تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-09-2025

Now its free for all

یہ سوال میں آج کل اُس وقت اکثر خود سے پوچھتا ہوں جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہوتا ہوں۔ میں صبح سویرے اٹھتا ہوں‘ شیو کرتا ہوں‘ نہا دھو کر خوشگوار موڈ کے ساتھ ان اجلاسوں میں شریک ہونے پہنچ جاتا ہوں جو میڈیا کیلئے اوپن ہیں۔ چند دیگر صحافی بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔ وہاں سینیٹرز یا ایم این ایز بھی موجود ہوتے ہیں‘ آڈیٹر جنرل آفس کے لوگ‘ وزارتِ فنانس کی ٹیم اور وفاقی سیکرٹریز اور بعض جگہ تو وفاقی وزیر بھی موجود ہوتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ وہ سب لوگ موجود ہوتے ہیں جو ملک کو چلاتے ہیں۔ آپ انہیں ملک کے وہ ذہین لوگ کہہ سکتے ہیں جو پچیس کروڑ عوام پر حکومت کررہے ہیں اور واضح طور پر وہ ہم سب سے زیادہ ذہین اور اہم لوگ ہیں اس وجہ سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسے ایک دفعہ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو مجھے وزیراعظم ہاؤس ملاقات کیلئے بلایا تو کہا: کچھ مشورے دیں۔ میں نے جواب دیا تھا کہ سر جی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘ سیانے ہوتے تو آپ کی جگہ وزیراعظم ہوتے۔ راجہ صاحب نے کمال عاجزی سے اس عہدے کو اپنی قابلیت یا ذہانت سے زیادہ خدا کی مہربانی قرار دیا تھا اور یہی سچائی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو یہ اعتراف نہ کرتا۔
میں نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف بہت لکھا اور بولا لیکن یہ بات کہنا پڑے گی کہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ یہ عہدہ پانے کیلئے انہوں نے کوئی قابلیت نہیں دکھائی تھی‘ نہ جلسے نہ جلوس اور نہ ہی وہ کوئی بہت مقبول لیڈر تھے۔ بس خدا جس پر مہربانی کرے۔ ورنہ اکثر لوگ معمولی سے معمولی عہدے پر چلیں جائیں تو ان کی اکڑ نہیں ختم ہوتی۔ یقین نہیں آتا تو کسی سرکاری دفتر چلے جائیں جہاں ہمارے جیسے لوگ بیٹھے ہیں۔ سرکاری عہدہ ملنے سے پہلے وہ بھی عوام تھے اور سرکاری محکموں پر تبرہ پڑھتے تھے‘ انہیں کرپٹ کہتے اور اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور اس کیلئے وہ لفظ سسٹم کا استعمال کرتے تھے‘ حالانکہ سسٹم تو وہ خود ہیں جو ہر برا کام کرتے ہیں اور عوام انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ عوام بھی اس وقت تک ہی سرکاری افسروں کو برا بھلا کہتے ہیں جب تک ان کا اپنا بیٹا‘ بھتیجا یا وہ خود سرکاری افسر نہ لگ جائیں۔ پیچھے رہ جانے والے ہی ''سسٹم‘‘ کو برا بھلا کہتے ہیں اور جس دن وہ اس سسٹم میں گھستے ہیں یا کرپٹ لوگوں میں کوئلے کی کان کی طرح کالے ہو جاتے ہیں تو وہی عوام انہیں برے لگتے ہیں جن کا وہ کچھ دن پہلے خود حصہ تھے۔ عوام کو مظلوم اور سرکاری افسران اور ملازمین کو ظالم سمجھتے تھے۔ آج رول بدل گئے ہیں۔ آج میں جب کہتا ہوں کہ مجھے اب بیروزگار نوجوانوں پر کم ہی ترس آتا ہے تو مجھے اکثر لوگ حیران نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کتنا بے رحم اور سنگدل انسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جن افسران یا ملازمین سے آپ کو شکاتیں ہیں‘ یہ کچھ عرصہ پہلے بیروزگار ہی تھے اور سرکار پر بہت غصہ تھے کہ تباہ کر دیا‘ برباد کر دیا۔ کرپشن بڑھ گئی‘ نالائقی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پھر جونہی ان پر سرکاری نوکری کا ٹھپہ لگتا ہے‘ انہیں پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے۔ وہی نوجوان سیٹ پر بیٹھنے کے بعد خوب مال بٹور رہا ہوتا ہے۔ پھر ایسے بیروزگار پر کیا ترس کھانا؟ یہ نوجوان کرپٹ یا نااہل یا تنگ کرنے والے افسران یا اہلکاروں سے صرف اس وقت تک ہی تنگ ہوتے ہیں جب تک یہ خود ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر وصولی شروع نہیں کرتے۔ لوگوں کو مسئلہ کرپٹ لوگوں یا کرپشن سے نہیں ہے‘ انہیں مسئلہ یہ ہے کہ ان کی جگہ وہ خود کرپشن کیوں نہیں کر رہے۔ ہماری جیبیں خالی اور دوسروں کی بھری کیوں ہیں‘ یہ ہے اصل لڑائی۔ لڑائی کرپٹ بمقابلہ ایماندار نہیں بلکہ کرپٹ بمقابلہ کرپٹ ہے۔
میں نے اپنے گاؤں میں دیکھا ہے کہ اچھے خاصے بظاہر ایماندار اور پڑھے لکھے لڑکوں کی جب نوکری لگی تو کچھ عرصہ بعد ان میں سے چند غریبوں سے رشوت لے کر ان کا کام کررہے تھے۔ مجھے زندگی میں ایسا دکھ کم ہوا ہو گا کہ ان کیلئے ہر ماہ سرکار سے ملنے والے ساٹھ ستر ہزار بھی کم ہیں جو وہ غریبوں کی چمڑی بھی اتار رہے ہیں‘ جب یہ پچاس سال سے اوپر ہوں گے تو ان کی کرپشن کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ پتہ نہیں مجھے کیوں ہمیشہ لگتا تھا کہ کم از کسی پڑھے لکھے نوجوان کو کرپٹ یا رشوت خور نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے کردار اور خواب اتنی جلدی آلودہ نہیں ہونے چاہئیں‘ لیکن اب عام نوکریاں چھوڑیں سی ایس ایس اور پی سی ایس افسران کی ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ کہاں گئی تعلیم‘ تربیت اور آدرش۔ بس جہاں داؤ لگے لگا لو اور یقین کریں اب اکثریت داؤ ہی لگا رہی ہے۔ یقین نہیں آتا تو ابھی دو کمیٹیوں کا احوال سن لیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں بیٹھا تھا تو انکشاف ہوا کہ مختلف پاسپورٹ دفاتر سے بہتر ہزار پاسپورٹس چوری ہو گئے‘ جو زیادہ تر افغانوں کے ہاتھ لگے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب چوری ہوئے یا یہ اسی طرح کا کام تھا جس طرح 2013/14ء میں خیبرپختونخوا میں جیلوں سے طالبان قیدی جان بوجھ کر فرار کرا دیے گئے تھے کہ جیل توڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ وہ جیل ٹوٹی نہیں تھی بلکہ تڑوائی گئی تھی۔ ایسے ہی پاسپورٹس کی چوری بھی کرائی جاتی ہے اور اس میں نوجوان سرکاری اہلکار ملوث ہوتے ہیں جو پاکستانیوں کی شناخت کے ساتھ ٹیمپرنگ کرکے افغانوں کو پاکستانی شناخت یا شہریت میں مدد دیتے ہیں۔ محض چند ہزار روپے کے عوض پاکستان کی شناخت اور شہریت بکتی رہی ہے اور اب بھی بک رہی ہے۔ یقین نہیں آتا تو جمعہ کے روز انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس کی کارروائی سن لیں جہاں میں خود موجود تھا کہ تقریباً پورے ملک کا موبائل ڈیٹا اس وقت ڈارک ویب پر موجود ہے۔ آپ پانچ سو سے پانچ ہزار روپے خرچ کرکے کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی کا ڈیٹا خرید لیں۔ اس ڈیٹا کو استعمال کر کے ہی لوگوں کے واٹس ایپ یا فون ہیک ہو رہے ہیں‘ آن لائن فراڈ ہورہے ہیں‘ لوگوں کو فون کرکے ان کے بارے مکمل معلومات دے کر انہیں حیران و پریشان کر کے لوٹا جارہا ہے۔ ابھی جو تین لاکھ لوگوں نے حج کیلئے اپلائی کیا تھا وہ بھی ڈیٹا لیک ہے۔ یہ سارا ڈیٹا اس وقت نیٹ پر پڑا ہے۔ عام آدمی نے اس سے کیا فائدہ اٹھانا ہے‘ اس سے وہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں جنہوں نے بیرون ملک سے ذہین ترین فراڈیے پاکستان ویزوں پر بلا رکھے ہیں اور وہ یہیں بیٹھ کر وارداتیں ڈال رہے ہیں۔ وہ سب غیرملکی اپنے ساتھ نئی نئی ٹیکنالوجی لاتے ہیں جو یہاں آن لائن فراڈ کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ وہ یہاں بیٹھ کر مختلف نوجوانوں کو سکھاتے ہیں کہ کال سینٹرز کے ذریعے جعلی فیس بک اکاؤنٹس‘ میسنجر یا واٹس ایپ ہیک کر کے کیسے لوٹنا ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا کہ انہیں تو بینک سے واٹس ایپ کال آئی جس پروفائل فوٹو پر بینک کا مونوگرام لگا ہوا تھا۔ وہ اسے بینک کی کال سمجھ کر اپنی ذاتی تفصیلات دینے لگے تو ان کے بیٹے نے فوراً کہا یہ فراڈ ہورہا ہے‘ رک جائیں۔ سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا فراڈ ہو چکا ہے۔ تقریباً ہر بندے کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے لیکن وہ اب خاموش رہتے ہیں۔ ماضی میں نادراا فسران اور اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا کہ وہ ڈیٹا چوری کرکے اور افغانوں سے پیسے لے کر ان کی مدد کر رہے تھے۔ جب ہمارے ہاں چند ہزار روپے کے عوض عوام کا سیکرٹ ڈیٹا ہی بیچ دیا جائے اور وہ پانچ پانچ سو روپے میں ڈارک ویب پر بک رہا ہو‘ وہاں بندہ کیا عرض کرے اور یہ بیچنے والے یہی عام نوجوان ہیں جو کچھ دن پہلے بیروزگار تھے اور ہر وقت تبرہ کرتے تھے۔ اب انہیں اپنا حصہ مل گیا ہے تو نئے بیروزگار موقع کی تلاش میں ہیں۔ یہ سسٹم کرپٹ نہیں‘ وہ لوگ کرپٹ ہیں جو سرکاری دفتروں میں‘ اندر یا باہر بیٹھے ہیں۔ میں روزانہ ان کے فیس بک پر انقلابی سٹیٹس پڑھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کرپشن اور انقلاب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved