تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     17-09-2025

ہم ادب کیوں پڑھیں؟

آج کل دنیا میں عدم رواداری اور انتہا پسندی کا گٹھ جوڑ (Nexus) تشددکے رویے کو جنم دے رہا ہے۔ انتہا پسندی اور تشدد کی کارروائیوں کے خاتمے کیلئے بعض اوقات حکومتی سطح پر طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے لیکن معاشرے سے اس ناسور کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے مرکزی ذمہ داری سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے جو ذہن سازی کے ذریعے عدم رواداری‘ انتہا پسندی اور متشدد سوچ کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر تمام سماجی اداروں کو غورکرنا چاہیے۔ ان سماجی اداروں میں خاندان‘ تعلیمی اداروں اور میڈیا کا اہم کردار ہے۔ معاشرے میں رواداری‘ برداشت‘ صبر اور یگانگت جیسی اقدارکو نظامِ تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا جب تعلیم اور تربیت ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے تعلیم نے تربیت سے ہاتھ چھڑا لیا ہے۔ اس کا بڑا سبب معیشت کا وہ نیولبرل (Neoliberal)ماڈل ہے جس کا بنیادی ہدف زیادہ سے زیادہ نفع کمانا ہے اور جہاں اقدار کی کوئی گنجائش نہیں۔ تعلیم کا یہ ماڈل Laissez-faire میں پروان چڑھتا ہے جہاں حکومت کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ نیولبرل ماڈل تعلیم کے نجی شعبہ میں زیادہ مقبول ہے۔ یوں تعلیم کا یہ ماڈل صرف منافع کے اردگرد گھومتا ہے اس لیے تعلیمی اداروں میں صرف وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو منافع بخش ہوتے ہیں۔ اس ماڈل میں ہیومینیٹیز کے مضامین کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہ مضامین عرفِ عام میں کمائی کرنے والے مضامین نہیں۔ نتیجتاً ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں وظائف اور نوکری کے معاملے میں ہیومینیٹیز کے مضامین کو زیادہ مقام و مرتبہ نہیں ملتا۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہیومینیٹیز کے مضامین کا احیا کیا جائے‘ خاص طور پر ادب کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ یہ ادب ہی کی تعلیم ہے جو غیرمحسوس انداز میں اپنے قارئین کو مختلف اصنافِ ادب کے ذریعے‘ مختلف کرداروں اور تحریروں سے روشناس کرتی ہے۔ اسی طرح ادب برد باری‘ ہمددری‘ حساسیت‘ تفہیم اور رواداری جیسی خوبصورت اقدار کو پروان چڑھاتا اور ان میں نکھار کا باعث بنتا ہے۔ یہ پڑھنے والوں میں مختلف عقائد اور آرا کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ادب کی معاشرے پر اثر پذیری پرگفتگو سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادبی تحریر کیسے تشکیل پاتی ہے۔ کیا موضوع کا انتخاب ادبی تحریر کو جنم دیتا ہے؟ ماضی میں یہ تاثر بڑا عام تھا کہ ارفع (Lofty) قسم کے موضوعات ہی ادب کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح کے ادب کی مثالیں Divine Comedy اور Paradise Lost ہیں‘ تاہم اس اصول کی اس وقت نفی ہونا شروع ہو گئی جب عام سے عنوانات پر لکھی ہوئی تحریروں کو اتنی ہی پذیرائی ملی جتنی کہ غیرمعمولی قسم کے موضوعات والی تحریروں کو ملتی تھی۔ اس ضمن میں ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ کیا کسی تحریر کو ادب کی صنف بنانے کیلئے اس میں موجود کرداروں کا اعلیٰ معاشرتی رتبہ ہونا ضروری ہے؟ ماضی کے ادب میں ہم نے بادشاہوں‘ شہزادوں اور نامور لوگوں کے حوالوں سے تحریریں دیکھی ہیں۔ شیکسپیئر کا ڈرامہ King Lear یا ہومر کی Iliad‘ ایسی تحریروں کی کچھ مثالیں ہیں۔ اس قسم کی تحریریں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں کیونکہ اب عام سمجھی جانے والی تحریریں بھی خاصی مقبول ہو چکی ہیں۔ ولیم ورڈز ورتھ کی Leech Gatherer اور Solitary Reaper اس طرح کی تحریروں کی کچھ مثالیں ہیں۔ تو کیا پھر ایک مخصوص اندازِ زبان و بیان کسی تحریرکو ادب کے درجے پر فائز کرتا ہے؟ ماضی میں تو اس بات پر یقین کیا جاتا تھا کہ ادب کی زبان اور عام استعمال کی زبان قطعی الگ اور مختلف ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادبی تحریروں میں خاصی مشکل زبان استعمال کی جاتی تھی لیکن اس قدیم تاثر کی اس وقت نفی ہو گئی جب ہم نے ادبی تحریروں میں سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال دیکھا جس کی بہترین مثال ارنسٹ ہیمنگوے کی شاہکار تحریر ''The Old Man and the Sea‘‘ ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا قاری پر کسی تحریر کا تاثر اور اس کی تاثیر کی شدت اسے ادب کا مقام عطا کرتی ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں پھر ایسی ترکیب کا سراغ لگانا ہو گا جو کسی تحریر کو ادب بناتی ہے۔ دراصل کسی ایک جزو یا مختلف اجزا کی ترکیب ادب کی تخلیق کا باعث نہیں بنتی بلکہ تحریر کے تاثر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیسے لکھاری مختلف اجزا کو یکجا کرکے تحریر کو پُراثر بناتا ہے۔ اب ہم ادب کے حوالے سے تین اہم مکاتبِ فکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ ماہرین کے ایک گروہ کاخیال یہ ہے کہ ادب کا سب سے اہم مقصد لطفِ طبع ہے۔ لہٰذا قارئین کو ادب تفریح کے حصول کیلئے پڑھنا چاہیے۔ ان ماہرینِ ادب کے مطابق ادب دراصل حقیقی زندگی کے تمام معاملات اور پہلوؤں سے دوری کا دوسرا نام ہے۔ ماہرینِ ادب کا ایک اور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ادب کی جڑت معاشرے سے ہے اور اسے حقیقی معنوں میں معاشرے کا عکاس ہونا چاہیے۔ دانشورانِ ادب کا ایک تیسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ادب کا مقصد تفننِ طبع یا محض معاشرے کی عکاسی نہیں بلکہ اسے معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ ادب ایک غیرجانبدار فعل یا سرگرمی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کا سیاست اور طاقت سے گہرا ربط ہے۔ Edward Said اپنی کتاب Orientalism میں بتاتا ہے کہ ادب کو سامراجی طاقتیں نمائندگی کی سیاست کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنی شناخت کو برتر اور ''دوسروں‘‘ کو کمتر دکھاتی ہیں۔ یوں یہ ادب کے استعمال سے سامراجی آباد کاروں کو اعلیٰ و ارفع اور محکوموں کو کمتر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس افریقی ناول نگار Ngugi wa Thiong'o کا خیال ہے کہ ادب کو معاشرے کے طاقتور گروہوں کے خلاف مزاحمت کے آلہ کار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ایک سوال جو اکثر پوچھا جاتا ہے کہ بہترین ادب کون سا ہے؟ عموماً مشاہدے میں یہی آتا ہے کہ مرکز میں بیٹھے سب سے زیادہ طاقتور لوگ ہی ادب کے تخلیق کار یا منبع ہوتے ہیں اور توقع بھی یہی کی جاتی ہے کہ مضافات کا ادب بھی مرکز کے ادب کا پیرو ہو گا لیکن اس مرکزی سوچ کو بعد از نو آبادیات لکھاریوں نے مؤثر انداز میں چیلنج کیا ہے اور ان کا پختہ یقین ہے کہ مقامی ادب بھی اسی قدر معروف اور مشہور ہونا چاہیے جتنا کہ مرکزی ادب۔ کسی بھی تحریر میں پلاٹ‘ کرداروں‘ منظر اور لغت کے علاوہ جو چیز اہم سمجھتی جاتی ہے وہ اس کا متن ہے۔ یہ پیغام غیرمبہم اور بلا واسطہ انداز میں قارئین تک پہنچتا ہے اور قارئین اس کو محسوس بھی کرتے ہیں۔
ادب خام پروپیگنڈا سے یکسر مختلف ہے اور ترغیبی و تجویزی انداز میں شبہات و استعارات کا سہارا لیتا ہے۔ ادب کی یہ خاصیت طلبہ میں دوسرں کیلئے تحمل‘ برداشت‘ توجہ‘ احساس اور ہمدردی جیسے جذبات کو ابھارتی ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے پروگراموں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ سائنسی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرتی علوم اور ادبیات پرتوجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مضامین شاید زیادہ منافع کی ضمانت تو نہ دے سکیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تدریس سے ایسے طلبہ ضرور پیدا ہوں گے جو معاشرے کے کچھ ممنوعات (Taboos) کو چیلنج کر سکیں گے۔ تدریسِ ادب ایسے نوجوان پیدا کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے جن میں مختلف نظریات و عقائد کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہو گی اور یہ نوجوان انتخابِ خیال‘ اظہارِ خیال اور آزادیٔ فکرکے داعی ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved