پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو سعودی عرب اس کے دفاع کے لیے کھڑا ہو گا اور اگر سعودی عرب پر کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو پاکستان اس کے شانہ بشانہ ہو گا۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یہ اعلان ہے کہ ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہو گا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب عالمی سطح پر جیو پولیٹکل صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی عرب اب اپنی سلامتی کے لیے صرف امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہتا اور اپنی سلامتی کے لیے نئے تزویراتی شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ دوسری طرف پاکستان اپنی مکمل دفاعی صلاحیت کے ساتھ سعودی عرب کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہو رہا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کو تحریری معاہدے کی شکل دے دی ہے۔ اس معاہدے پر دنیا کے مختلف حصوں سے ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔ بھارت نے فوری طور پر کہا کہ سعودی عرب کو حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ بھارت کو یہ خدشہ ہے کہ یہ فوجی تعاون خطے میں طاقت کے روایتی توازن کو پاکستان کے حق میں جھکا دے گا۔ یہ صورت حال بھارت کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ ایک طرف وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنی مضبوط اقتصادی شراکت داری کو اہمیت دیتا ہے‘ جس کا ثبوت پچھلے سال 43ارب ڈالر کا تجارتی حجم ہے۔ اس وسیع تجارتی اور اقتصادی تعاون کے باوجود بھارت کو یہ خوف ہے کہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی دفاعی قربت اس کے مفادات کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ یہ تناؤ عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح اقتصادی اور تزویراتی تعلقات ایک ہی وقت میں ایک دوسرے سے مربوط اور متصادم ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے پر دنیا کی اہم ترین طاقتوں کی طرف سے بھی گہرا غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں اس پیش رفت کو خصوصی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے جہاں تجزیہ کار اسے سعودی عرب کی بدلتی خارجہ پالیسی کا اشارہ سمجھ رہے ہیں۔
قطر میں حماس رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے بعد ہم نے انہی سطور میں نیٹو طرز پر مسلم اُمہ کے اتحاد کی تجویز پیش کی تھی جو مشترکہ دفاع کے اصول پر قائم ہو۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ اس سلسلے میں خشتِ اول کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس میں کئی اہم ممالک کی شمولیت ابھی باقی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول‘ اگر دیگر عرب ممالک بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں تو پاکستان اس معاہدے کو وسعت دینے پر غور کر سکتا ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کے تحت ضرورت پڑنے پر پاکستان کا جوہری پروگرام سعودی عرب کے لیے دستیاب ہو گا۔ بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اگر معاشی طور پر کمزور نہ ہوتا تو یہ معاہدہ کبھی نہ کرتا۔ مگر سوال یہ ہے کیا صرف دولت ہی سلامتی کی ضمانت ہے؟ مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو نیٹو میں شامل ہیں‘ کیا سب کے سب امیر ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ صاحبِ ثروت کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ غریب کے پاس محض ہتھیار ہے جبکہ امیر کو اپنے خزانے پر ڈاکے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی خوف اور ضرورت نے مختلف طبقات کو ایک میز پر لا بٹھایا۔ اب نقشہ بدل رہا ہے۔ صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ بحرین‘ عمان اور کویت کو بھی اس نئے دفاعی بندوبست کا حصہ بننے جا رہے ہیں‘ جبکہ ایران اور ترکی کی آمادگی نے اسے مزید بھاری بھرکم بنا دیا ہے۔
عالمی حالات ایک بڑے تصادم کا اشارہ کر رہے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ کی چاپ ہمہ وقت سنائی دیتی ہے۔ ایسے میں مسلم بلاک کا قیام محض خواہش نہیں بلکہ بقا کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس پورے اتحاد کی اساس ہے۔ اس کا وجود بذاتِ خود ایک دفاعی ہتھیار ہے۔ دورِ جدید کی کچھ تصویر کشی حیران کن لیکن معنوی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ وہ یہ کہ مودی کی جنگی مہم جوئی نے پاکستان کی جدید دفاعی صلاحیت کو منظرِ عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ نیتن یاہو کی جارحانہ حرکتوں نے مسلم دنیا کو ایک ہو کر سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اللہ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کا علاج نہ رکھا ہو۔ اسرائیل کو مرض کہا جائے تو پاکستان اس کا علاج ہے۔ مسئلہ صرف انسانی نفسیات کا ہے۔ لوگ اکثر مہنگی دوا پر اندھا یقین کر لیتے ہیں مگر اصل افاقہ وہی دوا دیتی ہے جو فطرت کے قریب ہو اور بروقت استعمال کی جائے۔ سعودی عرب نے ماضی میں امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر کی ڈیل کر کے اپنی حفاظت خریدنی چاہی لیکن جب عملی وقت آیا تو امریکی دفاعی نظام قطر پر حملے کے وقت بے بس نظر آیا۔ وہ لمحہ سعودی قیادت کے لیے بیداری کا تھا اور تب ان کی نگاہ اسلام آباد پر پڑی۔ پاکستان نہ صرف وہ وسائل رکھتا ہے جو کسی سپر پاور کے پاس ہوتے ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ حساس اور کارگر صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی سرزمین پر اپنے میزائل یا اپنا کوئی ہتھیار نصب کر سکتا ہے۔ماضی میں ایران کے کردار پر سب سے زیادہ سوال اٹھائے جاتے تھے مگر تہران نے بھی اختلافات ایک طرف رکھ کر عرب دنیا کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صہیونی خطرے نے سب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ مسلم ممالک کی یہ بیداری بتا رہی ہے کہ مسلم دنیا اپنے وجود کو بچانے کے لیے نئے تاریخی موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دنیا میں دو یا زیادہ ممالک نے مشترکہ دفاع کا اعلان کیا ہو۔ نیٹو اتحاد کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہو گا۔ جاپان کئی دہائیوں سے امریکہ کی ایٹمی چھتری کے نیچے ہے۔ برطانیہ اور امریکہ ایٹمی ٹیکنالوجی میں قریبی تعاون رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ اور امریکہ کا AUKUS اتحاد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے‘ یعنی دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بڑے ممالک ہمیشہ ایسے معاہدوں کے ذریعے اپنی سلامتی کو یقینی بناتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا دفاعی معاہدہ محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑا سیاسی اور تزویراتی پیغام ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب کسی کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتے۔ یہ معاہدہ آنے والے دنوں میں خطے کی سیاست‘ عالمی تعلقات اور طاقت کے توازن پر گہرے اثرات ڈالے گا۔ یہ امن کا باعث بھی بن سکتا ہے اور کشمکش کو جنم دینے والا عنصر بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ نئے دور کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے‘ کمزور اقوام اگر متحد ہوں تو طاقتور بن کر صفِ اوّل میں نمایاں نظر آ سکتی ہیں۔ پاکستان اس نئے عہد کا مرکز ہے اور دنیا جلد دیکھے گی کہ کمزور سمجھا جانے والا غالب کیسے آ گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved