وہ تخیلاتی محل جس میں تیل کی دولت سے مالا مال عرب بادشاہتوں نے اپنے تحفظ کیلئے امریکہ پر تکیہ کیا ہوا تھا‘ دوحہ پر اسرائیلی حملے نے پاش پاش کر دیا۔ جو غزہ میں اسرائیلی بربریت نہ کر سکی اس ایک حملے نے راتوں رات سوچوں میں وہ تبدیلی کر ڈالی۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ بے وقوفی کی انتہا تھی کیونکہ اس سے اسرائیل کو حاصل کچھ نہ ہوا اور جیسے حالات بتا رہے ہیں اسرائیل کے بڑے حمایتی امریکہ کو اس حملے سے بہت نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ دہائیوں بعد عرب کے فرمانرواؤں کو احساس ہوا ہے کہ ان کے تحفظ کی امریکی ضمانت بے معنی ہو گئی ہے۔
دوحہ کانفرنس میں مالدار عرب ملکوں کا احساسِ عدم تحفظ نمایاں تھا۔ تقریریں ہوئیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا۔ سعودی عرب نے البتہ دیر نہیں لگائی اور پاکستان سے جو دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے اس کی بازگشت مشرقِ وسطیٰ اور دور دراز ممالک میں سنی جا رہی ہے۔ معاہدے کے الفاظ کے ذرا پیچھے جائیں تو سب سے اہم بات یہ بنتی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی نیوکلیئر چھتری حاصل کر لی ہے۔ مغربی دنیا چونکی ہے تو اس ایک بات پر۔ نیوکلیئر کا لفظ معاہدے میں کہیں استعمال نہیں ہوا لیکن جب معاہدے میں یہ کمٹمنٹ ہو کہ دونوں دستخطی ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ ہوا تو دوسرے پر بھی تصور کیا جائے گا‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ کسی خطرے یا حملے کی صورت میں دوسرے ملک کے تمام لوازمات اتحادی کو حاصل ہوں گے۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک اعلیٰ سعودی اہلکار سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثے بھی حملے کی صورت میں بروئے کار لائے جا سکیں گے؟ ان کا جواب تھا کہ معاہدہ تمام عسکری وسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ جس سے مطلب صاف واضح ہو جاتا ہے۔ اب تک تو سعودی عرب امریکی نیوکلیئر پروٹیکشن یا تحفظ پر انحصار کرتا تھا۔ یکایک دوحہ حملے کے بعد یہ زلزلہ نما تبدیلی آئی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے لیے ایک زیادہ قابلِ اعتماد نیوکلیئر تحفظ کا بندوبست کر لیا ہے۔ اور اگر سعودی عرب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکی تحفظاتی ضمانت کی حیثیت بے معنی ہو گئی ہے تو دوسری بادشاہتوں کو اسی نتیجے پر پہنچنے میں کتنی دیر لگ سکتی ہے؟
اسرائیل تو بے لگام ریاست ہو چکی ہے‘ جب تک اسے امریکی حمایت حاصل ہے‘ باقی دنیا کی تنقید کی اسے کوئی پروا نہیں لیکن اس سارے ماجرے میں اسرائیل نے مالدار عربوں کی نگاہوں میں امریکہ کو ننگا کر دیا ہے۔ جتنی صدر ٹرمپ کی چاپلوسی مالدار عرب ممالک کر سکتے تھے انہوں نے کی۔ حتیٰ کہ کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قطر نے تو صدر ٹرمپ کے ذاتی استعمال کے لیے ایک مہنگا ترین طیارہ بھی تحفے کے طور پر دیا۔ لیکن اسرائیل جب جارحیت کی راہ پر چلا تو یہ ساری چاپلوسی عرب بھائیوں کے کسی کام نہ آئی۔ قطر نے تو امریکہ کو العدید عسکری ٹھکانہ دیا ہوا ہے جو عرب دنیا میں سب سے بڑا ملٹری بیس ہے۔ وہ بھی اس کے کوئی کام نہ آیا۔
یہ مالدار ممالک نہ سو چتے ہوں گے کہ اتنا اسلحہ ہم نے امریکہ سے خریدا‘ جدید ترین ٹیکنالوجی‘ ایسے ایسے سسٹم جو عربوں کے کسی کام کے نہیں۔ قطر نے بوئنگ کمپنی کو ہوائی جہازوں کیلئے ایک لمبا ٹھیکہ دیا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر میں اربوں ڈالروں کی سرماریہ کاری کے وعدے وعید ہوئے۔ لیکن امریکہ سے یہ سارا اتحادی بندوبست دوحہ پر اسرائیلی بمباروں کے حملے کو نہ روک سکا۔ یہ حالات کا پس منظر ہے جس میں سعودی عرب نے ایک قسم کا یہ انقلابی فیصلہ کیا ہے کہ نیوکلیئر ڈھال حاصل کرنی ہے تو کسی قابلِ اعتماد ذریعے سے حاصل کی جائے۔ امریکہ پریشان ہو گا‘ خبریں بتاتی ہیں کہ معاہدے کی اطلاع امریکہ کو پہلے سے نہ تھی۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد زَلمے خلیل زاد کی ٹویٹ سامنے آئی ہے جس میں تشویش کا اظہار خاصا واضح ہے۔ کہاں امریکہ مالدار عرب ملکوں کا واحد مائی باپ تھا اور کہاں یہ دن کہ پاکستان عربوں کو تحفظ دینے والا بن گیا ہے۔ امریکی دانت تو پیس رہے ہوں گے۔
ہمارے امیر عرب بھائیوں کو پہلے خطرہ ایران اور ایرانی انقلاب سے ہوا کرتا تھا۔ لیکن حالیہ حالات نے وہ سارا نقشہ بدل دیا ہے۔ ایران کی پوزیشن علاقے میں وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ حزب اللہ اور حماس جو اس کے حمایتی تھے اور جن کو امداد ایران مہیا کرتا تھا وہ اسرائیل کے ہاتھوں بری طرح پِٹ چکے ہیں۔ شام جو ایران کے قریب تھا وہاں تبدیلیٔ حکومت ہو چکی ہے۔ ایران خود اسرائیلی اور امریکی حملوں کی زد میں آ چکا ہے اور ایران کا اب وہ باغیانہ لہجہ نہیں رہا جو ایک زمانے میں اس کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ کتنے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے ہیں لیکن غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد عربوں کو اب سمجھ آ نی چاہیے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور اگر آج عرب دنیا کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ یعنی جو سوچ امریکہ پیدا کر رہا تھا کہ تمام عرب ممالک بشمول سعودی عرب کو اسرائیل سے نارمل تعلقات قائم کرنے چاہئیں‘ وہ پارا پارا ہو گئی ہے۔ لگتا تو یہ تھا کہ وہ دن اتنا دور نہیں کہ سعودی عرب بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے گا۔ لیکن اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ سعودی عرب کے قدم اسرائیل کی طرف رک جائیں گے۔ سعودی عرب آج اگر متمنی ہے کہ اس کے سر پر ایک نیوکلیئر چھتری ہو تو اسے ایران کا تو ڈر نہیں ہے۔ آج عرب دنیا کو خطرہ صرف اسرائیل سے ہے جو کہ نیوکلیئر پاور ہے اور عربوں کے پاس اپنی تمام دولت کے باوجود ایٹمی قوت نہیں ہے۔
ایران نے کتنی کوشش کی اپنے ایٹمی پروگرام کو بڑھانے کی لیکن ناکام رہا۔ صدام حسین کے عراق نے ایٹمی پیش رفت کی تھی لیکن اس کا او سی ریک نیوکلیئر ری ایکٹر اسرائیلی بمباروں نے تباہ کر دیا۔ اس پس منظر کو سامنے رکھیں تو داد ان پاکستانی دیوانوں کی بنتی ہے جنہوں نے ایٹمی قوت بننے کا سوچا اور تمام مشکلات کے باوجود اس کٹھن راستے پر چل پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو تھا وہ لیڈر جس نے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ریاست نے بھٹو کو پھر صلہ کیا دیا۔ ہمارے ہاں دیگر گناہوں میں بڑا گناہ عوامی مقبولیت سمجھا جاتا ہے اور بھٹو کو اسی گناہ کی سزا ملی۔ پھر نام لینا پڑتا ہے ڈاکٹر اے کیو خان کا۔ ان کے بغیر پاکستان ایٹمی قوت نہ بن سکتا۔ آج اگر سعودی عرب نے اس طوفانی لمحے میں پاکستان کی طرف دیکھا ہے تو پیچھے صورتیں دو اشخاص کی ہی آتی ہیں‘ بھٹو اور اے کیو خان۔ اور چونکہ ہماری ریاست کے انداز نرالے ہیں‘ یہ نہ بھولا جائے کہ آخری دنوں میں اے کیو خان بھی یہاں خاصے رسوا ہوئے۔
سعودی عرب کے محرکات تو صاف واضح ہیں‘ پاکستان کو اس معاہدے سے کیا ملے گا؟ امداد کے تخمینے ضرور لگائے جائیں گے۔ عسکری اعتبار سے جب بھی پاکستان امریکہ کے کام آیا‘ پہلے نام نہاد افغان جہاد میں یا دوسرے میں‘ امریکی امداد آئی‘ عسکری ساز و سامان بھی ملا اور کچھ عرصہ یہاں معاشی حالات اچھے رہے۔ البتہ یہ سوچ بھی پاکستان میں پیدا ہوئی کہ پاکستان نے اپنے آپ کو سستا بیچا۔ حکمران سیاسی مشکلات میں ہوتے تو انہیں جو کچھ ملتا غنیمت سمجھا جاتا۔ اس بار کیا ہوگا ابھی جاننا باقی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved