تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-09-2025

ظلم کی مذمت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ظلم سے نفرت انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی سلیم الطبع انسان کسی بھی مقام پر ہونے والے ظلم کو کبھی بھی گوارا نہیں کر سکتا اور اسکی تمام تر ہمدردیاں ظلم کا نشانہ بننے والے مظلوم کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ظلم کی مذمت‘ مظلوم کی حمایت اور اسکے ساتھ ہمدردی کرنے کے حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 148 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو‘ اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مظلوم شخص کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اعلانیہ آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی شریف میں بھی ظلم کی بڑی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ظلم سے بچو‘ قیامت کے دن ظلم اندھیرے (اور تاریکی کی صورت میں) ہوں گے۔
جو لوگ دوسروں کے مال اور جائیداد کو ظلم کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں‘ احادیث طیبہ میں اس امر کی بڑی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعیدؓ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریمﷺ سے سنا کہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے ہتھیا لی‘ اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔
کئی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مالدار لوگ دوسروں کے واجبات اور قرضوں کو اتارنے میں تساہل اور سستی سے کام لیتے ہیں‘ اس کو بھی احادیث طیبہ میں ظلم قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
بعض لوگ اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو ہدیہ دینے میں ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسری اولادکی حق تلفی ہوتی ہے۔ اس کو بھی نبی کریمﷺ نے ظلم قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت نعمانؓ بن بشیر سے روایت ہے کہ میری والدہ نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی سے بھی ان کی اولاد تھی) پھر وہ راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کر دی۔ لیکن میری والدہ نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریمﷺ کو اس معاملے میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں اس وقت نوعمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ (نعمانؓ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ) آنحضرتﷺ نے اس پر فرمایا ''تُو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا‘‘۔ (اور ابوحریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ) آپﷺ نے فرمایا ''میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا‘‘۔
دنیا میں کئی مرتبہ انسان دوسروں کی حق تلفی کر کے یہ سمجھتا ہے کہ شاید وہ کامیاب ہو گیا ہے جبکہ اس کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں کسی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنا آخرت کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ آخرت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہو گی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے اس پر ظلم کیا ہو) تو اسے آج ہی‘ اُس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے نہ درہم‘ بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا۔ اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
اگرکوئی شخص کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان پر ظلم کرتا ہوا دیکھے تو اسے اس ظلم سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ظلم سے روکنا ہی درحقیقت اس شخص کی اصلاح کا سبب‘ اس کی مدد اور اس کو اخلاقی طور پر درست راستے پہ چلانے کا ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو‘ خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔
جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر ظلم ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے بھائی کو ظلم سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ''ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا‘ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا‘‘۔
ہم عام طور پر معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے مسلمان بھائی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اس کی حمایت کرنے کے بجائے ظالم کے اثر ورسوخ کو دیکھ کر اس کی حمایت میں چل نکلتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر مسلمان مظلوم ہیں۔ فلسطین‘ مقبوضہ کشمیر اور میانمار کے مسلمان ایک عرصہ سے ابتلائوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ان کی حمایت پر اس انداز سے آمادہ وتیار نہیں ہوتے جس انداز سے ہمیں ایک دینی فریضے کے طور پر ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ ہماری یہ اخلاقی و دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر ممکن حد تک گھریلو‘خاندانی‘ معاشرتی‘ سماجی اور قومی سطح پر ہونے والے ہر سطح کے ظلم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حوالے سے بھی ہر طرح کے ظلم کی مذمت کریں۔
اسرائیلی مظالم ایک عرصے سے واضح ہیں لیکن امتِ مسلمہ کے رہنما ان مظالم کے مقابلے میں صحیح طور پر منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔ مظلوم کی حمایت کیلئے اپنے قلم کو چلانا‘ زبان کو ہلانا اور دیگر ذرائع کو استعمال کرنا ہر اعتبار سے کارِ خیر ہے۔ حالیہ ایام میں اسرائیلی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کیلئے بین الاقوامی صمود فلوٹیلا کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس فلوٹیلامیں 70 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی کشتیاں شامل ہیں۔ اس کا مقصد جہاں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہے وہیں اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کرنا بھی ہے۔ ہمیں جہاں اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے درد کو محسوس کرنا چاہیے وہیں اس ظلم کے خلاف بلند ہونے والی صدائے احتجاج کی بھی مکمل تائید کرنی چاہیے اور ظلم کے خلاف دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوشش کی جائے‘ اس کی تائید میں اپنی آواز کو شامل کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے کی توفیق دے‘ اس لیے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم بھی ہے اور نبی کریمﷺ کی اتباع کا تقاضا بھی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا بھر کے مظلوموں کی مدد فرمائے اور اُن کو ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved