تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     22-09-2025

طاقت اور طاقت کا توازن

کئی ایسے الفاظ جو سب زبانوں میں یکساں اہمیت اور قوتِ ابلاغ رکھتے ہیں‘ صرف ان کے سرسری اظہار ہی سے مطالب واضح ہو جاتے ہیں ۔ توازن کے ماخذ اور اس کی اصل زبان کی بحث میں پڑے بغیر‘ اب یہ اردو کے عام ذخیرہ الفاظ میں سے ہے۔ یہی تو کمال اور خوبصورتی ہے اس زبان کی جس نے اپنا دامن علاقائی‘ مقامی اور دور دراز کی زبانوں کے لیے کھلا رکھا ہے۔ اس میں بغض‘ تعصب اور لسانی امتیاز کی گنجائش نہ تھی۔ توازن یوں سمجھیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مرکزی نقطہ ہے۔ آپ اسے متحرک روح بھی کہہ سکتے ہیں‘ اور اس سے میری مراد ہر لمحہ اس پر دھیان رکھنے سے ہے۔ بات چیت ہو‘ کھانا پینا ہو‘ اٹھنا بیٹھنا ہو‘ سونا جاگنا ہو‘ کام اور آرام ہو یا پھر کمانا اور خرچ کرنا ہو‘ توازن نہ رہے تو لوگوں کو ہم نے اکثر اپنے سکون واطمینان‘ صحت اور اپنی زندگی سے وقت سے پہلے ہاتھ دھوتے دیکھا ہے۔ سوچ‘ فکر اور اندازِ گفتگو جو بطور شخص ہمارا تعین کرتے ہیں اور دوسروں سے جوڑتے ہیں‘ میں توازن نہ رہے تو اندر کی کیفیت اور دوسروں سے تعلقات میں اَن گنت تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ توازن رکھنے کی بات کرنا ویسے تو آسان معلوم ہوتا ہے‘ مگر اس کے شعور کو اپنی شخصیت میں سمو کر جینے کے سلیقے کے لیے بہت ریاضت درکار ہے۔ ہمارے اندر جذباتیت کی آگ کے شعلے تو ہر دم بھڑکتے رہتے ہیں مگر اس کے ساتھ سہل پسندی اور لمحاتی لذت کی رغبت ہمیں کھوکھلا کر دیتی ہے‘ جیسے دیمک لکڑی کو اندر سے کھا کر ایک مضبوط ستون اور تنے کو ایک خول کی صورت کر دیتی ہے۔ دوسری سیاسی اکائیاں‘ جنہیں ہم مقتدر ریاستیں کہتے ہیں‘ ان کے مقابلے میں طاقت کا توازن رکھنا آزادی‘ خود مختاری اور دفاع کی اولین ضرورت ہے۔
ہمارے ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے‘ جو وقت کے ساتھ بڑھے بھی ہیں اور پیچیدہ ہوتے بھی دکھائی دیتے ہیں‘ جیسا کہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اسے صرف متوازن انسان ہی قابو میں رکھ سکتے تھے‘ مگر جب تعلیم اور سماجی ترقی کی وہ صورتحال ہو جو ایک عرصہ سے یہاں ہے تو اس سیلاب کے سامنے کون بندھ باندھ سکتا تھا۔ الٹا ہمارے روایتی مبلغین اپنی کوتاہ اندیشی اور توازن اور عقل وشعور سے عاری ہونے کے سبب کچھ اور سبق پڑھاتے رہے۔ مسائل اور بھی ہیں‘ مگر ان سب کے باوجود کم از کم دفاعی شعبے میں علاقے میں مناسب اور معقول حد تک ہم نے طاقت کا توازن قائم رکھا ہے۔ پہلے امریکہ اور مغرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کر کے‘ اور پھر حالات بدلے تو چین سے دوستی‘ دفاعی پیداوار میں خود انحصاری اور ساختی نوعیت کے عدم توازن کو سامنے رکھتے ہوئے‘ جوہری ہتھیاروں کی تیاری تک تو بات درست ہے‘ اور اس پر ہم فخر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔ مگر اس توازن کو پیدا کرنے کے لیے ہم نے سیاسی اور معاشی میدانوں کے پلڑے ایک طرف جھکا دیے۔ توازن داخلی طاقتوں کے درمیان ہو یا بیرونی طاقتوں کے درمیان‘ اس کی سوئی جامد نہیں رہتی۔ دیگر کئی مرئی اور غیر مرئی عوامل کی وجہ سے ادھر اُدھر ہوتی رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انسان کے اپنے ذہن میں کئی متضاد جذبات انگڑائیاں لیتے رہتے ہیں ۔ قدرت اور سماجی نظاموں کا اصول بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
مئی میں بھارتی جارحیت کے جواب میں بہت عرصہ کے بعد ہم نے بے مثال یگانگت اور ہم آہنگی قومی سطح پر دیکھی۔ چار دن کی مختصر جنگ میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوئی اور دنیا کی نظروں میں ہم ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آئے۔ جوں جوں ہم نے بیرونی ماہرین کے تبصرے پڑھے اور تحقیقاتی رپورٹیں دیکھیں تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری پر ہمارا پرانا یقین اور بھی تازہ اور پختہ تر ہو گیا۔ یہ ایسے شعبے ہیں جن کی اہمیت اور عملداری معیشت یا دفاع تک محدود نہیں رہتی‘ بلکہ اس کے صنعت‘ زراعت‘ تجارت‘ مواصلات اور تعلیم تک مثبت اثرات پھیلتے ہیں۔ اس طرح ترقی ایک ہمہ گیر سلسلے کی طرح عمل پذیر ہوتی جاتی ہے۔ چین کے ساتھ ہماری شراکت داری اور تعلقات سے سب سے بڑا فائدہ جو ہمیں گوادر بندرگاہ اور موٹرویز کی طرح نظر نہیں آتا‘ وہ اس ملک میں ہزار ہا نوجوان طلبہ ہیں‘ جو جدید معیشت کے ہر شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ اور ہر سال ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ثمرات آنے والے برسوں میں ہم نمایاں طور پر دیکھیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بڑھتے روابط‘ خصوصاً سعودی عرب اور گزشتہ ہفتے اس کے ساتھ ہونے والا دفاعی معاہدہ جس کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے‘ ہمارے لیے امکانات کے میدان کو وسیع کرتا ہے۔ ہم تو تمام مسلم اکثریتی ممالک کو اپنا دوست اور قریبی تصور کرتے آئے ہیں‘ اور جب بھی ان میں سے کوئی کسی مصیبت کا شکار ہو تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں ۔ اب سعودی عرب‘ جس کے ساتھ ہمارے دفاعی نوعیت کے دیرینہ گہرے مراسم رہے ہیں‘ ہماری ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس پر ہمیں فخر ہے۔ خطے کے تبدیل ہوتے ہوئے وسیع تر دفاعی اور تزویراتی حالات کے تناظر میں ہمارے لیے یہ دفاعی معاہدہ سرمایہ کاری‘ ترقی‘ داخلی استحکام اور عالمی وقار میں اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ بات تو توازن سے شروع کی تھی۔ دفاعی اتحاد بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ مشترکہ مخالفین کے خلاف متناسب توازن قائم کیا جائے۔ طاقت کا توازن نہ ہو تو ایک جارح دشمن کے سامنے کوئی اخلاقیات‘ قانون اور انسانیت پرستی کا وعظ اثر نہیں کرتا۔
اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کو دیکھ لیں‘ جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی پوری بربریت کے ساتھ جاری ہے۔ ایسی تاریخ اور اس کے اسباق سے جدید دور کا ہر حکمران اور حکومت واقف ہے‘ مگر مشکل یہ ہے کہ طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے کن عوامل میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ہم نے ہمیشہ جامعات اور ان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ایک دو دہائیوں سے نجی اور سرکاری جامعات کی ان میدانوں میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے‘ مگر اب تو عالمی حالات کا جبر یہ ہے کہ مزید وسائل مہیا کیے بغیر چارہ نہیں ۔ ان کا معیار بہتر ہو اور حکومتی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ سب مسائل کو تو ہم یہاں یکجا کرکے نہیں دیکھ سکتے‘ مگر جو اصلاحات حکومتی شعبوں‘ معیشت‘ صنعت اور قانون وانصاف کے حوالے سے ضروری ہیں‘ وہ کی جائیں تاکہ بیرونی اور داخلی سرمایہ کار خود کو محفوظ خیال کریں اور پوری یکسوئی سے سرمایہ لگائیں۔ سعودی عرب سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں بھی گزشتہ ایک دہائی سے زبردست تبدیلی آئی ہے۔ یہاں صرف اشارہ ہی کافی ہے۔ توازن کا تقاضا ہے کہ ہم قرضوں کو چکانے کے لیے مزید قرضوں اور بھکاری پن کو چھوڑ کر اپنے وسائل؛ معدنی‘ آبی اور صنعتی سائنس اور ٹیکنالوجی میں لگائیں ۔ دفاعی طاقت صرف جہازوں‘ ٹینکوں اور میزائلوں کی تعداد پر منحصر نہیں‘ بلکہ ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت حاصل کرنا اور ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنا ہے۔ ایسا ہم کر بھی رہے ہیں‘ مگر ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved