گزشتہ ہفتے کابل میں طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں محض قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں نہیں تھیں بلکہ یہ ایک بہت وسیع اور پیچیدہ ایجنڈے کا حصہ تھیں۔ یہ ملاقات جنوری میں ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے بعد فریقین کے درمیان سب سے اہم دوطرفہ بات چیت ہے۔ اگرچہ عوامی طور پر قیدیوں کا تبادلہ ہی موضوعِ بحث رہا تاہم ان ملاقاتوں میں جو اصل حقائق سامنے آئے وہ افغانستان کے جغرافیائی اور سیاسی مستقبل کی نئی سمت کا تعین کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ قیدی اب مذاکرات کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں جبکہ منجمد اثاثے‘ بین الاقوامی تسلیم توثیق اور بیرونی اثر و رسوخ ہی اصل سٹرٹیجک فوائد ہیں۔ قیدیوں کا تبادلہ بات چیت کا ایک بنیادی محرک ہے۔ ایک طرف طالبان 12 افغان قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں‘ جن میں گوانتاناموبے جیل میں قید محمد رحیم عرف افغانی اور دیگر اہم افراد شامل ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کا اولین مقصد امریکی شہری محمود شاہ حبیبی کی واپسی ہے۔ طالبان اس بات کیلئے تیار ہیں کہ وہ مغرب کے دیگر چار سے پانچ قیدیوں کو بھی ایک ایک کر کے استعمال کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں۔ یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ قیدی اب صرف انسانی مسئلہ نہیں رہے بلکہ یہ طالبان کی عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں ایک اہم ترین ہتھیار بن چکے ہیں۔ اسیروں کا ایک ابتدائی تبادلہ ہو سکتا ہے جس کا آغاز حبیبی کو رحیم کے بدلے رہا کرنے سے ہو گا۔
افغانستان کے معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ بیرونِ ملک منجمد تقریباً سات ارب ڈالر کے افغان اثاثے ہیں۔ طالبان ان تمام اثاثوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ کم از کم تین سے چار ارب ڈالر کی فوری منتقلی چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں امریکہ نے فنڈز کو مرحلہ وار اور نگرانی کے ساتھ ایک فلاحی ٹرسٹ میکانزم کے ذریعے جاری کرنے کی پیشکش کی ہے‘ تاہم طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے قیادت کو واضح طور پر کہا ہے کہ کسی بھی بڑی رعایت پر اس وقت تک عمل نہ کیا جائے جب تک کہ منجمد اثاثے واپس نہ ملیں۔ طالبان کسی بھی سمجھوتے کیلئے تب تک تیار نہیں ہوں گے جب تک ان اثاثوں کی واپسی نظر نہ آئے۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ شاید ایک ارب ڈالر تک کی رقم مرحلہ وار جاری کی جائے گی۔ افغان طالبان کا اصل مقصد عالمی برادری سے باقاعدہ توثیق اور امریکہ میں ایک سفارتی مشن قائم کرنا ہے۔ وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے 17 سینئر رہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں ختم کی جائیں۔ امریکہ نے فی الحال مکمل تسلیم کرنے کو ترجیح پر نہیں رکھا لیکن اس نے کابل میں ایک محدود مشن کھولنے پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ سفری پابندیوں میں جزوی چھوٹ کا امکان بھی زیر غور ہے۔ طالبان اپنی ساکھ اور قانونی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے بین الاقوامی قبولیت کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی و سیاسی کشمکش کا ایک نیا میدان بن چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان کے پاس موجود معدنی وسائل ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان معدنیات کا جدید ٹیکنالوجی‘ خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں اور دیگر صنعتی استعمال میں بڑھتا ہوا کردار ہے۔ پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں لیتھیم کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں جو اسے دنیا میں وہی مقام دلا سکتے ہیں جو تیل کی وجہ سے سعودی عرب کو حاصل ہے۔ یہ وہ اہم نقطہ ہے جو افغانستان کو عالمی طاقتوں کی نظروں میں سٹرٹیجک اہمیت کا حامل بناتا ہے اور اس کے معدنی وسائل کو مستقبل کے عالمی توازن میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ طالبان ان اہم معدنیات کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی سفیروں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس میدان میں چین کا اثر و رسوخ ہے۔ طالبان نے چین کی برتری کو تسلیم کیا لیکن یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ پابندیوں میں نرمی کے بدلے چینی سرمایہ کاری کو محدود کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں طالبان نے امریکہ کو تانبے اور لیتھیم کے میدانوں میں شراکت کی پیشکش بھی کی ہے‘ تاہم اس پر چین کا ردِعمل شدید ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب روس بھی افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے۔ روس نے ایندھن اور توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ریلوے ٹرانزٹ اور عسکری تعاون کے معاہدوں میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ روس اور چین کی طرف سے طالبان کو ایک خفیہ پیغام ہے کہ اگر امریکہ کی دلچسپی کم ہوتی ہے تو ان کے پاس دوسرے راستے موجود ہیں۔ طالبان اپنی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو استعمال کرتے ہوئے بیک وقت امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور چین کو بھی اپنے قابلِ اعتبار فریق ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کے بدلتے ہوئے تعلقات نے خطے میں پاکستان کے کردار کو مرکزی اور کلیدی بنا دیا ہے۔ پاکستان نہ صرف طالبان اور واشنگٹن کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ بن گیا ہے بلکہ ہمارے انٹیلی جنس ادارے امریکی رابطوں کا بھرپور مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اس بدلتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی منظر نامے میں اپنے سٹرٹیجک مفادات کا بھرپور تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان اس پیچیدہ کھیل میں محض سہولت کار نہیں بلکہ ایک اہم اور فیصلہ کن کھلاڑی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔
افغانستان کا مستقبل ایک پیچیدہ اور سہ رخی حکمت عملی کا حامل نظر آتا ہے۔ آئندہ تین ماہ میں ایک ابتدائی مرحلہ شروع ہو سکتا ہے جس دوران قیدیوں کا تبادلہ‘ منجمد اثاثوں کی جزوی واپسی اور امریکہ کا کابل میں ایک محدود مشن قائم کرنا متوقع ہے۔ یہ صورتحال اگلے چھ ماہ سے ایک سال میں مزید بدل سکتی ہے‘ جب طالبان اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے ماسکو اور بیجنگ میں لابنگ کریں گے۔ اس دوران وہ عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر قیدیوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو امکان ہے کہ امریکہ کابل میں اپنی موجودگی کو وسعت دے گا۔ ایک سال یا کچھ زیادہ مدت میں افغانستان کے معدنی وسائل پر عالمی طاقتوں کے درمیان ایک سہ فریقی مقابلہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اس پورے عرصے میں عالمی برادری کی طرف سے طالبان کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کا معاملہ بحث کا ایک اہم محور رہے گا۔ یہ تمام اقدامات اور صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ افغانستان کا مستقبل اس کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت اور معدنی دولت سے جڑا ہوا ہے۔
بلاشبہ افغانستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے لیے ایک نیا میدان بن چکا ہے‘ جہاں امریکہ‘ چین اور روس جیسے اہم کھلاڑی اپنے اپنے سٹرٹیجک مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔ طالبان کی قیادت اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی قانونی حیثیت‘ مالی فوائد اور عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ملک صرف ایک فریق کی نہیں بلکہ متعدد فریقوں کی ترجیحات‘ معدنی دولت اور جغرافیائی و سیاسی اہمیت کی وجہ سے ایک پیچیدہ حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ کون سی طاقت اس کھیل میں سبقت لے جاتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved