تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     19-11-2013

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

آئین تو خیر کروڑوں لوگوں کے حقوق کا ضامن ہوا کرتا ہے ۔ کسی مجرم نے اگر سگنل توڑنے کا ہی جرم کیوں نہ کیا ہو جس میں کسی کو خراش تک نہ آئی ہو۔ خواہ ناکے پہ کسی غریب موٹرسائیکل والے کو روک کر پچاس روپے کی رشوت کی وصولی کا جرم ہی کیوں نہ ہو۔ جرم تو جرم ہے قانون توڑنا تو قانون توڑنا ہی کہلائے گا پنجابی میں کہتے ہیں نا : چوری ککھ دی وی چوری چوری لکھ دی وی چوری لہٰذا جرم کی نوعیت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو مجرم کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور نہ اس کو سزا سے بچانے کے لیے مدد کی جانی چاہیے۔ کوئی ظالم ہی ہو گا جو قانون توڑنے والے کسی مجرم کی حمایت میں یا جرم کا جوازمہیا کرنے کے لیے مجرم کے حق میں دلیل دے کہ فرد، معاشرے اور نظاموں کی فلاح انصاف میں ہے ۔ جب کسی معمولی جرم پہ مجرم کی حمایت نہیں کی جا سکتی تو ایسے شخص کی حمایت کوئی کیسے کر سکتا ہے جس نے آئین توڑا ہو وہ آئین جس سے بیس کروڑ لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہوں، وہ آئین جس کے ٹوٹنے سے ملکوں کے ٹوٹنے کے خدشات بڑھ جایا کرتے ہیں، وہ آئین جس کو بوٹوں تلے روندنے کے باعث جس کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی ملک اس حال کو پہنچا ہے کہ پچاس ہزار کے قریب عام شہریوں اور ساڑھے پانچ چھ ہزار کے قریب فوجیوں کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔ اس ملک میں قدم قدم پہ ہونے والی آئین شکنی وقانون شکنی کاہی شاخسانہ ہے کہ پچھلے نہ صرف کئی برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے عام آدمی کی خواہشیں اور خواب بھی پامال ہورہے ہیں۔ خدا کی قسم اگر جمہوری و غیرجمہوری آمر آئین کو پامال نہ کرتے تو آج پنڈی پشاور سے لے کر لیاری تک ملک آگ میں نہ جل رہا ہوتا۔ یہ جو فاقہ زدہ مائیں اپنے بچوں کو لے کر راوی میںڈوب مرنے میں نجات ڈھونڈنے لگی ہیں۔ یہ جو ہر دوسرے چوتھے روز غربت کے باعث ملک کے طول وعرض میں باپ اپنی اولادوں کو اہلیہ سمیت قتل کر کے خود کو گولی مارنے کی روش اپنا رہے ہیں ۔ اگر جمہوری وغیر جمہوری ہر دو طرح کے آمروں نے اس ملک کے آئین کو اپنی اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق پامال نہ کیا ہوتا تو ایسے واقعات بھی ہمیں دیکھنے اور سننے کو نہ مل رہے ہوتے۔ یا کم ازکم اس مقدار میں نہ دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہوتے جو ہمارا نصیب بن چکے ہیں۔ یہ بیس کروڑ میں سے دس کروڑ کے لگ بھگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور عوام اگر بمشکل چار پانچ ہزار روپے مہینہ کما پاتے ہیں تو یہ غربت کا وہی روپ ہے جو جرم اور کفر سے بھی آگے لے جایا کرتا ہے۔ اس تازہ رپورٹ پر غور کریں جس کے مطابق اسامہ بن لادن کی کھوج میں شکیل آفریدی سے لے کر دیگر کئی مقامی افراد یہاں تک کہ خواتین سے مدد لی گئی تو بات زیادہ کُھل کے اور جلدی سمجھ میں آجائے گی کہ غربت کیا کچھ کروایا کرتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ،کہ جس جرم سے بے شمار جرائم بے بہا برائیاں اور بے انتہا دکھ کسی معاشرے میں جنم لیا کرتے ہیںآئین توڑنا ایسا ہی جرم ہے۔ لہٰذا کوئی بھی ایسا شخص یا ایسے اشخاص یا گروہ یا جتھا جو آئین توڑنے کا مرتکب قرار پائے کسی صورت بھی اسے قانون کے ہاتھوں سے بچ کر نہیں نکلنا چاہیے… لیکن ٹھہرئیے…ایک ایسا ملک ایک ایسا معاشرہ جس میں آئین توڑنے کا ساتھ دینے والے اور آئین توڑنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف مقدمہ چلانے والوں اور سننے والوں کی صفوں میں وہی لوگ بیٹھے ہوں جو آئین توڑنے والوں کا ساتھ دیتے رہے ہوں اسے ایکسٹینشن عطا کرتے رہے ہوں تو کیا ایسی صورت میں کسی ایک شخص کو ٹارگٹ کر کے مقدمہ چلانے سے اس شخص کو آج بھی اپنے چیف کے نام سے یاد کرتے ہوئے ادارے کے لوگ خاموش رہ پائیں گے…؟؟؟ کیسے خاموش رہ پائیں گے …؟؟؟ کب تک خاموش رہ پائیں گے…؟؟؟ بات بات پہ ترکی کی مثال دینے والے شاید ترکی کے سیاستدانوں کی کامیابیوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ نہیں جانتے کہ ترکی میں فوج کے مقابلے میں سیاستدانوں کو فتح چند روز میں نہیں مل گئی تھی۔ اس کے لیے وہاں کے سیاستدانوں نے ایک شہر استنبول کو مثال بنا کر کس طرح عوام میں مقبولیت اور حمایت حاصل کی اور کس طرح انتہائی تدبر، حکمت اور احتیاط کے ساتھ سول حکمرانی کی بالادستی کو فوج اور فوجیوں کے لیے بھی یقینی بنایا ۔ محاورہ یاد آتا ہے ’’جلدی کا کام شیطان کا…‘‘ کچھ سیاستدانوں کو کرکٹ کی زبان زیادہ سمجھ آتی ہے لہٰذا ان کے لیے عرض ہے کہ ایک ہی قوت ایک ہی رفتار سے بیٹسمین کی طرف بڑھتی ہوئی بال کو اگر بیٹسمین درست ٹائمنگ سے کھیلے گا تو بال بائونڈری کے باہر چلی جائے گی اگر ٹائمنگ میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی بھی گڑبڑ ہو گئی تو یا تو بیٹسمین آئوٹ ہو گا یا ’’بوتھا ‘‘تڑوا کر باقی ماندہ میچ کھیلنے کے بجائے ہسپتال میں سٹیچز لگواتا پھرے گا۔ غلط ٹائمنگ کے ساتھ کھیلا گیا ایک بائونسر بیٹسمین کو باقی تمام عمر کے لیے میچ تو کیا کرکٹ سے بھی باہر کر سکتا ہے … بڑی مشکل سے باری ملی ہے وہ رن بنائیں جس سے عوام کی زندگیوں کو سکون حاصل ہو۔بگڑے ہوئے ’’بائولر‘‘ کو سبق سکھانے سزا دینے سے کون منع کرتا ہے مگر پہلے سکور بورڈ پہ ’’عوامی خدمت‘‘ کے کچھ رنز تو موجود ہوں پھر وہ وقت بھی آجائے گا جب بائونسر اور باہر جاتی گیند کو بھی چھیڑا جا سکتا ہے ۔ مشرف کے خلاف حکومت کو کارروائی ضرور کرنی چاہیے… مگر تب جب اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں آنے لگے کہ لوگوں کو بجلی ملنے لگی ہے، گیس صرف گھروں کو نہیں انڈسٹریوں کو بھی سپلائی ہو رہی ہے ۔معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں ۔دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے ، فرقہ وارانہ دوزخ میں جلتی بلتی گلیوں کو امن کی ٹھنڈی ہوائیں نصیب ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کی بھرپور حمایت حکومت کو حاصل ہے اور’’اہم‘‘ اداروں کے لیے بھی ناممکن ہو جائے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے خلاف جس کو عوام کی بھرپور اخلاقی حمایت حاصل ہو ،اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے کے حق میں کوئی ایڈونچر کر سکیں… موجودہ صورتحال میں تو مرزا ہی یاد آتے ہیں ؎ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں عوامی حمایت کی وہ ’’تلوار‘‘ جو کسی بھی حکومت کو عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے ، لوڈشیڈنگ ، بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔اگر ن لیگ کو لگتا ہے کہ وہ تلوار ہاتھ میں آگئی ہے… تو بسم اللہ کیجئے آگے بڑھیے اور آمر کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کی گردن بھی اڑا دیجئے جو لکھے ہوئے لفظوں کے مطابق آمر کو معاونت وسہولت دینے میں پیش پیش تھا۔انصاف ہی ہونا ہے تو بھرپور ہو صرف مشرف ہی کیوں…؟؟؟اور 3نومبر سے کیوں 12 اکتوبر سے کیوں نہیں۔؟؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved