او آئی سی سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں نو ستمبر کو دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی جنگ ختم کرنے اور قیدیوں کے تبادلے کے ثالث قطر کے کردار کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم قطر کے ساتھ اس جارحیت کے خلاف مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں جو تمام عرب اور اسلامی ریاستوں کے خلاف بھی جارحیت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ رکن ممالک قطر کے کسی بھی اقدام کی حمایت کریں گے جو وہ اس حملے کے جواب میں کر سکتا ہے۔ اعلامیے میں اسرائیلی آباد کاری کی توسیع‘ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی اور بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بھی شدید مذمت کی گئی اور ان اقدامات کو انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم قرار دیا گیا۔
کوئی شک نہیں کہ اعلامیہ اچھا ہے اور اس میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کے لیے واضح پیغام بھی پوشیدہ ہے لیکن شاید یہ اتنا زوردار نہیں ہے موجودہ حالات میں اس کے جتنا زوردار ہونے کی توقع تھی۔ شاید یہ اتنا زوردار نہیں ہے کہ اسرائیلی قیادت کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اس میں اسرائیل سے تعلقات قطع کرنے‘ تجارت منقطع کرنے اور اس کی جانب سے مزید کسی بھی نوعیت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے جیسے آپشنز کا ذکر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے‘ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر پیش کردہ قراردادوں کو اول تو امریکہ منظور نہیں ہونے دیتا‘ اگر کسی نہ کسی طریقے سے منظور ہو جائیں تو خود اسرائیل ان قراردادوں کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ پوری دنیا کی جانب سے مذمت کی گئی لیکن غزہ میں اسرائیلی بہیمیت ایک لمحے کے لیے نہیں رکی۔ پہلے اس نے غزہ کو پوری طرح تاخت و تاراج کیا‘ اتنا بارود برسایا کہ اب وہاں کوئی عمارت سلامت نہیں۔ پھر اس نے نہتے شہریوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ اب وہ غزہ کو بھوک کا شکار کر کے خود کو دنیا کا بدترین ملک ثابت کر رہا ہے۔ اسے نہ بلکتے بچے نظر آتے ہیں‘ نہ سسکتی انسانیت۔ اور اس کی ہر طرح سے حمایت کرنے والے اس سے بھی زیادہ پتھر دل اور خون خوار ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ان حامیوں کی دہری اور دوغلی پالیسیوں نے ہی حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے کہ اسرائیل اب کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے‘ خود حامیوں کی بھی نہیں۔ یہودیوں کی ہر طرح سے حمایت کرنے اور اسرائیل کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے انہیں یعنی ٹرمپ کو اعتماد میں لیے بغیر قطر پر حملہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا اور کہا ہے کہ امریکہ کی امداد پر پلنے والا ملک کس طرح امریکی صدر کے احکامات کی خلاف ورزی کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی سخت صورتحال اور ایسے کڑے حالات میں نرم اعلامیوں سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔
اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسرائیل آئندہ قطر پر حملہ نہیں کرے گا لیکن جس اسرائیل نے پہلے ٹرمپ سے پوچھے بغیر قطر پر حملہ کیا وہ اب کیونکر پوچھے گا؟ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے مشرق وسطیٰ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ گریٹر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے ہو رہا ہے‘ چاہے وہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہو یا امریکہ کی جانب سے ہر جائز و ناجائز معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرنا۔ آپ نے مجوزہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ ملاحظہ کیا ہے؟ نقشے میں گریٹر اسرائیل کو فلسطین کے علاوہ لبنان‘ شام‘ اردن (مکمل) اور مصر‘ عراق‘ کویت اور سعودی عرب کے بڑے حصوں پر مشتمل دکھایا گیا ہے۔ فلسطین اسرائیل کی جھولی میں پڑا ہے۔ لبنان اور شام پر قبضہ کرنا اسرائیل کیلئے اب چنداں مشکل نہیں۔ اردن پہلے ہی اس کا باجگزار بن چکا ہے۔ باقی ملکوں کے بڑے حصوں پر قبضے کے لیے اسے تھوڑی تگ و دو کرنا پڑے گی‘ حالات کو پیشِ نظر رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ محض خفیف سی کوشش۔ ہو سکتا ہے قطر پر حملہ اس نے یہی چیک کرنے کے لیے کیا ہو کہ اس کا کیا ردِ عمل آتا ہے۔ ایسے میں ردِ عمل تگڑا ہو تو ہی اگلے کو پتا چلتا ہے کہ اس نے سوچ سمجھ کر قدم آگے بڑھانے ہیں۔
گریٹر اسرائیل کا راستہ روکنا ہی مشرق وسطیٰ کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل ہی نہیں قابو میں آ رہا تو گریٹر اسرائیل کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل اور محال ہو گا اس کا اندازہ لگانے کے لیے ذہن پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ ہی نہیں پورے دنیا کے ڈائنامکس تبدیل ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی تمام بڑے ممالک کے ساتھ ٹیرف وار چل رہی ہے جن میں چین‘ کینیڈا‘ میکسیکو‘ یورپی یونین اور بھارت شامل ہے۔ روس اکیلا لڑ رہا ہے اور یوکرین کے پیچھے جیسا کہ سب جانتے ہیں پوری مغربی دنیا خصوصاً یورپی یونین اور نیٹو ممالک ہیں۔ یہ جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ اس جلتی پر پانی ڈالنے والے کم اور تیل ڈالنے والے زیادہ ہیں اور اس ساری کشمکش میں کباڑہ ہو رہا ہے یوکرین کا۔
دنیا یونی پولر سے ایک بار پھر بائی پولر گلوب کی طرف سرک رہی ہے۔ ایک پول امریکہ اور اس کے حامی ممالک کا ہے اور دوسرا پول چین اور اس سے وابستہ ممالک کا ہے جن میں روس بھی شامل ہے۔ یہ جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے حتیٰ کہ امریکہ نے چین کو شکست دینے کے لیے کواڈ کے عنوان سے ایک اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے میں بھی تناؤ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلاب آ چکا۔ ویسا ہی ایک انقلاب نیپال میں بھی آ گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت ابھی ابھی ایک خوفناک جنگ سے باہر نکلے ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن وہاں دہشت گردی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور دہشت گرد سرحد پار کر کے پاکستان میں بھی اپنے اہداف کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
ان سارے حالات کا تقاضا ہے کہ ایک تو ان تغیرات پر نظر رکھی جائے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے‘ دوسرے اپنی تیاری مکمل رکھی جانی چاہیے تاکہ کسی بھی نوعیت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ اسے تشویشناک ہی کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تیاری ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شہر کے برابر رقبے والے اسرائیل نے سب کو اپنے آگے لگا رکھا ہے۔ عرب ممالک کے پاس تیل کی دولت ہے۔ وہ اپنی اس دولت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں لیکن نہیں کر پا رہے۔ وہ اپنی تیل سے ہونے والی آمدنی کو اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن نہیں کر رہے۔ بارِ دگر عرض ہے کہ اگر اسرائیل نے پورے خطے کا جینا حرام کر رکھا ہے تو اندازہ لگائیں کہ گریٹر اسرائیل بن گیا تو پھر کیا ہو گا۔ اسی لیے تو کہا ہے کہ امتِ مسلمہ کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved