قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے تشویش کی بہت سی لہریں دوڑا دی ہیں‘ خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں‘ جن کے جواب اگر بروقت تلاش نہ کیے گئے تو مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی اور خوفناک جنگ کے شعلوں سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ اس نے دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کیلئے یہ حملہ کیا‘ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے ایک آزاد اور خود مختار ملک کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر پر حملے پر اسرائیلی وزیراعظم سے اظہارِ ناراضی کیا ہے‘ لیکن بہت سے تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ اظہارِ ناراضی اصلی اور حقیقی ہے یا محض بناوٹ اور دکھاوا؟ اور کیا نیتن یاہو امریکی صدر کے ایما یا اشارے کے بغیر قطر پر حملے کا بڑا فیصلہ کر سکتے تھے؟ صدر ٹرمپ نے چند ماہ پہلے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد بھی یہی کہا تھا کہ حملہ ان کے علم میں لائے بغیر کیا گیا۔ اگر ماضی بعید اور ماضی قریب کے امریکہ اسرائیل معاملات کو سامنے رکھ کر منطقی انداز میں سوچا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو اکیلے میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایک ایسے ملک پر حملہ کر دے جہاں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہو‘ جہاں 10ہزار امریکی فوجی ہر وقت موجود رہتے ہوں اور جہاں امریکہ کی حساس فوجی تنصیبات موجود ہوں۔ کیا یہ بات حیرت کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ ایک امریکی فوجی اڈا موجود ہونے کے باوجود نہ تو اسرائیل کے حملے کا پیشگی پتا چلایا جا سکا اور نہ ہی قطر کو اس حملے سے تحفظ فراہم کیا جا سکا۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس حملے نے قطری قیادت کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ قطر امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور قطری قیادت اب تک سمجھتی رہی ہے کہ قطر میں امریکی اڈے موجود ہونے کی وجہ سے اور امریکہ اور قطر کے مابین دفاعی معاہدے کی موجودگی میں کوئی ان پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ لیکن نیتن یاہو کی دیدہ دلیری نے یہ مِتھ توڑ دی ہے اور قطر ہی نہیں مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک الرٹ ہو گئے ہیں کہ اگر قطر نشانہ بن سکتا ہے تو ان کی باری بھی آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب رہنماؤں کی جانب سے اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں متفقہ اور متحدہ رد عمل کی بات کی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حملے کے فوری بعد امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ انہوں نے قطر پر اسرائیلی حملے کو مجرمانہ فعل اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور یقین دہانی کرائی کہ ان کی مملکت قطر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور دفاع و خود مختاری کے تحفظ میں اس کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ دوسری جانب قطری قیادت نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملے کا جواب صرف قطر تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے کی مشترکہ پالیسی اور اتحاد کا مظہر ہو گا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی حملے کے خلاف اظہارِ یکجہتی کیلئے 11 ستمبر کو قطر کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔ دورۂ قطر کے دوران وزیراعظم نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کی تھی اور نو ستمبر کو دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک بار پھر قطر کے دورے پر ہیں جہاں وہ 15ستمبر کو شیڈولڈ 'عرب اسلامک سربراہی اجلاس‘ میں شرکت کریں گے۔ قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ عرب اور اسلامی ممالک کی مشترکہ قیادت دوحہ میں 15ستمبر کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں آئندہ کے اقدامات پر متفقہ حکمتِ عملی طے کرے گی۔ یہ واضح ہے کہ عرب قیادت اگر متحد ہو گئی تو اسرائیل کو ایک بڑا اور کڑا جواب مل سکتا ہے۔
العربیہ اردو نے مئی میں صدر ٹرمپ کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے اختتام پر لکھا تھا: مزید اہم بات یہ رہی کہ ٹرمپ نے عرب ملکوں کے دارالحکومتوں کے ساتھ نئے سرے سے معاہدات کیے۔ جو امریکہ کی پچھلی انتظامیہ کے ادوار میں ممکن نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے 2021ء سے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف میں نمایاں رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے معاملات کو پیشِ نظر رکھے بغیر عرب ممالک اپنی پالیسیوں اور صدر ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اپنے نئے ڈاکٹرائن کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
یہ بالکل سامنے کی حقیقت ہے کہ غزہ میں مکمل تباہی مچانے اور شام‘ لبنان اور دوسرے علاقوں میں حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے بعد نیتن یاہو اب گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو چکا۔ شام‘ مصر اور لبنان جواب دینے کے قابل نہیں۔ کچھ عرب ممالک ابراہم اکارڈ کے بندھنوں میں بندھے ہیں اور اسرائیل اور امریکہ‘ دونوں نے مل کر ایران کا تورا بورا بنا دیا ہے۔ اب گلیاں سُنجیاں نظر آنے لگی ہیں اور مرزا یار (نیتن یاہو) ان میں دندناتا نظر آتا ہے جبکہ ان کے پشت پناہ شکار اور شکاری دونوں کے حامی ہونے کا دم بھرتے اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر غزہ میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ پر بھی کوئی خواب غفلت سے نہیں جاگا تو قطر پر حملے نے عرب قیادت کو ایک بار پھر جاگنے اور چوکس ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ پتا نہیں ایسا ہو بھی سکے گا یا نہیں؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کے وزیراعظم و وزیر خارجہ‘ شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی کے مابین دوبدو ملاقات میں اسرائیلی حملے اور غزہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے‘ لیکن فوری طور پر اس اہم ملاقات کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور نہ ہی ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو سے متعلق کچھ بتایا گیا ہے۔ کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ البتہ اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اسرائیل کے دورے پر روانہ ہو گئے جہاں وہ نیتن یاہو کو خصوصی پیغام پہنچائیں گے۔ یہ پیغام کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ عرب قیادت کو لگانا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس جمعہ (12ستمبر) کے روز نیو یارک ڈیکلریشن کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ قرارداد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہے‘ تاہم اس میں حماس کا کوئی کردار شامل نہیں ہو گا۔ حماس کی موجودگی کے بغیر قائم کی گئی فلسطینی ریاست کیا واقعی آزاد ہو گی؟ یہ ایک اور بڑا سوال ہے۔ اس ممکنہ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اگر ایسی فلسطینی ریاست قائم ہو گئی تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس ساری بحث کا نتیجہ میں یہ نکالوں گا کہ غزہ سے ایک طرح سے فارغ ہونے کے بعد اسرائیل اب خطے میں ایک نیا کھیل شروع کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قطر پر کیے گئے حملے کو لٹمس ٹیسٹ کے طور پر استعمال کیا جائے‘ یہ دیکھا جائے کہ عرب ممالک کی جانب سے اس پر کیا رد عمل آتا ہے۔ میرے خیال میں عرب ممالک کی جانب سے ایک نپا تُلا‘ واضح‘ دوٹوک‘ گہرا اور کڑا جواب اسرائیل کی پیش قدمی کو روک سکتا ہے۔ بصورت دیگر کیا ہو گا‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved