تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-09-2025

چکوال کے تاریخی چھپڑ بازار پر حملے کی تیاریاں

جو یہاں آتا ہے چکوال کے پرانے چھپڑ بازار پر چڑھ دوڑنے کی سوچتا ہے۔ مشرف دور میں ایک سرکاری دستہ یہاں تعینات ہوا۔ ایک اچھا کام اس کی وساطت سے یہ ہوا کہ چکوال کی بڑی سڑکوں پر روشنی کے نظام کا بندوبست ہو گیا۔ شہر میں رات کی آدھی رونق ان لائٹوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن اس دستے میں یہ آرزو بھی پیدا ہوئی کہ چھپڑ بازار کو درست کیا جائے۔ حسبِ روایت ٹھیہ بانوں پر سختی آ گئی اور انہیں بازار سے بے دخل کر دیا۔ انگریزی کالم نگاری اس وقت کرتے تھے‘ ایک دو کالم دے مارے اور تب کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد صفدر (آف دوالمیال) کا بھلا ہو کہ انہوں نے چھپڑ بازار پر حملے کا نوٹس لیا۔ تب کے کمانڈر 13 ڈویژن کھاریاں چکوال آئے اور ان کی وجہ سے ٹھیہ بان چھپڑ بازار واپس منتقل ہو گئے۔
آج پنجاب کے انتظامی حالات ایسے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ عوامی نمائندوں کے نام پر فارم 47 کے نمونے بٹھائے گئے ہیں۔ جو فارم 47 کے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے بولنے سے قاصر ہیں اور بھول کے بول بھی لیں تو ان کو سننے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ ایسے میں کچھ عرصہ قبل ضلعی ہرکاروں نے یہ نوید سنائی کہ 25‘ 30 کروڑ کی پنجاب حکومت کی گرانٹ کے بل بوتے پر چھپڑ بازار کی تزئین وآرائش کی جائے گی اور اس ضمن میں چھپڑ بازار کے شروع میں جو گورنمنٹ ایم سی گرلز ایلیمنٹری سکول پرانی ہندو یا وقف پراپرٹی پر چل رہا ہے‘ اسے مسمار کرکے اس پر پارکنگ پلازہ بنایا جائے گا۔ عقل ملاحظہ ہو کہ چکوال کی سب سے تاریخی عمارت کو گرا کر موٹر کاروں کی آرام گاہ بنائی جائے گی۔ ایسی بیوقوفیاں ہمارے دیس یا مملکت خداداد ہی میں سرزد ہو سکتی ہیں۔
ایک تو ان ضلعی افلاطونوںکو بتانے والاکوئی نہیں کہ جس پراپرٹی پر چڑھائی کی آپ سوچ رہے ہیں وہ آپ کی ملکیت ہے ہی نہیں۔ یہ وقف پراپرٹی ہے جو ایک معاہدے کے تحت لوکل گورنمنٹ کو سکول چلانے کی غرض سے دی گئی تھی۔ کوئی شک تھا بھی تو ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر اوقاف راولپنڈی نے اپنے خط نمبر DA/ETP/RWP/(2025)/1839 میں بتاریخ 19-8-2025 کو ڈی سی او چکوال کو مطلع کیا کہ اس پراپرٹی کی تعلیمی حیثیت تبدیل ہونے کی صورت میں 12-6-1984 کے معاہدے کے تحت 'سناتن دھرم دیانند ہائی سکول‘ کی پراپرٹی محکمہ اوقاف کو واپس چلی جائے گی۔ 1999ء میں بھی میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک کوشش ہوئی تھی سکول کو گرا کر ایک پلازہ بنانے کی۔ تب بھی محکمہ اوقاف اور تب کے ڈپٹی کمشنر رؤف خان کی مداخلت سے یہ بیوقوفانہ سکیم روکی گئی۔ اب نئے افلاطونوں پر وہی پرانا بخار سوار ہوا ہے۔ سبحان اللہ!
ساتھ ہی 12‘ 13 دکانیں جو سکول کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور جو محکمہ اوقاف کی زمین پر واقع ہیں‘ کو خالی کرنے کے نوٹس موصول ہوئے ہیں‘ اسی پرانے عذر پر کہ چھپڑ بازار کی تزئین وآرائش مطلوب ہے۔ ان عقل کے شہزادوں کو کون سمجھائے کہ بازاروں کی رونق کاروبار اور لوگوں کی آمدورفت سے ہوتی ہے۔ معاشی حالات ویسے ہی خراب ہیں‘ پچھلے دو سالوں میں کسانوں اور زرعی شعبے کا بیڑہ غرق ہوا ہے۔ چکوال شہر کا کاروبار چکوال کے دیہات پر منحصر ہے‘ کسان اور گاؤں والوں کی جیبوں میں کچھ آتا ہے تو وہ چکوال آکر خرچتے ہیں۔ گندم کے ساتھ آپ نے وہ کیا ہے جس کا ذکر افسانوں میں نہ ملے۔ پچھلے سال مونگ پھلی سے بھی کچھ زیادہ آمدن نہ آئی۔ اس کے علاوہ کوئی انار یا کیلے تو چکوال میں ہوتے نہیں۔ اوپر سے بارش کی تباہی اور تزئین وآرائش کا تصور ان عقل کے مارے بابوؤں کا‘ کہ چھپڑ بازار سے ٹھیہ بانوں کو پھر سے بے دخل کیا جائے اور چھابڑی والوں پر سختی لائی جائے۔ کہانی سنائی جا رہی ہے کہ تاروں کو زیر زمین لے جایا جائے گا‘ لائٹیں لگیں گی‘ یعنی وہی پرانا خواب کہ چھپڑ بازار کو پیرس بنا دیا جائے گا۔ یہاں جو بیوقوف آتا ہے پیرس سے کم کی بات نہیں کرتا۔
انہیں کوئی سمجھ نہیں کہ چکوال کے اصل مسائل کیا ہیں؟ بارشوں سے پہلے چکوال شہر میں پانی کی اتنی قلت تھی کہ ایک دن چھوڑ کر سپلائی آتی اور وہ بھی محدود وقت کیلئے۔ چکوال کے نزدیک کھائی ڈیم ہے وہاں سے پانی لانے کی داستانیں سنائی جاتی رہی ہیں لیکن عملی کام کچھ نہیں ہوا۔ بلکسر کے قریب دھرابی ڈیم کے پیچھے پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بن چکا ہے اور ہماری کمال منصوبہ دیکھیے کہ اس بڑی جھیل کا ایک قطرہ بھی کہیں استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی ڈیم کی تعمیر پر خطیر رقم لگی اور ایک بوند بھی کسی کے کام نہیں آ رہی۔ مچھلی والوں کو محکمہ سمال ڈیمز جھیل سالانہ ٹھیکے پر دیتا ہے اور مچھلی والے مچھلیوں کی پرورش کیلئے دنیا جہان کا گند پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے پہاڑوں سے آیا ہوا صاف پانی جو سیدھا ہاتھ ڈبو کر پیا جا سکتا تھا اب پینے کے قابل نہیں رہا۔ دھرابی ڈیم سے چکوال کو پانی مہیا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں‘ نہ ضلعی انتظامیہ کے بابوؤں کے ذہنوں میں کوئی ایسا خیال آیا ہے۔
چیف منسٹر مریم نواز کے ستھرا پنجاب سکیم کے تحت سبز جیکٹوں میں ملبوس اہلکار صفائی کے کام میں مشغول نظر آتے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار دیہات سے بھی گندگی اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ کام اتنا جامع نہ سہی لیکن پہلی بار شروع تو ہوا ہے۔ بنیادی مسئلہ البتہ یہ ہے کہ گندگی یا سالڈ ویسٹ‘ جو اٹھایا جاتا ہے‘ کو تلف کرنے کا کوئی نظام نہیں۔ ستھرا پنجاب کے اہلکار شہر اور دیہات سے گند اٹھاتے ہیں اور کسی کھلی جگہ پر اس کو ڈھیر کر دیتے ہیں۔ اور کریں بھی کیا کیونکہ دیگر کوئی انتظام نہیں۔ ضلعی ہرکارے اس مسئلے پر اپنا دماغ نہیں لڑا سکتے؟ جو گرانٹ پنجاب حکومت سے آئی ہے یا آنی ہے اسے چھپڑ بازار کی بربادی کے بجائے ٹھوس فضلے کو تلف کرنے کے کسی منصوبے پر لگائیں۔ المیہ البتہ یہ ہے کہ بابوؤں کی سوچ محدود دائروں میں گھومتی ہے۔
لہٰذا اپیل حکومتِ پنجاب سے ہے کہ آپ کی مہربانی کہ آپ چکوال کو گرانٹ دے رہے ہیں لیکن اتنا دیکھیں کہ پیسہ کسی صحیح ضرورت کے کام پر خرچ ہو۔ معاشی تنگ دستی کے حالات میں 25‘ 30کروڑ کی گرانٹ معمولی رقم نہیں‘ لیکن بابوؤں کی عقل کی نذر یہ گرانٹ کی گئی تو چھپڑ بازار کے باسی اور چکوال کے عوام ماتم ہی کر یں گے۔ چکوال کی اولین ضرورت پانی کی ترسیل ہے اور دوسرا کام سالڈ ویسٹ یا ٹھوس فضلے کو تلف کرنے کا نظام ہے۔ لیکن جہاں اسلام آباد میں ایسا کوئی نظام نہیں تو چکوال میں کہاں سے آئے گا۔ ہماری ترجیحات ایسی ہی ہیں‘ سیمنٹ سریا بچھاتے جاؤ اور موسم کی تبدیلی کا رونا روتے رہو۔
جیسے اوپر عرض کیا جڑا ہوا مسئلہ فارم 47 کا ہے۔ کرشماتی لاٹری سے جو بے چارے بٹھائے گئے ہیں اپنے سایوں سے شرماتے ہیں‘ عوام کی بات ان سے کہاں ہونی ہے۔ چھپڑ بازار والے اِدھر اُدھر جاتے ہیں اور انہیں تسلیوں سے ٹرخایا جاتا ہے۔ جن دکانداروں کو نوٹس ملے ہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں‘ نہ کسی نام نہاد عوامی نمائندے کو پتا ہے کہ تزئین وآرائش کے نام پر چھپڑ بازار سے کیا ہونے والا ہے۔ البتہ ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر اوقاف راولپنڈی کی بروقت مداخلت سے اتنی امید پیدا ہو گئی ہے کہ گورنمنٹ ایم سی گرلز ایلیمنٹری سکول چھپڑ بازار ضلعی انتظامیہ کی مہربانیوں سے بچ جائے اور اس کے خلاف گھڑی گئی سیمنٹ سریے کی گھناؤنی سازش ناکام ہو جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved