سنّتِ الٰہیہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام علیہم السلام کا تذکرہ تعظیم وتکریم‘ عزت ووقار اور اُن کے اوصافِ حمیدہ کے ساتھ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بیشک وہ ہمارے نزدیک چنیدہ اور پسندیدہ ہیں‘‘ (ص: 47)۔ نیز فرمایا: ''(منافقین) کہتے ہیں: اگر (اب) ہم مدینہ واپس گئے تو ضرور بڑی عزت والا بڑی ذلت والے کو وہاں سے نکال دے گا‘ حالانکہ (درحقیقت) عزت صرف اللہ‘ اس کے رسول اور ایمان والوں کے لیے ہے‘ لیکن منافقین (اس حقیقت کو) نہیں جانتے‘‘ (المنافقون: 8)۔
آج انسان ہل کر رہ جاتا ہے کہ ایک یوٹیوبر انسانِ کامل کیلئے ''چھوکرا ‘‘کا لفظ بولتا ہے (معاذ اللہ) اور اس کی تاویل وتوجیہ بھی پیش کرتا ہے۔ چھوکرا ہندی لفظ ہے اور ریختہ میں چھوکرا کے معانی ہیں: ''لڑکا‘ نوعمر‘ جس کی داڑھی مونچھ ابھی نہ نکلی ہو‘ غلام‘ چیلا‘ ہوٹل یا کارخانے وغیرہ میں کام کرنے والا لڑکا‘ زنانہ لباس پہن کر رقص کرنے والا لڑکا یا مرد‘ بس کا کنڈکنٹر‘ مسافروں سے کرایہ لینے والا‘ ڈرائیور کا مددگار اور گاڑی صاف کرنے والا لڑکا‘ بیٹا‘ پسر‘ کم فہم‘ نادان‘ ناتجربہ کار‘‘۔ رسول اللہﷺ نے جب نبوت کا دعویٰ فرمایا تو آپﷺ کی عمرِ مبارک چالیس سال تھی اور یہ پختہ عمر ہوتی ہے اور قرآنِ کریم یا احادیثِ مبارکہ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ کفارِ مکہ اور منافقینِ مدینہ نے آپﷺ کو اس طرح کے یا ہم معنی عربی لفظ سے پکارا ہو؛ البتہ ابراہیم علیہ السلام کو نمرودیوں نے ''فَتی‘‘ (نوجوان) کہا‘ (انبیاء: 60) اور''فُتُوَّۃ‘‘ کے معنی ہیں: ''سخاوت‘ مروت‘ کرم‘‘۔موصوف نے یہ بھی کہا: ''لوط علیہ السلام یا نوح علیہ السلام میری کامیابی کو دیکھ کر رشک کریں گے‘‘۔ گویا یہ اپنی دانست میں بعض انبیائے کرام سے افضل ہیں‘ کیونکہ رشک فضیلت کے سبب کیا جاتا ہے۔ یہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں: انبیائے کرام علیہم السلام کی امتوں کا ایمان سے محروم رہ جانا‘ انبیائے کرام کی ناکامی نہیں ہے‘ اُن امتوں کی بدنصیبی ہے۔ اس طرح کا اندازِ بیان تو وہ اختیار کر سکتا ہے جو اللہ کے نبی کو اپنا حریف سمجھتا ہو۔ العیاذ باللہ تعالیٰ! اگر بفرضِ مُحال پیروکاروں کی کثرتِ تعداد کو ''معیارِ حق‘‘ مان لیا جائے تو عہدِ حاضر میں ابلیس کے بہت پیروکار ملیں گے‘ اسکے بارے میں کیا کہیں گے۔
قرآنِ کریم نے آدابِ نبوت تعلیم فرمائے ہیں: جب رسول اللہﷺ کی مجلس بپا ہوتی اور آپﷺ کچھ ارشاد فرما رہے ہوتے اور صحابہ کو بات سمجھ میں نہ آتی تو وہ ادب کے ساتھ عرض کرتے: ''رَاعِنَا یَا رَسُولَ اللّٰہ‘‘ یارسول اللہﷺ! ہماری رعایت فرمائیے‘ یعنی مکرر ارشاد فرمائیے۔ اُس دور میں منافق بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے اور اس کلمے کو طول دے کر ''رَاعِیْنَا‘‘ کہتے اور اپنی مجلس میں اس پر فخر کرتے کہ ہم نے ان کی اہانت کر دی‘ کیونکہ ''رَاعِیْنَا‘‘ کے معنی ہیں: ''ہمارے چرواہے‘‘ یا کہتے: ہم نے ''رَعن‘‘ کے معنی میں بولا ہے اور اس کے معنی ''احمق‘‘ ہیں۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کے آداب کیلئے نیا ضابطہ مقرر فرمایا: ''اے ایمان والو! تم (نبی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے) ''رَاعِنا‘‘ مت کہا کرو‘ بلکہ یہ کہا کرو: اُنْظُرْنَا (ہم پر توجہ فرمائیے) اور اُن کے (ارشادات کو پہلے ہی) توجہ سے سنا کرو‘‘ (البقرہ: 104)۔ مقامِ غور ہے: ''رَاعِنَا‘‘ کے معنی بھی درست ہیں‘ شانِ رسالت کے مطابق ہیں اور صحابۂ کرام کی نیت بھی درست تھی‘ لیکن کوئی بدطینت شخص لفظی ہیر پھیر کر کے یا زبان کو لوچ دے کر اسے اہانت آمیز معنی میں استعمال کر سکتا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کی شان میں ایسے ذومعنی کلمات استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ نیز اسی کی بابت سورۃ النسآء میں فرمایا: ''بعض یہودی اللہ کے کلام کو اُس کے اصل مقامات سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ''ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور کہتے ہیں: سنیے! آپ کو سنایا نہ جائے‘‘ اور وہ اپنی زبانوں کو بَل دے کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے ''رَاعِنَا‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور آپ ہماری بات سنیے اور ہم پر نظرِ کرم فرمائیے تو یہ شعار اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا‘ لیکن اللہ نے اُن کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے‘ پس اُن میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے‘‘ (النسآء:46)۔
موصوف کہتے ہیں: '' اللہ کا تعارف کرانا نبی کا احسان نہیں ہے‘ بلکہ نبی کے ذریعے اپنا تعارف کرانا اللہ کا احسان ہے‘‘۔ اس کی بابت عرض ہے: انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرماکر اللہ تعالیٰ نے یقینا اپنے بندوں پر احسانِ عظیم فرمایا اور اس کا ذکر آل عمران: 164 میں موجود ہے اور اسی مضمون کو البقرہ: 129 اور الجمعہ: 2 میں بیان فرمایا‘ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے اور ادیانِ باطلہ سے بچانا ہے۔ بندوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی برکت سے ہی معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کا راستہ اختیار کیا ہے اور نارِ جہنم سے نجات حاصل کی ہے۔ کیا یہ انبیائے کرام علیہم السلام کا اپنی امتوں پر احسانِ عظیم نہیں ہے کہ وہ سر جو باطل معبودوں اور بتوں کے آگے جھکے ہوئے تھے‘ انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے کی سعادت سے نوازا۔ منصِب رسالت اور اس کے فرائض کا قرآنِ کریم میں جا بجا ذکر موجود ہے اور اس کے من جملہ مقاصد میں سے دینِ حق اسلام کو باطل ادیان پر غالب کرنا ہے‘ نیز آیاتِ الٰہی کی تلاوت‘ تزکیۂ نفوس اور تعلیمِ کتاب وحکمت ہے۔
''نفل‘‘ کے معنی ہیں: ''عطیہ دینا‘ زائد عطیہ دینا‘ مالِ غنیمت بانٹنا‘ واجبات اور ضروریات سے زائد کام‘ مالِ غنیمت‘ ہبہ‘ بخشش‘ زیادتی‘ بندے کا اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ عبادات سے اپنے ذوق کے تحت یا نبیﷺ کی اتباع میں زائد عبادت کرنا‘‘۔ وہی شخص نفل کے معنی ''فالتو‘‘ کرتا ہے۔ فالتو ہندی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ''جو مصرف میں نہ آئے ایسے ہی پڑا رہے‘ ضرورت سے زیادہ‘ جو کسی کام کا نہ ہو‘ جس سے کسی قسم کا کام نہ چلتا ہو‘ غیر ضروری‘ فاضل‘ بیکار‘ ردّی‘ نکما‘ پہاڑی لوگ‘ قلی‘ مزدور‘‘۔ ان سب معانی میں تحقیر اور بے وقعت ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں‘ جبکہ نفل بے وقعت چیز نہیں ہے‘ بلکہ بندے کا خوش دلی سے اللہ تعالیٰ کی مقررہ عبادت سے زائد عبادت بجا لانا ہے‘ جو بندے کی سعادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا سبب ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز کی جواب طلبی ہو گی‘ نبیﷺ فرماتے ہیں: ہمارا بزرگ وبرتر پروردگار فرشتوں سے کہتا ہے‘ حالانکہ وہ خود (اس حقیقت کو فرشتوں سے) بہتر جانتا ہے: میرے بندے کی (فرض) عبادت کو دیکھو‘ آیا یہ کامل ہے یا اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے‘ پس اگر وہ عبادت کامل ہے تو اُس کے لیے پورا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اگر اُس (فرض) میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو فرماتا ہے: ذرا دیکھو! میرے بندے کی کوئی نفلی عبادت ہے‘ پس اگر (اُس کے نامۂ اعمال میں) کوئی نفلی عبادت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے نفلوں میں سے اس کی فرض عبادت کی کمی کو پورا کر دو‘ پھر اسی طرح دیگر اعمال کا حساب ہوتا ہے‘‘ (ابودائود: 864)۔ استقبالِ رمضان کی بابت ایک طویل خطبے میں رسول اللہﷺ نے رمضانِ مبارک میں نفل عبادت کا اجر فرض کے برابر قرار دیا ہے۔ اس پر ''فالتو‘‘کی پھبتی کسنا بندے کی طرف سے بہت بڑی جسارت ہے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عُجب اور تکبر سے محفوظ فرمائے۔
اگرچہ ہر نبی غیرِ نبی سے‘ خواہ اُس کا مرتبہ دین میں کتنا ہی بڑا ہو‘ علی الاطلاق افضل ہے‘ تاہم انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان درجات میں باہم تفضیل وتفاضل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''یہ سب رسول‘ ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے‘ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کو ( سب پر) کئی درجے بلندی عطا فرمائی اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن معجزات عطا کیے اور ہم نے پاکیزہ روح جبرائیل کے ذریعے اُن کی مدد فرمائی‘‘ (البقرۃ: 253)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved