عقیدہ ہرطرف چھاگیا۔۔۔۔۔دیواروں پر،کپڑوں کے بینروں پر، گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر، مسجدوں کے خارجی دروازوں پر،مکانوں پر، یہاں تک کے سیاسی جماعتوں کے ناموں پر بھی۔صرف ایک مقام ایسا ہے جہاں عقیدہ نظر نہیں آتا اور وہ دل ہے۔احمق شہزادہ نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا،درباری مسخرہ ہدف کے پاس آکر کھڑا ہوگیا:’’محفوظ ترین جگہ یہی ہے عالم پناہ !‘‘ مسلمانان پاکستان کو مبارک ہوکہ عقیدہ، ایمان، مذہب، دین ــــان کے دلوں سے اڑا ،منڈیر پر آبیٹھااوراب اس کبوتر کو سب پتھرمارہے ہیں،ہر کوئی یہی سمجھ رہا ہے کہ یہ پرندہ دوسرے کا ہے، اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں!ٖ اس کے باوجود اس ملک میں سب فرشتے ہیں،معصوم!خطا ان سے سرزد ہوہی نہیںسکتی، سارا کیا دھرا دوسروں کا ہے، سازش ۔۔۔سازش۔۔۔ سازش! اس باکمال شاعر نے جس کا شعر ہے ؎ کل شب دلِ بے رحم کو سینے سے نکالا یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا اقبال ساجد،اس نے ایک شعراس مفہوم کا کہا کہ میں بھوک بوتا ہوں، بھوک اگاتا ہوں ، بھوک کاٹتا ہوں اور بھوک ہی اوڑھتا ہوں۔ ہم اہل پاکستان سازش بوتے ہیں، سازش اگاتے ہیں، سازش کاٹتے ہیں اور سازش ہی اوڑھتے ہیں۔پوری دنیا اپنے سارے کام دھندے چھوڑ کر ہمارے خلاف سازشیں کررہی ہے۔ بحرالکاہل کے جزیرے فجی سے لے کر برازیل تک، ٹوکیو سے لے کر لاس اینجلس تک ، سائیبیریا کے برفستانوں سے لے کر قطب جنوبی کے پین گوئن پرندوں تک، ہر ذی روح ، ہر ذی نفس ہمارے خلاف سازش میں مصروف ہے۔ ہم خود تو غلطیوں سے اس حد تک پاک صاف ہیں کہ ملائکہ ہم پر رشک کرتے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ افراد ،اٹھارہ کروڑ عقیدے اور اٹھارہ کروڑہی مکاتب فکر۔ہر شخص کا پیر الگ ، ہر شخص کی فقہ الگ ، مسجد الگ، مدرسہ الگ یہاں تک کہ اخبار اپنے اپنے ، سیاسی جماعتیں اپنی اپنی! کیسی سیاسی جماعتیں؟ عقیدوں کی بنیاد پر بننے، پھلنے پھولنے والی ’’سیاسی‘‘ جماعتیں ! پورا ملک ، ہر شہر ، ہرقصبہ ، ہر گلی ، ہر محلہ مذہبی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گیا۔ ٹکراتے تو دوبرتن بھی ضرور ہیں، اٹھارہ کروڑ انسان اپنے عقیدے سینوں پر سجائے ، ہاتھوں پر اٹھائے ، سروں پر کفن کی طرح باندھے گلیوں بازاروں ،چوکوں، جلسہ گاہوں میں آگئے اور پھر توقع کی کہ جھگڑا نہ ہو، لڑائی نہ ہو، قتل و غارت نہ ہو۔۔۔ یہ تو دوپہر کے وقت ستارے گننے اور آدھی رات کو دھوپ میں بیٹھنے والی بات ہے! پہلے تو آپ نے مسجدیں ، امام بارگاہیں ، مدرسے ، دارالعلوم مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کردیے۔ اس طرح کہ ریاست کا کردار سارے کھیل میں صفر ہوگیا۔ پان کا کھوکھا کھولتے وقت سو محکموں سے پوچھنا پڑتا ہے، دوسو کی تعداد میں چھپنے والا اخبار یا رسالہ ڈیکلیریشن کے بغیر نہیں چھپ سکتا، لیکن سینکڑوں افراد کو صبح و شام، ہفتہ وار اکسانے ،اشتعال دلانے و الے امام یا خطیب کی تعیناتی یا منظوری میں کوئی محکمہ درمیان میں آتا ہے نہ ریاست کا کوئی شعبہ۔ مدرسوں کا نصاب، مدرسوں میں پڑھانے والوں کی تنخواہیں ، مدرسے چلانے والوں کا معیار زندگی۔۔۔۔۔کہیں بھی تو ریاست کا عمل دخل نہیں! یہ ریاستیں ہیں جو ریاست کے اندر قائم ہیں،مکمل خود مختار! پاکستان کی ریاست سے ان ریاستوں کا،ان مدرسوں ، مسجدوں کا کوئی تعلق نہیں، اور اب تو ان خود مختار ریاستوں کے پاس اپنے اپنے لشکر بھی ہیں! پھر آپ نے مذہبی سرگرمیوں کو عبادت گاہوں سے باہر آنے دیا۔ جلسے جلوس یوٹیوب پر دیکھیے۔ کیسا کیسا زہر بکھیرا جارہا ہے۔ کوئی اپنے پیروکاروں کو برقی جھٹکے لگارہا ہے، کوئی کلہاڑی اور کوئی ٹوکا لے کر سٹیج پر چیخ رہا ہے اور ہزاروں نہیں لاکھوں اس کے ایک اشارے پر مرنے مارنے کو تیار ہیں۔ کوئی کسی کی تضحیک کررہا ہے، کوئی کسی کو کافر قرار دے رہا ہے اور یہ سب کچھ عبادت گاہوں سے باہر ہورہا ہے۔۔۔۔۔ چوکوں ، گلیوں ، بازاروں ، پارکوں ، باغوں اور جلسہ گاہوں میں۔ اگر اس ملک نے سلامت رہنا ہے تو عبادت گاہوں سے لائوڈ سپیکروں کو نکالنا ہوگا؛ مسجدیں ، امام بارگاہیں ریاست کی تحویل میں دینا ہوںگی جیسے دوسرے مسلمان ملکوں میں ہے۔ مدرسوں کو ان ہاتھوں سے لینا ہوگا جو پوری دنیا سے خیرات پوٹلیوں میں باندھ کر لاتے ہیں اور طلبہ پر خرچ کرتے ہیں نہ اساتذہ پر(مدارس کے اساتذہ مظلوم ترین مخلوق ہیں جو مکمل طور پر مالکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔برائے نام تنخواہیں ، سالانہ ترقی ، پنشن ، علاج کی سہولیات کچھ بھی تو نہیں۔) رہی راولپنڈی کے سانحہ میں حکومت کی کارکردگی تو صورت حال مضحکہ خیز ہے۔ایسی مضحکہ خیز کہ پوری دنیا ہنسی اڑاتی پھرتی ہے۔وزیراعلیٰ کہتے ہیں سانحہ راولپنڈی کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کئی عشروں سے اس تیرہ بخت صوبے پر حکومت کررہے ہیں،کتنے مجرموں کو آپ نے کیفرکردار تک پہنچایا ہے؟ پھر کہتے ہیں فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ سے ملک کو کوئی نقصان پہنچا تو تاریخ علمائے کرام کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تو کیا فرقہ وارانہ منافرت کا سدباب کرنا علماء کا کام ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کے کیا فرائض ہیں؟پھر زمام اختیار بھی علماء کے سپرد کیجیے، جس کا کام اسی کو ساجھے، آپ درمیان سے ہٹیے ۔ صوبائی حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس ایک بات ہی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خبر کے مطابق وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر قانون سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جبکہ اسی روز کے اخبارات میں صوبائی وزیر قانون اعلان کررہے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی قومی یکجہتی کے خلاف گہری سازش ہے۔اگر ایسا ہے تو صوبائی حکومت سازش کے ذمہ دار افراد کا نام قوم کو بتانے سے کیوں گریز کررہی ہے؟ صوبائی وزیراعلیٰ کی صوبے کے معاملات سے دلچسپی اس قدر ’’شدید‘‘ ہے کہ وہ یاتو چین ، ترکی یا برطانیہ میں پائے جاتے ہیں یا وفاقی دارالحکومت میں اُن سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں جن کا ایک صوبائی وزیراعلیٰ سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ آٹھ دس روز پیشتر ایک ایسی خبر شائع ہوئی جس پر غور کیاجائے تو صوبے کے نظم و نسق کی حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں:’’وزیراعلیٰ نے گزشتہ شام پانچ بجے ضلع راولپنڈی کے تمام محکموں کے افسران کا ایک اہم اجلاس پنجاب ہائوس اسلام آباد میں طلب کیا لیکن جب تمام افسران وہاں پہنچے تو اچانک اجلاس ملتوی کردیاگیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کی چینی سفیر سے ملاقات اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے اجلاس ملتوی کردیاگیا‘‘۔(روزنامہ دنیا :6نومبر) صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے ضلعی افسروں کی نسبت غیر ملکی سفیر سے ملاقات زیادہ اہم ہے۔کیا دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کررہے کہ وفاق میں ان کی رشتہ داری نہیں؟ چند دن پہلے دو سالہ بچی کا گلا پتنگ کی ڈور سے کٹ گیا۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو قیامت برپا ہوجاتی لیکن لاہور کے کمشنر نے اس دلدوزاوردردناک سانحے پر جو بیان دیا وہ بچی کی موت سے غم زدہ پس ماندگان کے زخموں پر نمک تو چھڑک ہی گیا ،پوری قوم کا منہ بھی چڑا گیا۔فرماتے ہیں:’’ ایک کروڑ آبادی والے شہر میں پتنگ بازی سے ہونے والا یہ واقعہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پتنگ بازی پر عائد پابندی پر عمل کروانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں لیکن ہوا تیز ہو تو شہریوں کا دل چاہتا ہے کہ وہ پتنگ بازی کریں‘‘۔ کہیے ! کیسی رہی !! ہوئے ناں، حکومت اور حکومت کے عمال پس ماندگان کے غم میں برابر کے ’’شریک ‘‘؟صوبے کے حاکم اعلیٰ، شہر کے سب سے بڑے بیورو کریٹ کے اس بیان پر اسے عبرتناک سزا نہیں دے سکے تو کم از کم سنگدلی کا تمغہ تو عطا کردیں۔دوسرا تمغہ صوبائی وزیر قانون کے گلے میں اس وقت لٹکائیں جب وہ سانحہ راولپنڈی کی سازش کے ذمہ دار افراد کے نام قوم کو بتائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved