نیپال اپنے اندر ایک طویل اور شاندار تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں برمی اور کیرات قوم کی نسلیں بھی آباد ہیں جو ڈھائی ہزار سال قبل اس خطے میں آئی تھیں۔ نیپال میں بدھ مت اور ہندو مذہب کی بے شمار یادگاریں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تبت اور ہند آریائی نسل کے لوگ بھی یہاں آ کر آباد ہوئے۔مہاراج اشوک نے اپنے عہد میں نیپال میں قابلِ ذکر خدمات انجام دیں۔ آج بھی اس دور کے کئی سٹوپا یہاں موجود ہیں۔ اشوک ہی نے نئے شہر للتا پٹن کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں گپتا‘ لیسہوی‘ تھکوری‘ کرنات‘ خاصا اور مالا سلطنتوں نے اس خطے پر حکومت کی۔ نیپال اپنی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں سے دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلے گزرتے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی‘ ماؤنٹ ایورسٹ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔
بنگال میں جدید سلطنت کا قیام 1768ء میں عمل میں آیا اور وہاں شاہی خاندان کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ اٹھارہویں صدی میں پرتھوی نرائن شاہ نے وہاں باقاعدہ ریاست کی بنیاد رکھی۔ انگریزوں سے جنگ کے بعد نیپال میں رانا خاندان کو عروج حاصل ہوا‘ تاہم 1951ء میں عوام نے نیپال کے شاہی خاندان کے خلاف بغاوت کر دی۔ پڑھے لکھے لوگ شاہی مظالم سے تنگ آ چکے تھے۔ یوں 1846ء سے نیپال میں حکومت کرنے والے رانا خاندان کا سورج غروب ہوا۔ 1951ء میں نیپالی کانگریس پارٹی نے ہندوستان کی مدد سے رانا خاندان کو اقتدار سے بے دخل کیا اور یہاں آئینی بادشاہت اور جمہوریت کی بنیاد رکھی۔
1959ء میں نیپال میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے جن میں بی پی کوئرالہ کو کامیابی حاصل ہوئی مگر 1960ء میں بادشاہ مہندرا نے منتخب حکومت کو برطرف کر کے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ 1960ء سے 1990ء تک نیپال میں غیر جماعتی پنچایت کا نظام رائج رہا اور جمہوریت مکمل طور پر دبادی گئی۔ نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ گروپ نے اس عرصے میں بے شمار مظالم برداشت کیے۔1990ء کی دہائی کے آغاز میں نیپال میں ''جانا اندولن اوّل‘‘ کے نام سے ایک عوامی تحریک اٹھی جس کی وجہ سے بادشاہ بیرندر کو سیاسی جماعتوں پر سے پابندی ہٹانا پڑی اور ایک نیا آئین تشکیل دیا گیا مگر عوامی بغاوتیں تھمنے کے بجائے بڑھتی گئیں اور خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں 16 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ اسی دوران ایک ہولناک سانحہ پیش آیا جس نے سب کو ششدر کر دیا۔وہ تھا نیپال کے شاہی خاندان کا قتل۔
2001ء میں نیپال کے شاہی خاندان نے ایک پُرتعیش ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں بادشاہ بیریندر سمیت شاہی خاندان کے دیگر لوگ شریک تھے۔ اس پارٹی میں ولی عہد دیپندر اس قدر نشے کی حالت میں پہنچے کہ وہ خود سے چل بھی نہیں پا رہے تھے۔ کچھ رشتہ داروں نے انہیں کمرے تک پہنچایا تاکہ وہ آرام کر لیں۔ یہ ایک نجی محفل تھی اس لیے سٹاف اور سکیورٹی کے افراد بہت کم تھے ۔ ولی عہد نے کمرے میں جا کر اپنی طبیعت بحال کی‘ پھر لباس تبدیل کیا‘ اپنی وردی پہنی‘ اسلحہ اٹھایا اور اس کمرے کی طرف چل دیے جہاں تمام شاہی خاندان جمع تھا۔شاہی خاندان نے سمجھا کہ شاید ولی عہد اپنے اسلحے کی نمائش کر رہے ہیں‘ مگر اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے سب کو سکتے میں ڈال دیا۔ ولی عہد دیپندر نے سب سے پہلے اپنے والد‘ جو بادشاہ تھے‘ ان پر گولیاں چلائیں‘ پھر اپنی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا جن میں ملکہ ایشوریہ‘ راجکمار نراجن‘ شہزادی شردھا‘شہزادی شانتی‘ راج کمار کورگھ اور شہزادی شروتی شامل تھے۔ اس قتلِ عام کے بعد ولی عہد نے خودکشی کر لی۔ حیران کن امر یہ تھا کہ شاہی محل سے کچھ فاصلے پر سکیورٹی موجود ہونے کے باوجود کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ ولی عہد ایک لڑکی سے محبت کرتے تھے اور اس سے شادی کی اجازت نہ ملنے پر یہ اقدام کیا۔ اس قتلِ عام نے نیپالی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بعدازاں بادشاہ بیریندر کے چھوٹے بھائی گیانند تخت پر بیٹھ گئے۔
2006ء میں نیپال میں ''جانا اندولن دوم‘‘ کے نتیجے میں بادشاہ کو مکمل طور پر اپنے اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا اور بادشاہت محض علامتی رہ گئی۔ 2008ء میں بادشاہت کو مکمل طور پر تحلیل کر دیا گیا اور نیپال کو جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ 2015ء میں نیا آئین تشکیل پایا اور نیپال ایک سیکولر فیڈرل جمہوریہ بن گیا۔ جس کے پہلے صدر رام یادو منتخب ہوئے‘ پہلے وزیر اعظم سوشیل کوئرالہ اور بعد میں کے پی شرما اولی اس منصب پر فائز ہوئے۔تاہم ایک طویل بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود اب تک نیپال میں حالات بہتر نہیں ہو سکے۔ اشرافیہ اپنی موج مستی میں مصروف رہی اور عوام بدحال ہوتے چلے گئے۔ حالیہ دنوں میں ایک لڑکی کے حادثے کو وزیر اعظم نے سیاسی چال قرار دے کر سنجیدگی سے نہ لیا‘ جس پر عوام مشتعل ہوگئے۔ وہ لڑکی اب بھی آئی سی یو میں ہے۔ اس واقعے کے ساتھ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔نیپال میں ایک ہفتہ سوشل میڈیا بین رہا اور آٹھویں دن مظاہرین سڑکوں پر آ گئے۔نیپالی عوام پہلے ہی اشرافیہ کی بدعنوانیوں‘ اقربا پروری‘ رشوت خوری اور پُرتعیش طرزِ زندگی پر غصے میں تھے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش نے اس غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا اور نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ مشتعل نوجوانوں نے سرکاری عمارتوں اور سیاستدانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے اور کئی سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ نیپال کی پارلیمان کو آگ لگا دی گئی۔ حالات بے قابو ہونے کے بعد نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ مظاہرین اب تک احتجاج کر رہے ہیں‘ فوج کے سربراہ جنرل اشوک نے ایک وڈیو پیغام کے ذریعے انہیں مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اب تک سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کو عبوری وزیراعظم نامزد کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ دیگر مطالبات ابھی پیش نہیں کیے گئے۔
جین زی‘ جو نوے کی دہائی کے آخر اور 2000ء کے اوائل میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ نوجوان ایسا انقلاب لے آئیں گے جس میں چار بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑے گا۔ ان مظاہروں کے دوران ''نیپو کڈز‘‘ کا ٹرینڈ ٹاپ پر رہا جس میں اشرافیہ کے بگڑے ہوئے بچوں کے امیرانہ ٹھاٹ باٹ پر شدید تنقید کی گئی۔ نیپو کڈز ان بچوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ساری زندگی کوئی محنت نہیں کی اور سب کچھ اپنے کرپٹ والدین کی بدولت حاصل کیا۔ یہ اکثر اپنے شاہانہ طرزِ زندگی کی نمائش سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔ محنت کیے بغیر بڑے عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جس سے میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔ امرا کے بچوں کے مہنگے بیگز‘ جوتے‘ فارن ٹرپ اور شاہانہ طرزِ زندگی کو غریبوں کی زندگی کے ساتھ جوڑ کر ٹویٹس اور ریلز شیئر کی گئیں اور اس کی مذمت کی گئی۔
دیکھا جائے تو نیپال کے عوام کی غربت اور بیروزگاری نے انہیں سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ اطلاعات کے مطابق اس احتجاج میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی دو رہائش گاہوں کو نذرِ آتش کیا جا چکا ہے‘ جبکہ کئی سیاستدانوں کے گھروں اور میڈیا ہاؤسز کو بھی آگ لگا دی گئی۔ گزشتہ سولہ برسوں میں نیپال میں تیرہ حکومتوں کی تبدیلی‘ بدعنوانی‘ اقربا پروری اور سیاسی عدم استحکام جیسے عوامل بھی ان مظاہروں کا سبب بنے۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی نیپال میں حالات سنبھل جائیں گے اور بنگلہ دیش کی طرح نیپال کو بھی ایک مخلص اور جمہوری قیادت نصیب ہو گی‘ ایسی قیادت جس میں نوجوانوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے گا اور پرانی کرپٹ اشرافیہ سے قوم کی جان چھوٹ جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved