تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     16-09-2025

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!

ڈنمارک سپریم کورٹ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی جج‘ مسٹر جسٹس محمد احسن کی کہانی تو آدھے ادھورے کالم میں سمیٹی جا سکتی تھی کہ وہ بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ڈنمارک سپریم کورٹ کی داستان‘ کوشش کے باوجود دو کالموں کے کوزے میں بند نہیں کی جا سکتی۔ میں ججوں کے انتخاب اور عدالت کے طریقِ سماعت کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ آج چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر کے دلچسپ نظام کی بات کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں تعینات ہو نے والا ہر جج ستّر سال کی عمر تک اپنے منصب پر برقرار رہتا ہے۔ چیف جسٹس کو وہاں صدر (President) کہا جاتا ہے۔ صدرِ سپریم کورٹ یعنی چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر میں حکومت‘ کسی اعلیٰ عہدیدار‘ ادارے‘ حتیٰ کہ بادشاہ کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 1861ء میں ایک روایت قائم ہوئی جسے 1915ء میں ایک واضح اور متعین شکل دے دی گئی۔ چیف جسٹس کے ستّر سال کی عمر تک پہنچنے‘ یعنی اُس کی ریٹائرمنٹ سے تین چار ماہ قبل اٹھارہ رُکنی سپریم کورٹ کے سترہ جج صاحبان میں نئے چیف جسٹس کے انتخاب پر مشاورت شروع ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر تین چار سینئر جج صاحبان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر جج اپنی رائے مرتب کرتا ہے۔ فیصلہ اتفاقِ رائے سے نہ ہو تو کثرتِ رائے سے ہو جاتا ہے۔ سو جج صاحبان خود اپنا چیف جسٹس چُن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا سب سے سینئر ہونا ضروری نہیں۔ اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس خدمات سرانجام دینے کیلئے معقول وقت پڑا ہو۔ چُنے گئے چیف جسٹس کا نام رسمی طور پر وزارتِ انصاف کو بھجوا دیاجاتا ہے جو 'دربارِ شاہی‘ کو ارسال کر دیتی ہے اور شاہ اس کی تقرری کا فرمان جاری کر دیتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ ازخود‘ عوامی آگاہی کیلئے‘ اُسی دن نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کر دیتی ہے‘ جس دن یہ نام وزارتِ انصاف کو بھیجا جاتا ہے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی بھی سطح پر جج صاحبان کے فیصلے سے انحراف کیا گیا ہو۔ ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ اختلاف کرنے والے جج صاحبان اپنے سامنے والی شاہراہ پر کوئی دھوبی گھاٹ بنائیں‘ اپنی داغدار عبائیں دھوئیں اور سوکھنے کیلئے سپریم کورٹ کی دیواروں پر ٹانگ دیں۔ مجھے کسی ایسے وقوعے کا سراغ بھی نہیں ملا کہ آئینی وقانونی نکات کی تشریح وتوضیح کے بجائے وہ ایک دوسرے کے چہرے مسخ کرنے کیلئے‘ کسی ذاتی زخم یا پرخاش کی بنا پر‘ لغتِ کوچہ وبازار سے 'دشنام تلاشی‘ کریں اور باہمی خط وکتابت کا سلسلہ شروع کر دیں۔ ایسا ہوا ہوتا تو 1661ء سے آج تک 364 سالوں میں ''مکتوباتِ منصفانِ ڈنمارک‘‘ کی کئی ضخیم جلدیں منظر عام پر آ چکی ہوتیں۔
'ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ سکنڈے نیویا کے چار ممالک ڈنمارک‘ ناروے‘ سویڈن اور فن لینڈ بالترتیب پہلے‘ دوسرے‘ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ ''قانون کی حکمرانی‘‘ کے حوالے سے پہلا اسلامی ملک متحدہ عرب امارات ہے‘ جو 39ویں نمبر پہ آتا ہے۔ پاکستان‘ انتہائی فعال‘ متحرک اور آتش مزاج عدلیہ رکھنے کے باوجود 129ویں نمبر پر ہے۔ مجھے تو یہ ''ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کی سازش لگتی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قازقستان‘ انڈونیشیا‘ تیونس‘ ازبکستان‘ الجیریا‘ مراکش‘ لبنان‘ ترکیہ‘ نائیجیریا‘ بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک کا گراف ہم سے بہتر ہو۔ ممکن ہو تو خطوط نویسی پر کامل دسترس رکھنے والے کسی جج کو ''ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کے نام بھی ایک بارُود پاش مکتوب لکھنا چاہیے۔ نہایت ہی افسوسناک امر یہ ہے کہ ڈنمارک کے جج صاحبان میں سے کسی نے 'رفاہِ عامہ‘ کے حوالے سے عدل وانصاف کی ایسی درخشاں مثال قائم نہیں کی کہ کئی کئی منزلہ رہائشی ٹاور زمیں بوس کرا دیے ہوں‘ پانی کی قلت دور کرنے کیلئے ڈیمز تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہو‘ ایک پروان چڑھتے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہو‘ شہر میں ٹرام چلانے کیلئے ہلکان ہو رہا ہو یا کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات میں رخنہ اندازی کی ہو۔ ڈنمارک عدالت کی کمزوری اور بے چارگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی وزیراعظم کو پھانسی چڑھانا یا منصب سے ہٹانا تو بہت دور کی بات ہے‘ اُسے عدالت میں طلب تک نہیں کر سکی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ قانون کی کیسی حکمرانی ہے جس نے ڈنمارک کو سب سے اونچی مسند پر بٹھا دیا ہے؟
میرے ایک سوال پر جسٹس محمد احسن نے بتایا کہ وہ آخری بار 2015ء میں اپنے والد کی میّت لے کر پاکستان آئے تھے۔ رحمت خان نے اپنے خاندان کی فصل کو ڈنمارک کی کھیتی میں پروان چڑھتے دیکھا لیکن زندگی کے آخری لمحات میں وصیّت کی کہ مجھے کوپن ہیگن میں نہیں‘ میرے گائوں دھنّی میں دفن کرنا۔ جسٹس صاحب کو اپنے وطن آئے اب دس برس ہونے کو ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سپریم کورٹ اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دے۔ اُن کی عزت افزائی کیلئے تقریبات کا اہتمام کرے۔ انہیں سمجھائے کہ حقیقی اور بے لاگ انصاف کے تقاضے کیا ہیں۔ اُنہیں بتائے کہ دورِ حاضر کے روشن خیال اور تَر دماغ جج صاحبان فیصلے ہی نہیں‘ خطوط بھی لکھتے ہیں تاکہ ججوں کا باہمی دوستانہ رشتہ مضبوط رہے۔ یہ بھی گوش گزار کیا جائے کہ سائیکلوں یا بسوں پہ عدالت جانا‘ عدالتی عظمت ووقار کی توہین ہے۔ دبے لفظوں میں یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ تنخواہ سے پچاس فیصد ٹیکس کٹوا دینا کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اگر چیف جسٹس کی صرف پنشن ہی 23 لاکھ 90 ہزار روپے ہے تو آپ لوگوں کو بھی اپنی معیشت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بھی کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ڈنمارک کی سپریم کورٹ کا سارا عملہ صرف 60 افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں تو اتنے اہلکار ایک جج کو میّسر ہیں۔ کسی اپیل کا فیصلہ صرف سات دنوں میں کر دینا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ اس سے زیرِ التوا مقدمات کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے باہر سائلوں کی میلوں لمبی قطاریں نہ لگی ہوں اور عدالت کے تہہ خانے ہزاروں زیرِ التوا مقدمات کی فائلوں سے نہ بھرے ہوں تو عدالت کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ اور یہ تو انتہائی معیوب حرکت ہے کہ جج کے پاس کوئی ذاتی حاجب یا نائب قاصد تک نہ ہو اور وہ اپنے لیے چائے بھی خود بنا کر لائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ڈنمارک کی عدالت ''ریاست‘‘ کے دوسرے دو ستونوں‘ انتظامیہ اور مقننہ کو اپنا کھلا دشمن خیال کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں نیزے کی نوک پر رکھے اور اُن کے اقدامات کو گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہ دیا کرے۔
مناسب ہوگا کہ معزز مہمان کیلئے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں عالی مرتبت ریٹائرڈ جج صاحبان‘ جسٹس ارشاد حسن خان‘ جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کو خاص طورپر مدعو کیاجائے تاکہ وہ قانون کی حکمرانی کے موضوع پر دانش وحکمت کے موتی بکھیریں۔ ان ساری تقریبات میں اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ جسٹس محمد احسن کو بولنے کا موقع نہ دیاجائے۔ مبادا وہ کوئی ایسا وائرس نہ چھوڑ جائیں جو ہماری صاف شفاف عدالتی فضا میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے اور ہماری عدلیہ بھی ڈنمارک کی عدلیہ جیسی ہو جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم محض 'ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کا زینہ چڑھنے کے شوق میں ڈنمارک کی 364 سالہ روایات کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی 78 سالہ درخشاں روایات کو بھی خاک میں ملا دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved