دنیا میں سفارتی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھنے والے ملک قطر میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین‘ سفارت کاری اور خود مختاری کے اصولوں پر ایک شدید اور بے باک حملہ ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات جاری تھے اور قطر ان کی میزبانی کر رہا تھا۔ اس نازک صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف کا فوری طور پر قطر کا دورہ اور برادر اسلامی ملک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار پاکستان کی جانب سے نہایت اہم اور مضبوط سفارتی اقدام ہے۔ یہ دورہ محض اظہارِ ہمدردی نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ آنے والے دنوں میں قطر جو بھی فیصلہ کرے گا‘ پاکستان اس میں اس کا بھرپور ساتھ دے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ قطر نے کئی برسوں سے بین الاقوامی سطح پر ثالثی اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ قطر افغانستان اور امریکہ کے درمیان طویل جنگ کے خاتمے کیلئے ہونے والے مذاکرات کا میزبان رہا‘ جس کے نتیجے میں بالآخر امریکہ افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ یہ قطر کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ کسی بھی ملک کی خودمختاری کا احترام عالمی قوانین کا بنیادی اصول ہے۔ اس تناظر میں ایک ایسے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنا جو مذاکرات کی سہولت فراہم کر رہا ہو‘ نہ صرف ایک غیراخلاقی عمل ہے بلکہ یہ سفارتکاری کے پورے نظام کیلئے ایک خطرہ بھی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ اس کی عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیلی حملے کے فوری بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ملکِ عزیز کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے نہایت جرأت مندانہ اور واضح مؤقف اختیار کیا۔ انہوں نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے نہ صرف قطر کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا بلکہ اسے مذاکرات اور سفارتی عمل کیلئے براہِ راست چیلنج بھی کہا۔ وطنِ عزیز کا قطر کی حمایت میں مؤقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مسلم دنیا پاکستان سے قیادت کی توقع کر رہی ہے‘ خصوصاً اس لیے کہ ہم نے حال ہی میں بھارت کے خلاف عسکری اور سفارتی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ صورتحال ملکِ عزیز کو ایک بار پھر بین الاقوامی افق پر ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ فلسطین کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک دیرینہ اور اٹوٹ حصہ ہے۔ دنیا بھی یہ جانتی ہے کہ ہماری حمایت محض رسمی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی حمایت ہے اور عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان صرف رسمی یکجہتی نہیں بلکہ عملی طور پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کر رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مضبوط مؤقف اپنانا چاہتا ہے۔ دورۂ قطر کے بعد آنے والے دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف کے سعودی عرب‘ برطانیہ‘ جاپان‘ ملائیشیا اور امریکہ کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہ دورے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا اور عالمی طاقتوں کے درمیان مضبوط اتحاد قائم کرنے اور انہیں غزہ کی صورتحال پر ایک مشترکہ مؤقف اپنانے پر قائل کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ یہ صورتحال ملک عزیز کو ایک اہم سفارتی مقام پر لا کھڑا کرتی ہے‘ جہاں وہ نہ صرف مسلم دنیا کی آواز بن سکتا ہے بلکہ خطے میں امن اور استحکام کیلئے ایک قائدانہ کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔
سفارتکاری کی اپنی زبان اور اسلوب ہوتا ہے جو محتاط اور ناپ تول کر اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر جب حکومت براہِ راست اور جارحانہ بیانات سے گریز کرتی ہے‘ قومی قیادت میں سے کسی کا سامنے آ کر جارح قوتوں کو منہ توڑ جواب دینا اہم ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن نے راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب میں کہا کہ وطن عزیز کے پاس اسرائیل کو چند گھنٹوں میں لپیٹنے کی صلاحیت ہے‘ جس طرح ہم نے بھارت کو چند گھنٹوں میں لپیٹا تھا۔ یہ ایک غیرمعمولی اور حوصلہ افزا بیان ہے۔ یہ بیان سفارتی زبان کی حدود سے ماورا ہو کر پاکستانی قوم کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بیان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایسے وقت میں آیا جب حکومت سفارتی محاذ پر مصروف ہے۔ جنگِ مئی کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کے اجلاس پاکستان کیلئے محض معمول کے اجلاس نہیں رہیں گے۔ پاک بھارت جنگ میں برتری نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رُخ دیا ہے‘ جہاں ملک عزیز کو اب صرف ایک فریق کی حمایت کرنے والا ملک نہیں بلکہ ایک ایسا ملک تصور کیا جا رہا ہے جو طاقتور ممالک کو ان کی جارحیت پر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان اب عالمی فورمز پر ایک مضبوط اور فعال کردار ادا کرے گا اور پاکستان کا مؤقف صرف فلسطینیوں کے حق میں بیان دینے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کرنے والا ہو گا۔
گزشتہ روز سید فاروق شاہ اور خیبر یونین کے صدر کاشف الدین سید کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی خصوصی نشست ہوئی۔ مولانا نے ملک عزیز کی سیاست پر اپنے مؤقف کا اظہار کیا‘ سرحدی کشیدگی اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں جاری آپریشن پر انہوں نے اپنے مؤقف کو دہرایا۔ اس ضمن میں ان کے پاس کافی مؤثر تجاویز موجود ہیں۔ وطن عزیز کو اس وقت خارجہ محاذ کے ساتھ ساتھ داخلی سطح پر بھی کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی‘ فرقہ واریت اور انتہا پسندی سرِ فہرست ہیں۔ ان مسائل کے حل کیلئے حکومت نے حال ہی میں ''نیشنل پیغامِ امن کمیٹی‘‘ قائم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدان‘ جو سیاسی اور مذہبی دونوں حلقوں میں اثر و رسوخ بھی رکھتے اور بیک وقت سیاسی و مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ کی خدمات حاصل کرنا بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا دہشت گردی اور اس کی جڑوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی تجاویز اور رہنمائی سے نہ صرف خیبرپختونخوا میں جاری آپریشنز میں مدد مل سکتی ہے بلکہ اندرونی سلامتی کو بہتر بنانے کیلئے بھی ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی یہ شدید خواہش ہے کہ پاکستان مسلم اُمہ کی قیادت کرتے ہوئے ایک ایسا دفاعی اتحاد تشکیل دے جو نیٹو کی طرز پر کام کرے۔ دیکھا جائے تو یہ خیال نیا نہیں ہے بلکہ مختلف ادوار میں کئی مسلم رہنماؤں نے اس کا تصور پیش کیا اور ابتدائی طور پر عملی اقدامات بھی کیے گئے‘ لیکن اُمت مسلمہ کو ایسی مؤثر قیادت نہ مل سکی جو اس خواب کو حقیقت میں بدل سکے۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب کسی بھی مسلم ملک پر کوئی مشکل آئے تو وہ خود کو تنہا نہ سمجھے بلکہ اسے ایک مضبوط فوجی اور سیاسی اتحاد کی بھرپور حمایت حاصل ہو۔ مولانا نے اپنی تجویز اربابِ اختیار تک پہنچائی کہ اگر اسرائیل کا راستہ نہ روکا گیا تو فلسطین‘ ایران‘ لبنان اور قطر کے بعد ترکیہ سمیت کوئی مسلمان ملک اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ اگر پاکستان اپنی داخلی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے سفارتی سطح پر ایک مضبوط اور ٹھوس مؤقف اپنائے تو مئی کی جنگ کے بعد پاکستان کا جو بین الاقوامی کردار ابھر کر سامنے آیا ہے وہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی جانب فیصلہ کن قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف ملک عزیز کی اپنی سلامتی کیلئے اہم ہو گا بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کی دفاعی طاقت کیلئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جو انہیں بیرونی خطرات کا سامنا کرنے کیلئے ایک متحدہ اور مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved