تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     20-09-2025

پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ

بدھ کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک تاریخ ساز معاہدہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم محمد شہباز شریف کے مابین طے پایا ۔ مشترکہ دفاع کے اس معاہدے کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائیگا اور دونوں مل کر حملہ آور کو منہ توڑ جواب دیں گے۔میں اپنی ذاتی معلومات اور مشاہدے کی بنا پر عرض کروں گا کہ سعودی عرب قیامِ پاکستان کے روزِ اوّل سے پاکستان کو اپنا قریب ترین‘ مخلص ترین اور معتمد ترین بھائی اور دوست سمجھتا ہے۔ میں نے سعودی عرب میں اپنے طویل قیام کے دوران سعودی حکمرانوں اور دانشوروں سے خود سنا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں پاکستان سعودی عرب کے دفاع کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو مستعد ہوتا ہے۔
قارئین کرام کو یاد کرا دوں کہ جب سعودی عرب کے 500 باغیوں نے نومبر 1979ء میں مسجد الحرام میں داخل ہو کر خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا‘ حرم مکی میں ہزاروں نمازیوں اور طواف و سعی کرنے والوں کو محصور کر دیا اور مسجد الحرام کا سارا نظام خود سنبھال لیا‘ سعودی فوج نے قبضہ واگزار کرانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اسے کامیابی نہ ملی توپاکستان سے مدد طلب کی گئی۔ پاکستان نے بلاتاخیر اپنے کمانڈوز مکۃ المکرمہ روانہ کر دیے۔ جنہوں نے جلد ہی یہ قبضہ واگزار کروا لیا۔ 60 باغیوں کو اُنکے سرغنہ جہیمان العتیبی سمیت زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاکستانی فوج سعودی عرب کے فوجیوں کی ٹریننگ اور احتیاطی دفاع کیلئے وہاں موجود رہی۔
روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں خلیجی ریاستوں کا دفاع امریکہ کرے گا۔ یہی کچھ سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب سمیت تمام خلیجی ریاستوں کو امریکہ نے باور کرا رکھا تھا کہ اسرائیل یا کسی اور طرف سے ہونے والی کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکہ ان کا دفاع کرے گا۔ بظاہر اسی مقصد کی خاطر بہت سے عرب ممالک میں امریکہ نے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ بالخصوص قطر میں سب سے بڑا امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔ امریکہ نے ان ''دفاعی خدمات‘‘ کے عوض سعودی عرب اور قطر وغیرہ سے ہتھیاروں کی فروخت اور امریکہ میں بھاری سرمایہ کاری کے نام پر بار بار اربوں ڈالر حاصل کیے۔ ان تمام تر دفاعی ضمانتوں کے باوجود حماس کی مذاکراتی ٹیم کو شہید کرنے کیلئے اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر جہازوں سے بمباری کی۔ معجزاتی طور پر حماس کے سینئر رہنما تو محفوظ رہے مگر ان کے بیٹے سمیت چھ افراد شہید ہو گئے۔ اس پر قطر نے شدید احتجاج کیا مگر امریکہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں نہ تو مذمت کی گئی اور نہ ہی قطر کو واضح انداز میں آئندہ اس طرح کی اسرائیلی جارحیت سے مکمل بچاؤ کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس کے برعکس اس وحشیانہ اسرائیلی حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یروشلم کی دیوارِ گریہ پر نیتن یاہو کی خدمت میں حاضر ہو کر یقین دہانی کرائی کہ ہماری اور تمہاری دوستی اس دیوار کے پتھروں سے بھی مضبوط تر ہے۔اس ساری کارروائی سے البتہ خلیجی ممالک کو یہ واضح پیغام ملا کہ صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے ایک کے بعد ایک عرب ملک کو نشانہ بناتی جائے گی اور ان کا دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ امیرِ قطر نے ان حملوں کے بعد عرب اور مسلم ممالک کی مشترکہ کانفرنس بلائی جس میں پاکستان نے واشگاف انداز میں کہا کہ ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔ تمام مسلم ممالک کی مشترکہ دفاعی ٹاسک فورس ہونی چاہیے جس کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کانفرنس میں مذمتی قرار دادوں کے علاوہ کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ نہ تو اسرائیل کا سفارتی‘ سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کیا گیا اور نہ ہی اسے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے بارے میں کوئی الٹی میٹم دیا گیا۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمران وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان ایک عملی آدمی ہیں۔ وہ الفاظ سے زیادہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ کافی عرصے سے اسرائیلی رویے کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ چکے کہ اب انہیں اپنے برادر ملک پاکستان کے ساتھ ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کر لینا چاہیے تاکہ اسرائیل کو یہ پیغام ملے گا کہ اب سعودی عرب پر حملہ ایٹمی پاکستان اور سارے عالمِ اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بہت سے دوسرے پہلو بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مشترکہ دفاع کے نتیجے میں مشترکہ صنعت و حرفت بھی ہو گی‘ مشترکہ تجارت بھی ہو گی اور حربی اور سائنسی شعبے میں مشترکہ تحقیق بھی ہو گی۔ اب تک غیر اعلانیہ طور پر پاکستان سعودی عرب کے دفاع کو اپنی اسلامی و قلبی ذمہ داری سمجھتا رہا۔ اب سعودی عرب نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان پر کسی طرف سے حملہ سعودی عرب پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے یہ معاہدہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر بجلی بن کے گرا ہے۔ اب بھارت کو پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑے گا۔ اس معاہدے سے پورے خلیج میں پاکستان کا سیاسی و تزویراتی قد کاٹھ بہت بڑھا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو اس وقت بھی اسلامی دنیا میں پاکستان کا امیج بہت اجاگر ہوا۔
یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ خلیج کونسل کے چھ ممالک بھی پاک سعودیہ مشترکہ دفاعی پروگرام میں شامل ہو جائیں گے۔ ہم نے تین چار ہفتے قبل اس طرح کے دفاعی معاہدے کی پیش گوئی کی تھی۔ اب پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان ان دفاعی معاہدوں کے بعد مشترکہ صنعت و تجارت کیلئے بہت بڑی سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کو بیرونی ممالک سے امداد اور سرمایہ کاری ملتی رہی ہے مگر ہماری پرفارمنس عزت افزائی کا نہیں شرمندگی کا باعث بنتی رہی ہے۔ ہمیں اب ہر سرمایہ کاری کو بہترین منصوبہ بندی سے خرچ کرکے بہترین نتائج حاصل کر کے دکھانا ہوں گے۔ ایک اور نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ امریکہ کو اب سوچنا ہو گا کہ محض ایک غاصب اور جارح ملک کی پشت پناہی کرکے وہ اپنے روایتی عرب حلیفوں سے محروم ہو جائے گا۔ کل اگر امریکہ 1970ء کی دہائی میں براستہ پاکستان چین سے سفارتی تعلقات قائم کر سکتا تھا تو آج عرب ممالک بھی براستہ پاکستان چین سے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں۔ یوں عرب امریکی کیمپ سے نکل کر چینی الائنس کا حصہ بن سکتے ہیں۔اس معاہدے میں کئی لطیف اور باریک نکتے بھی ہوں گے۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ خدانخواستہ سعودی عرب یا پاکستان کے کسی برادر مسلم ملک کیساتھ کسی تصادم کی صورت میں کیا ہو گا۔ ہماری رائے میں معاہدے میں یہ شق ہونی چاہیے کہ ایسی صورت میں تصادم سے گریز کیا جائے گا اور برادر مسلم ملک کیساتھ تنازع افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا۔علامہ اقبالؒ نے عربوں کے حسن طبیعت کا تذکرہ کیا تھا۔ اسی حسن طبیعت کی بنا پر عرب بہت مہمان نواز ہیں۔ بالخصوص کسی اہم موقع پر کوئی معزز مہمان آتا ہے تو وہ اسکی بہت پذیرائی کرتے ہیں۔ اسی روایت کے مطابق 17 ستمبر کو شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستانی وزیراعظم محمد شہباز شریف کا والہانہ استقبال کیا۔ 1980ء کے اوائل میں ایک موقع پر صدر ضیا الحق سرکاری دورے پر سعودی عرب آئے تو ریاض ایئر پورٹ پر اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ خالد بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ فہد بن عبدالعزیز جنرل صاحب کے استقبال کیلئے بنفس نفیس تشریف لائے تھے۔
اگلے دو تین روز میں جنرل اسمبلی کا نیو یارک میں اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کو سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں کے ساتھ مل کر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے اور فوری جنگ بندی کیلئے مشترکہ طور پر بھرپور دباؤ ڈالنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved