تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     16-09-2025

27ویں آئینی ترمیم اور مالیاتی ایمرجنسی

ایسے حالات میں‘ جب ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب تقریباً چار دہائیوں کے بدترین سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار ہے اور پنجاب میں 45لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرنے اور شدید تباہی پھیلانے کے بعد یہ سیلاب سندھ میں داخل ہو چکا ہے جہاں لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے‘ سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنے آپسی اختلافات بھلا کر سیلاب متاثرین کیلئے متحد ہوں اور مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس وقت سوچ کے اختلافات اور دیگر وجوہات کی بنا پر کچھ طبقات بعض معاملات میں پنجاب حکومت کے کچھ فیصلوں سے شاکی نظر آتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس چونکہ ناکافی وسائل ہوتے ہیں‘ ایسے مواقع پر غیر سرکاری تنظیمیں آگے بڑھ کر حکومت کی معاونت کرتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جس طرح اپنے ڈیڑھ سالہ دورِ وزارتِ اعلیٰ میں عوام کی بے لوث خدمت کی ہے‘ اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن سیلاب زدگان کو ملنے والے امدادی سامان پر ہونے والی تشہیر ان کی سیاسی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔2007ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بھی اسی طرح کی اشتہاری مہم شروع کی تھی اوربچوں کی درسی کتابوں کے ٹائٹل اور پنجاب کے اہم ترین مقامات پر ان کے پورٹریٹ نمایاں تھے‘ مگر اس کے باوجود 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں چودھری پرویز الٰہی کی جماعت پنجاب سے محض نو نشستیں حاصل کر سکی جبکہ مسلم لیگ (ن) 75 سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی کیونکہ عوام حکمرانوں کی اشتہاربازی سے نالاں تھے۔
حکومت کو یہ احساس ہو نا چاہیے کہ مشکل معاشی حالات کی وجہ سے شہریوں میں غم و غصے کا طوفان ہے۔ خوشنما اعداد و شمار اور اشتہارات کے ذریعے عوام کی محرومیاں دور نہیں کی جا سکتیں‘ اس کے لیے مستحکم سیاسی نظام‘ سنجیدہ سیاسی قیادت اور درست معاشی ترجیحات کی ضرورت ہے تاکہ مایوس شہریوں کی امیدوں کا چراغ دوبارہ روشن ہو سکے۔ موجودہ نظام ملک کے 25 کروڑ عوام کی امنگوں کی تعبیر نہیں کر سکتا۔ آج ہم سیلاب سے نبرد آزما ہیں جس سے نمٹنے میں ریاست ناکام دکھائی دے رہی ہے مگر اس کے بعد ایک اور طوفان آنے والا ہے جس کی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔ علمِ سیاست اور معیشت ایک سائنس ہے‘ اور جو قوم اس سائنس سے روگردانی کرتی ہے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ایسے ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں جو اس سائنس میں ماہر ہوں اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ جو قوم ان مشوروں کو نظرانداز کرتی ہے اس کا انجام برا ہوتا ہے۔ ملکِ عزیز کے روڈ میپ کو درست کرنے کیلئے بلدیاتی نظام کو استوار کرنا ہوگا۔
کچھ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں موجود تمام ڈالر استعمال کر چکی ہے ۔ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے سربراہ اس صورتحال سے یقینا آگاہ ہوں گے۔ معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہت تیزی سے کمی آنے والی ہے۔ اس کی وجوہات واضح ہیں؛ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے خوراک کے ذخائر اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں سیلاب سے 4.3 فیصد زرعی رقبہ متاثرہوا اور 13 لاکھ ایکڑ زمین زیرِ آب آئی ہے۔سیلاب سے چاول کی 9 فیصد‘گنے کی سات اور کپاس کی دو فیصد فصل متاثر ہوئی۔ سب سے زیادہ نقصان دریائے راوی‘ چناب اور ستلج کے کنارے آباد 28 اضلاع میں ہوا۔ ماہرین کے مطابق سیلاب کا معاشی نقصان 409 ارب روپے ہے جوجی ڈی پی کا اعشاریہ تین فیصد بنتا ہے جبکہ زرعی پیداوار میں 15 سے 20 فیصد کمی سے شرحِ نمو مزید اعشاریہ پانچ سے ایک فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافے کا بھی خدشہ ہے، کپاس کی درآمد اور ٹیکسٹائل، چاول اور چینی کی برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ تقریباً دوارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا کہ حکومت متاثرہ کسانوں کی فوری مالی مدد‘ قرضوں کی ری شیڈولنگ‘ بیج اور کھاد کی سستی فراہمی یقینی بنائے‘ سیلابی علاقوں میں کاشتکاری روکنے اور زرعی پیٹرن کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے کے اقدامات کرے۔ بصورت دیگر ہمیں ہر سال خوراک درآمد کرنا پڑے گی جس کیلئے ڈالر موجود نہیں ہیں۔ نتیجتاً مہنگائی مزید بڑھے گی‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اورصنعتی پیداوار متاثر ہو گی‘ جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ ہماری ملکی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں‘ اس لیے حکومت کو اخراجات پورے کرنے اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ڈالر درکار ہیں جو صرف مہنگے سود پر حاصل ہوں گے۔ ڈالر کی قدر بڑھی تو پٹرول‘ بجلی اور دیگر ضروری اشیا مزید مہنگی ہوں گی اور غربت میں اضافہ ہوگا۔
اپنے 35 سالہ بیوروکریسی کے تجربے کی روشنی میں مَیں صرف مسائل کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ان کے حل بھی پیش کرتا ہوں۔ موجودہ نظامِ حکومت اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث ناکارہ ہو چکا ہے اور حکومت کی رِٹ محض نام کی رہ گئی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات ایک بار پھر بڑھنے لگے ہیں‘ صوبوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ پنجاب کی پالیسیوں سے دیگر صوبے بھی آہستہ آہستہ نالاں ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کیلئے متعدد غیر ملکی دورے کر چکے ہیں لیکن سرمایہ کاری نہیں لا سکے۔ کوئی بڑی کمپنی یا ملک یہاں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا ضروری ہو چکا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 232کے تحت موجودہ نظام کو منجمد کر کے ایک ایمرجنسی کونسل تشکیل دی جائے۔ اس کونسل میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین ‘ معتبر اور اچھی شہرت رکھنے والے تقریباً 30 افراد کو شامل کیا جائے اور ملک کے ڈھانچے کو ازسرِ نو ترتیب دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے رحم احتساب کا آغاز کیا جائے اور سیاستدانوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں ضبط کی جائیں جن کا ذکر دبئی لیکس‘ پاناما لیکس اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹس میں موجود ہے۔ اس وقت آئینی عدالت بھی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے‘ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved