بجائے ان کیلئے ایک دیوار بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بیورو کریسی کا یہی دہرا چہرہ سامنے آتا رہا ہے۔ جہاں کچھ افسران اپنی دیانت داری اور کارکردگی کی مثال بنے‘ وہیں زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح کیا۔ اقربا پروری‘ رشوت‘ سست روی‘ نااہلی اور سیاسی دباؤ نے بیورو کریسی کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بیورو کریسی سیاسی جماعتوں کی گھر کی باندی بن چکی ہے۔ میرٹ کا قتل عام جاری ہے۔ بیورو کریسی کا یہ کلچر بن چکا ہے کہ اچھی اور اہم پوسٹ پر تعینات ہونے کیلئے ہر حربہ استعمال کرو‘ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ۔ ان کے مفادات کا تحفظ کرو‘ انہیں بھی عیش کراؤ اور خود بھی کرو۔ یعنی یہ طبقات ایک دوسرے کے خدمت گزار ہیں۔ ایک طرح سے یہ انجمنِ تحفظِ باہمی مفادات بنی ہوئی ہے۔ ملکی تباہی وبربادی میں سیاستدانوں کے ساتھ بیورو کریٹس بھی برابر کے شریک ہیں۔ جب آپ گریڈ بیس کی پوسٹ پر گریڈ اٹھارہ کا ڈپٹی کمشنر لگائیں گے تو وہ کیا پرفارم کر ے گا؟ کیا ایک سات آٹھ سالہ تجربہ رکھنے والا افسر بیس سال تجربہ کے حامل افسر جتنا شعور‘ فہم وفراست‘ دانائی اور حکمت رکھ سکتا ہے؟ پاکستان میں جو بھی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی رہیں انہیں شاید کمزور ڈی سی اور ساتھ ساتھ مادر پدر آزاد پولیس فورس ہی سُوٹ کرتی‘ کیونکہ ان کا ہر جائز وناجائز کام بیورو کریسی اور پولیس کر دیتی تھی۔ عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں یا نہیں‘ ان کا اس سے کوئی سروکار یا لینا دینا نہیں۔ ان لوگوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے‘ عوام کی کسے پروا۔
قیام پاکستان سے ہی یہاں اشرافیہ‘ خاص طور پر بیورو کریٹس حکومت کرتے رہے ہیں۔ نوکر شاہی اشرافیہ جو پاکستان کے قیام کے بعد ہی سے طاقت کے ڈھانچے میں ایک لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی تھی‘ آہستہ آہستہ زیادہ زور آور ہوتی گئی‘ جو سیاسی اشرافیہ کی قیمت پر اپنی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت حاصل کرتی رہی۔ اس پیشرفت میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا عنصر یہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی مرحلے میں کچھ سابق بیورو کریٹس گورنر جنرل اور وزیراعظم کے سیاسی عہدوں پر قابض ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ بیورو کریٹس کی روایات‘ نقطہ نظر اور رویوں کو لے کر آئے اور ان کی ہمدردیاں سیاسی اداروں سے زیادہ بیورو کریسی کی طرف جھک گئیں۔ 1958ء‘ 1969ء اور 1977ء کے مارشل لاء نے سول بیورو کریسی کی طاقت اور وقار کو مزید مضبوط کیا اور وہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ کے زیادہ اہم حصے کے دوران اعلیٰ بیورو کریسی نے ملک پر حکومت کی ہے۔ پاکستان کو ایک افسر شاہی ریاست کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved