تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-09-2025

یہ کون سا گھاٹے کا سودا ہے ؟

چند روز قبل ہونیوالی بحث اور گزشتہ کالم کے شائع ہونے اور اسے پڑھنے کے باوجود شوکت اپنے مؤقف بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں اپنے سوال سے دستبردار ہونے کیلئے قطعاً تیار نہیں ہے۔ کل ملاقات ہوئی تو وہ پھر یہی سوال پوچھنے لگ گیا کہ اتنی زیادہ تباہی اور بربادی کے باوجود ابھی تک چند ملین ڈالر وغیرہ کے اعلان کے علاوہ حالیہ سیلاب سے ہونیوالی بے پناہ تباہی کے حساب سے عالمی اداروں اور دوست ممالک سے امداد کی وہ صورتحال دکھائی نہیں دے رہی جو ماضی میں ہوتی تھی اور اب بھی ہونی چاہیے تھی۔ ہمارے مربی اور محبی برادر عرب ممالک اس بار بالکل ہی ''مچل‘‘ مار کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بالکل بیکار اور کام نہ آنے والے میزائلوں پر‘ وقت پر نہ اڑنے والے جہازوں پر اور فضائی حملے کی صورت میں نہ چلنے والے اپنے ایئر ڈیفنس سسٹم پر اربوں ڈالر لگا سکتے ہیں تو تھوڑی نظرِ کرم ادھر بھی کر دیں تو کیا حرج ہے؟ آخر انہوں نے امریکہ میں بھی تو چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری بھی تو ایک لحاظ سے ڈوبی ہوئی رقم ہی ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: بھلا سرمایہ کاری ڈوبی ہوئی رقم کیسے ہو سکتی ہے؟ شوکت ہنسا اور کہنے لگا: تمہیں امریکہ کی تاریخ سے دلچسپی تو ہے مگر شاید اس کی تاریخ یاد نہیں ہے۔ امریکہ میں کی جانے والی ساری سرمایہ کاری صرف اس وقت تک سرمایہ کاری ہے جب تک امریکہ بہادر آپ سے خوش ہے۔ آپ کی سرمایہ کاری امریکہ کی خوشی اور خوشنودی سے مشروط ہے۔ جیسے ہی کسی بات پر امریکہ آپ سے ناراض ہو تو وہ آپ پر یکطرفہ پابندیاں لگا دیتا ہے۔ امریکی پابندیاں اس قدر تگڑی اور سخت ہیں کہ اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیاں اس کے سامنے عشر عشیر کا درجہ بھی نہیں رکھتیں۔ آپ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو‘ عالمی عدالت انصاف کی سزائوں کو اور عالمی جوہری کنٹرول ایجنسی جیسے اداروں کی پابندیوں کو تو جوتے کی نوک پر رکھ سکتے ہیں مگر امریکہ بہادر کی پابندیوں سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے۔ جیسے ہی آپ پر امریکی پابندیاں لگتی ہیں آپ کی امریکہ میں ساری سرمایہ کاری‘ سارا جمع شدہ سرمایہ اور بینکوں میں پڑی ہوئی تمام رقوم بحق سرکارِ امریکہ ضبط ہو جاتی ہیں۔ لو کر لو سرمایہ کاری۔ امریکہ میں کسی بھی دوسرے ملک کی سرمایہ کاری ایک ایسا رِسک ہے جو صرف امریکی فرمانبرداری اور چاپلوسی سے مشروط ہے۔ وگرنہ اس کے محفوظ ہونے کی نہ کوئی گارنٹی ہے اور نہ ہی کوئی یقین ہے۔ اگر آپ اس قسم کی رِسکی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں تو سیلاب زدگان کی امداد کیوں نہیں کر سکتے؟
میں نے کہا: برادرم! امریکہ انکا آقا ہے اور ہم انکے کاسہ لیس۔ دونوں کے درجے اور مرتبے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امریکہ میں سرمایہ کاری انہوں نے شاید خوشی سے کی بھی نہیں ہو گی۔ وہ تو صدر ٹرمپ نے زبردستی سے کروائی ہے۔ ایسے میں انکار کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ بھلا ہمارے سیلاب کا امریکی صدر کی حکم نما خواہش یا خواہش نما حکم سے کیا موازنہ یا مقابلہ ہو سکتا ہے؟ بندے کو اپنی اوقات دیکھ کر بات کرنی چاہیے اور حیثیت دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں۔ شوکت ہنسا اور کہنے لگا: سچ تو یہ ہے کہ ہم میرٹ کے حوالے سے کسی خاندانی میر عالم کے درجے پر بھی فائز نہیں ہو سکتے۔ مولا خوش رکھے! کوئی زمانہ تھا ہمارے گاؤں دیہات میں میراثی ہوا کرتے تھے جن کی جگت میں پنہاں حکمت‘ دانائی اور مزاحمت کا ایسا دبستان تھا جو اب ماضی کی یاد ہے۔ میراثی کسی بھی بات پر کسی بھی وقت گاؤں کے چودھری کو ہنسی مذاق کی آڑ میں جگتیں مار لیتا تھا۔ بسا اوقات وہ جوتے کھانے کے باوجود جگت مارنے سے باز نہیں آتا تھا۔ جگت مارنے کا استحقاق اس نے اپنی ثابت قدمی‘ ہمت اور حق گوئی کے زور پر حاصل کیا ہوا تھا جبکہ ہم تو جگت مارنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔
میں نے کہا: ہم خود کچھ کرنے کے بجائے ہر سیلاب‘ ہر زلزلے اور ہر آفت پر عالمی اداروں کی امداد اور دوست ممالک کی نظرِ کرم کے منتظر رہتے ہیں اور ہماری ساری امیدیں اس امداد سے وابستہ ہوتی ہیں جس کی بیشتر رقم اور امدادی سامان غتربود ہو جاتا ہے۔ اس ملک کے سرمایہ دار‘ کاروباری حضرات‘ فنکار‘ کھلاڑی‘ گلوکار اور سیاستدان‘ سب کے سب بیانات کی حد تک تو دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی کو عملی طور پر جیب سے ٹکا خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ تم بتائو کہ اس سیلاب میں یا گزشتہ کسی آفت کے دوران کسی ارب پتی کاروباری نے‘ کسی کھرب پتی صنعتکار نے‘ کئی لاکھ فی کنسرٹ معاوضہ لینے والے کسی گلوکار نے‘ کروڑوں روپے کمانے والے کسی کھلاڑی نے پلے سے دو پیسے خرچ کیے ہوں؟ اللہ اسے اجر عطا کرے‘ صرف ایک خاتون حدیقہ کیانی ہے جو عملی طور پر اور نہایت خاموشی سے بھلائی اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہے۔ میرا مالک اسے ہمت اور لمبی زندگی بخشے‘ یہ توفیق کی بات ہے۔ وہ پیسے اور کمائی کے حساب سے اُس گلوکار کی دھول کو بھی نہیں پہنچتی جس کی پیرو مرشد سے دم کرائے ہوئے ''پانی کی بوتل‘‘ اُدھر ادھر ہو جائے تو نوکر کو جوتے مار مار کر اسکا سر پلپلا کر دیتا ہے۔ اور ایک اس پر ہی کیا موقوف‘ اس ملک کے درجنوں فنکار ہیں جو ملک کے اندر اور باہر کنسرٹ کرکے سال میں کروڑوں روپے کماتے ہیں مگر عالم یہ ہے کہ پلے سے خرچ کرنا تو رہا ایک طرف اگر وہ آفت زدگان کیلئے کسی امدادی کنسرٹ میں حصہ لیں تو اس کیلئے بھی اپنے طے شدہ مارکیٹ ریٹ میں کسی قسم رعایت یا کمی نہیں کرتے۔ اب کس کس کا نام لوں؟ کسی نے یہ نام چھاپنے بھی نہیں مگر پاکستان کے پہلے دس امیر ترین افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھ لو‘ کسی نے دھیلے کی رقم اپنی جیب سے عطیہ نہیں کی ہو گی۔ اس ملک کے طفیل ایسا ایسا سڑک چھاپ نوٹ چھاپ کر ارب پتی بنا ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔
سیلاب صرف ہمارے ہاں ہی نہیں آیا ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اتنا ہی بدترین سیلاب آیا ہے اور ایسی ہی تباہی آئی ہے۔ لیکن وہاں کا معاملہ دیکھیں تو درجنوں فنکار‘ گلوکار‘ سرمایہ دار اور صنعتکار اس سلسلے میں امدادی کاموں میں پلّے سے خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارتی اداکار اکشے کمار نے پانچ کروڑ روپے (بھارتی‘ جو پاکستانی روپوں کے حساب سے سولہ کروڑ سے زیادہ بنتے ہیں)‘ کرکٹ فرنچائز ٹیم پنجاب کنگز نے دو کروڑ روپے‘ گلوکار گرداس مان نے پانچ لاکھ نقد اور دیگر ضروریات سمیت 30لاکھ روپے کے برابر‘ سلمان خان نے پانچ ریلیف کشتیاں‘ سب سے بڑھ کر پنجابی گلوکار دلجیت دوسانج نے دس سے زیادہ متاثرہ گائوں دوبارہ آباد اور بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایمی ورک نے 200گھر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے علاوہ ہربھجن سنگھ اور گلوکار سونو سود نے بھی ریلیف اور بحالی کیلئے کشتیاں اور ایمبولینسیں فراہم کی ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے بھارت کیلئے ہمسایہ جیسا شیریں لفظ لکھتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ یہ لفظ سوچتے ہی ذہن ان ہمسایوں کی طرف چلا جاتا ہے جن سے متعلق کہاوت تھی کہ ''ہمسائے ماں جائے‘‘ یعنی ایسے ہمسائے کہ لگے ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کیلئے اُردو میں اور کوئی مناسب متبادل بھی موجود نہیں اسلئے مجبوری ہے۔ تاہم ہمسائے کی کمینگیاں ایک طرف اور وہاں کے فنکاروں کا جذبہ ایک طرف۔ سرحد کے اُس پار جہاں ہمارے لیے سوائے دشمنی اور نفرت کے اور کچھ بھی نہیں‘ وہاں صاحبِ حیثیت اپنے مصیبت زدگان ہم وطنوں کی بحالی اور ریلیف کیلئے غیر ملکی امداد کی امید لگانے کے بجائے از خود کچھ کر رہے ہیں۔ میرا سوال تو اتنا سا ہے کہ دنیا کے مال وزر اور عیش وآرام میں ڈوبے ہمارے ارب پتی صنعتکار‘ کاروباری حضرات‘ کروڑ پتی فنکار‘ گلوکار اور دوسرے اصحاب اپنی جیب سے بھلائی پر خرچ کرنا کب شروع کریں گے؟ انہوں نے کون سا پلّے سے دینا ہے؟ مخلوقِ خداسے کمائے ہوئے پیسے کا ہی معمولی سا حصہ مخلوقِ خدا پر واپس خرچ کرنا ہے۔ یہ کون سا گھاٹے کا سودا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved