یہ 1979ء کا سال ہے۔ میں کنگ سعود یونیورسٹی کے ہاسٹل پہنچا ہوں۔ ہمارا سارا سامان باہر پڑا ہوا ہے۔ سوائے میرے ساتھ یونیورسٹی بس میں آنے والے طالب علموں کے‘ باقی سب کمرے خالی ہیں۔ میرے رہائشی بلاک کے مُشرِف (سپرنٹنڈنٹ) ایک مصری ٹیچر تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا یا ظہیر! شہر میں کوئی رہائش کا بندوبست ہے؟ میں اچانک یہ سوال سن کر حیران سا ہو گیا‘ لیکن جواب دیا: جی ہاں سر‘ رہائش کا بندوبست ہے۔ ٹیچر کہنے لگے: یونیورسٹی والی بس تو واپس جا چکی ہے۔ میری سیارہ ''کار‘‘ آپ کو مین روڈ تک چھوڑ سکتی ہے‘ لہٰذا یہاں سے فوراً نکل جاؤ۔ شہر پہنچ کر پتا چلا کہ حرمِ مکی میں کچھ بدخیال لوگ گھس گئے ہیں جن کا سرغنہ جوہمان العتیبی نامی قبائلی نوجوان تھا۔ تب بھی پاکستان کے کمانڈوز اور Yaroslav Trofimovکی کتاب The Siege of Mecca‘ پبلش شدہ (نیویارک‘ امریکہ) سال 2007ء کے مطابق فرانسیسی فوجی بھی کلیئرنس آپریشن کے لیے بلائے گئے تھے۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی حاجی صلاح الدین ایوبی تبوک میں تھے۔ میں نے اپنے ایک سعودی کلاس فیلو‘ جن کے چچا نجران کے گورنر تھے‘ کے ساتھ مدینہ شریف کا ہوائی سفر کیا۔ جہاں دربارِ رسولﷺ میں حاضری اور سلامِ عقیدت پیش کرنے کے بعد بذریعہ کار تبوک بھائی صاحب کے پاس چلا گیا۔
ذکرِ تبوک سے محسنِ انسانیت حضرت محمدکریمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا آخری غزوہ یاد آتا ہے۔ مغربی تاریخ دانوں نے لشکر اسلام کی تعداد 30 ہزار مجاہدین بتائی‘ جس میں 10 ہزار گھڑ سوار تھے جبکہ مشرقی رومن ایمپائر کی فوجوں اور ان کے مقامی اتحادی ٹرائبل الائنسز کی تعداد ریاست مدینہ کی افواج سے کہیں زیادہ تھی۔ مؤقر سمجھے جانے والے غیر مسلم تاریخ دانوں نے بھی ان مشکل حالات کی آؤٹ لائن تفصیل سے بیان کی ہے‘ جو تنگی اور عسرت کے باوجود لڑے جانے والے غزوۂ تبوک میں رسولِ خداﷺ کو درپیش تھے۔ نو ہجری میں پیش میں آنے والے اس غزوہ میں جہاں ایک طرف شرق و غرب کی کئی سو سال پرانی فوج اور ریاست کھڑی تھی‘ جس کے مدِمقابل دوسری طرف آپﷺ کی قیادت میں آخری غزوہ مسلمانوں کو درپیش تھا‘ جسے تنگ دستی کا لشکر کہا گیا ہے۔ اس غزوہ کے بڑے چیلنجز میں مشرقی رومن ایمپائر کی بڑی طاقت‘ بلادالشام اور عرب سمیت مختلف علاقوں کے بڑے قبائلی لیڈروں کی رومن ایمپائر کے ساتھ شرکت‘ ریاستِ مدینہ کے معاشی انٹرسٹ کا تحفظ‘ اس وقت شدید ترین ہیٹ ویو‘ حرب و ضرب کے ذرائع اور پانی کی بھر پور قلت‘ ٹرانسپورٹ کی فراہمی‘ لاجسٹک مشکلات‘ منافقین اور بھگوڑے شامل ہیں۔ انہیں مغربی تاریخ دانوں نے غزوۂ تبوک کے وقت کے بڑے چیلنجز میں شمار کیا۔ لیکن حضورِ محترمﷺ کی ذاتِ با برکات کا معجزہ ایسا تھا جس کی وجہ سے 'غزوۂ عسرہ‘ نے ریاستِ مدینہ کیلئے عظیم نتائج اور مواقع پیدا کر ڈالے‘ جن میں سے تین نتائج کو تاریخ یوں بیان کرتی ہے۔ غزوۂ تبوک کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے بڑے قبائلی سرداروں اور مختلف علاقائی امرا و سلاطین نے ہتھیار پھینک دیے۔ مدینے کی ریاست کی عملداری کو تسلیم کرتے ہوئے جزیہ کی رقم ادا کرنے پر بھی تیار ہو گئے‘ جس کے عوض اللہ کے پیارے نبیﷺ نے انہیں ریاستِ مدینہ کی حفاظت کا عہد عطا فرما دیا۔ دوسرے نمبر پر غزوۂ تبوک اس اعتبار سے ایک انتہائی کامیا ب جنگی مہم ثابت ہوئی کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد کریمﷺ کی بے مثال قیادت اور زبردست قوتِ فیصلہ کے مظاہرے نے پورے خطے میں اثر و رسوخ اور لازوال ہیبت پیدا کردی جس کے نتیجے میں مشرکین‘ سازشی عناصر اور بازنطینی سلطنت کے حامی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول خداﷺ کی فیصلہ سازی نے تاریخ ساز‘ عہد ساز اور سلطنت ساز اثرات پیدا کیے؛ چنانچہ عرب‘ فارس اور مغربی دنیا میں بھی ریاستِ مدینہ کا ڈنکا بجنا شروع ہو گیا۔
غزوۂ تبوک کی تاریخ نو رجب بتائی جاتی ہے‘ جو اسلامی ہجری کیلنڈر کا بھی نواں سال ہے۔ جبکہ عیسوی تاریخ میں غزوۂ تبوک کے لشکر کی روانگی مدینہ منورہ سے24اگست 630عیسوی درج ہے۔ یہ عظیم عسکری مہم اور فتوحات تقریباً 30دن تک مسلسل جاری رہیں۔ نبی آخر الزماںﷺ کی قیادت میں مرتب ہونے والی اس تاریخ نے طے کیا کہ ریاستیں صرف ڈنڈے کے زور پر نہیں چلتیں بلکہ بہترین فیصلہ سازی اور وقت کی نزاکت کے مطابق متحارب اور مخالف جنگی دشمنوں سے بھی مذاکرات اور جنگ کے میدانوں میں بھی مصالحت جاری رکھنا ریاست کی بقا کا واحد ذریعہ ہے۔ آج کی سفارتی زبان میں ریاستوں کے درمیان ان معاہدات کو Bilateral ایگریمنٹ‘ Pact یا ڈیل کہا جاتا ہے۔
گزرے بدھ کے روز پاکستان اور سعودیہ کے درمیان اہم دو طرفہ معاہدے کی صورت میں ڈیفنس ڈیل ہوئی۔ اس معاہدے کی تخلیق کا بڑا باعث اسرائیل کی جانب سے توسیع پسندانہ جارحیت بنی۔ آج کے دن تک اسرائیل نے انتہائی بے شرمی اور دیدہ دلیری سے چھ عرب ملکوں پر بمباری کی ہے جن میں فلسطین‘ لبنان‘ شام‘ یمن‘ تیونس اور ایران شامل ہیں۔ جدید تاریخ کی یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ماسوائے ایران‘ یمن اور لبنان کے کسی جگہ سے بھی اسرائیلی جارحیت کا جنگی جواب نہیں ملا۔ عرب دنیا کی اس اجتماعی کمزور ی کے نتیجے میں صرف ایران کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر ''میچنگ رِسپانس‘‘ آیا۔ اسرائیلی جارحیت کا حوصلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عین اس دن‘ جب عرب اور مسلم ممالک تازہ اسرائیلی جارحیت کا تازہ شکار ہونے والے ملک قطر میں جمع تھے‘ نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ مجھے کسی کی پروا نہیں‘ جب چاہوں گا پھر حملہ کر دوں گا۔ قطر کے اجتماع کا نتیجہ روٹین والا مایوس کن اعلامیہ تھا۔ ایسا اعلامیہ جو اسرائیل کے سرپرست مغربی دنیا کے ممالک میں مذاق‘ طنز اور ٹھٹھے سے کم نہیں۔ جس کا تاریخی واقعہ 1982ء میں سامنے آیا۔ جب برطانیہ کی پرائم منسٹر مارگریٹ تھیچر کو یہ پریشان کن اطلاع دی گئی کہ ارجنٹائن کی فوجی حکومت نے برٹش کنٹرول والے جزیرے فاک آئی لینڈ پر حملہ کردیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے فوراً ان لفظوں میں بیان دیا We will go to war at once۔ عسکری قیادت بھاگتی ہوئی 10ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچی۔ وزیراعظم تھیچر سے درخواست کی کہ ہمیں پہلے یو این سکیورٹی کونسل میں ارجنٹینا کے خلاف تحریری شکایت داخل کرنی چاہیے۔ جواب میں مارگریٹ تھیچر نے حکم دیا: وار کونسل کا اجلاس فوراً بلاؤ۔ میں کوئی عرب لیڈر نہیں Who begs for his country's rights۔
تازہ معاہدے کے کچھ حوالے پاکستان کے لیے بڑے ضروری ہیں۔ پہلا‘ اسرائیل کی اصل جنگ غزہ اور فلسطین سے ہے۔ اس مظلوم فریق کو معاہدے میں شامل کریں۔ دوسرا‘ یہ معاہدہ ہمیں ایک بڑی جنگ کا فریق بھی بناتا ہے۔ ہم پر مغربی بارڈر اور مشرقی بارڈر سے مس ایڈونچر ہوا تو کیا کوئی دوسرا ملک ہمارے لیے بھی لڑائی میں شریک ہو گا؟ تیسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ کیا مشرق وسطی کی جنگ میں شمولیت پر قوم کو اعتماد میں لے کر ملک کے اندر اعتماد سازی کے اقدامات ہوں گے؟ معاہدہ مبارک۔ مگر اس میں عوام کے لیے کیا ہو گا؟ ہمارے قرض کا کیا ہوگا؟ ایک جواب مصطفی زیدی صاحب کے شاہکار ''فسادِ ذات‘‘ سے بھی ملتا ہے۔
تمہارا عہد اگر استوار ہی ہوتا
تو پھر بھی دامنِ دل تار تار ہی ہوتا
فسادِ خلق بھی خود اور فسادِ ذات بھی خود
سفر کا وقت بھی خود جنگلوں کی رات بھی خود
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved