تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-11-2013

مومن کی میراث

راولپنڈی میں کیا ہوا؟ اس بارے میں کیا کہا جائے؟ حکومت نے حسب سابق ہر ’’مٹی پائو‘‘ والے معاملے کی طرح اس معاملے کو بھی ٹیکنیکل ناٹ آئوٹ اور وقتی غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے ایک جوڈیشل کمشن اور ایک فیکٹ فائنڈنگ کمشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ کمشن بنا بھی دیا ہے مگر سابقہ بے شمار اسی قسم کے بنائے گئے کمیشنوں کی کارکردگی اور رپورٹوں کے فائلوں میں غرق ہو جانے کے معمول نے ان دو کمشنوں کی افادیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگایا ہوا ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور مسلکی تقسیم سے زخم زخم اس ملک میں سیاستدان تو ایک طرف آمر بھی مصلحت پسند اور منافقت پیشہ تھے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف منافق تھے بلکہ اپنی اس منافقت پر کسی کو بمعہ پوری قوم جوابدہ بھی نہیں تھے۔ برادری ازم کی دبی ہوئی آگ کو دوبارہ نئے سرے سے بھڑکانے اور مسلکی تقسیم کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں نمایاں کرنے کا سارا کریڈٹ ’’مرد مومن ،مرد حق‘‘ کو جاتا ہے۔ اول اول مرحوم نے علماء اور مشائخ کانفرنسوں میں شرکاء کو مدعو کرتے ہوئے مسلکی بنیادوں پر کوٹے میں دعوت نامے جاری کروائے۔اس طرح ہر مسلک کے لوگوں نے مسلکی بنیادوں پر بنائی گئی سرکاری لسٹوں میں اپنے نام ڈلوانے، ان کانفرنسوں میں شرکت کے اعزاز اور ایوان صدر میں ہونے والی میٹنگز میں شمولیت جیسی ’’عزت‘‘ کے حصول کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اس کوٹہ سسٹم میں بعض ایسے لوگوں کی لاٹری نکل آئی جو سارا گائوں مر جانے کے باوجود بھی نمبردار بننے کی فہرست میں نہ آتے تھے ۔ امرائو القیس سے کسی نے سوال کیا کہ وہ اپنے قبیلے کا سردار کیسے بنا؟ جواب دیا کہ مجھ سے بڑے تمام مر گئے تھے۔ صبح ہر حال میں صدر پاکستان کی حیثیت سے آنکھ کھولنے کے شوق میں مبتلا جنرل ضیاء الحق نے ایسی بے شمار بدعات کا تحفہ اس ملک کو بخشا جس کو ہم اب بھگت رہے ہیں۔ اسلام آباد کے سیکٹروں سمیت سرکاری سرپرستی میں بننے والی ہائوسنگ سکیموں میں مسجدوں کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے لے کر تعمیر تک یہی کوٹہ سسٹم رائج ہو گیا اور اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک مسلکی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کے مرحلے طے کرتا ہوا اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ہر فرقہ بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ دوسرے فرقے کے بارے میں تکفیر کا فتویٰ لگا دیتا ہے۔ مسجدیں مسلکی بنیادوں پر مخصوص ہو گئی ہیں اور وہاں بھی سکون اور اطمینان قلب سے نماز پڑھنی ناممکن ہو گئی ہے۔ دروازے پر تلاشی دینی پڑتی ہے۔ مشکوک شکل کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ دور کہیں پٹاخہ چلے تو ’’تراہ‘‘ نکل جاتا ہے ۔ واعظ کی بات سننے کے بجائے دل وسوسوں میں مصروف رہتا ہے۔ بیٹا جمعہ کی نماز پڑھنے جاتا ہے تو دل اس کی واپسی میں اٹکا رہتا ہے۔ میں اپنے دفتر کے سامنے والی مسجد میں جمعے کی ادائیگی کے لئے جاتاہوں تو سڑک پار کرتے ہوئے بخیریت واپسی کی دعا مانگتا ہوں۔ حیران ہوتا ہوں کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ دنیا آ گے جا رہی ہے ہم پیچھے کی جانب رواں دواں ہیں۔ میں کوئی سنی سنائی یا کہیں پڑھی پڑھائی بات نہیں کر رہا آنکھوں دیکھی بتا رہا ہوں کہ صرف تین چار عشرے پہلے کوئی مسلکی تفریق ایسی نہ تھی کہ ایک دوسرے کو کافر ،واجب القتل اور راندۂ درگاہ سمجھا جائے۔ یہ غالباً 1979ء کی بات ہے۔ والدہ مرحومہ گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین قاسم پور کالونی میں پرنسپل تھیں اور ہم ادارے کے اندر پرنسپل کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام پذیر تھے۔ میرے پاس تیس بتیس سال پرانا ’’ریلے ‘‘ کا سائیکل ہوتا تھا جو والد صاحب نے ویسپا سکوٹر خریدنے کے بعد ریٹائر کر دیا تھا۔ میں اس سائیکل پر دوستوں کو ملنے شہر جاتا تھا۔ قاسم پور کالونی تب شہر سے باہر تصور ہوتی تھی۔ واپسی پر بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا۔ تب ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اندھیرا ہونے سے پہلے نہ صرف گھر پہنچ جائیں بلکہ نماز بھی راستے میں ہی ادا کر لیں تاکہ گھر والد صاحب کی تفتیش اور ڈانٹ سے بچ جائیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ شارع راشد پر مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا۔ قریب ترین القائم جننگ فیکٹری کے دروازے کے ساتھ فیکٹری کے اندر بنی ہوئی ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ پہلی بار تو ایسا ہوا کہ جب میں اس مسجد میں داخل ہوا تو مسجد بالکل خالی تھی۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھنے کے منتظر کھڑے ہیں۔ تب مجھے پتہ چلا کہ یہ اہل تشیع کی مسجد ہے۔ میرے نماز سے فارغ ہونے کے بعد موذن نے اپنی اذان دی اور پھر وہاں موجود لوگوں نے مغربین ادا کیں۔ کئی بار پھر یہی اتفاق ہوا۔ موذن اس وقت تک اذان شروع نہیں کرتا تھا جب تک میں نماز سے فارغ نہیں ہو جاتا تھا۔ یہ برداشت، رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ تھا اورمیں اس کا عینی شاہد ہی نہیں بلکہ اپنی ذات کے حوالے سے گواہ ہوں۔ چوک شہیداں ہمارا گھر محلہ غریب آباد میں تھا۔ محلے کی اکثریت اہل سنت والجماعت مسلک کی تھی ۔ صرف ایک دو گھر اہل تشیع حضرات کے تھے۔ ایک گھر غلام حسین کا تھا۔ میرے پرائمری کے استاد ماسٹر اقبال عرف ماسٹر بالی شیعہ تھے اور غلام حسین کے بڑے بیٹے تھے۔ دوسرا گھر سید لال شاہ بخاری کا تھا اور ہمارے گھر کے عین سامنے تھا۔ سید لال شاہ حج پر گئے تو میرے والد صاحب کو اپنے گھر کا نگران بنا کر گئے۔ ان کا بڑا بیٹاعابد شاہ والد صاحب کا اور سب سے چھوٹا بیٹا ریاض شاہ میرے بڑے بھائی مرحوم کا ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ تھا۔ محرم کے دنوں میں میری منجھلی پھوپھی شربت کی سبیل لگاتی تھیں اور مٹی کی پکی ہوئی گلاسیوں میں محلے بھر کے بچوں کو شربت پلاتی تھیں ۔ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ عنقا ہو گیا۔ ضیاء الحق نے صرف ابتدا کی، باقی ہم سب نے مل جل کر کمال کر دیا۔ غلطیوں کی ایک طویل فہرست ہے مگر اب اس فہرست کا گنوانا بھی ممکن نہیں رہا کہ درمیان میں حائل نفرت کی خلیج اب منطق اور دلیل سننے سے بھی عاجز ہے۔ غلطیاں اور ان کی درستی کے لئے کچھ تجاویز۔ مگر اعتدال کا سبق دینے والے نبیﷺ کی امت راہ اعتدال پر گامزن امتّیوں کو مطعون کر رہی ہو اور سارے معاملات انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہوں وہاں بھلا تجاویز دینا کہاں ممکن ہے اور اسے کون سننے پر آمادہ ہے؟ جہاں ہر مسلک کا اپنا چینل ایک خاص حساب سے برین واشنگ کر رہا ہو بھلا وہاں رواداری، برداشت اور وسعت قلبی کہاں اپنی جگہ بنا سکتی ہے؟ جہاں بات کرنے والے کی بات کو عقل کے پیمانے پر پرکھنے کے بجائے بات کرنے والے کے مسلک کی تحقیق کر کے بات کا تجزیہ کیا جائے وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ جناب علی ؓ نے فرمایا کہ ’’یہ مت دیکھوکہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھوکہ کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ لیکن اب اس پر کون عمل کر رہا ہے؟۔ باریکیوں میں جانا نہ تو اب ممکن ہے اور نہ ہی اب ان باتوں کا وقت ہے لیکن چند موٹی موٹی چیزوں سے ایک بہتر مستقبل کی جانب پہلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم گزرے کل میں ہوئی بات کی درستی نہیں کر سکتے مگر آنے والے کل میں ایک نئی صبح کا آغاز ضرور کرسکتے ہیں اور ایک اچھی ابتداء کے لئے آنے والا دن ہمارا منتظر ہے۔ کسی بھی سیاسی اور مسلکی مصلحت سے بالاتر ہو کر شرپسندوں کو کچل دیا جائے ۔ سب کو پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن صرف اور صرف مصلحتوں نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ خلیج کے دائیں بائیں واقع ممالک سے آنے والی لمبی رقمیں، مسلکی منافرت پھیلانے والے چینل، انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے فرقہ پرست گاڈ فادر اور مٹھی بھر انتہا پسند ۔ اگر صرف ان پر قابو پا لیا جائے تو معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں اور ہم اسی محبت اور یکجہتی کی طرف لوٹ سکتے ہیں جو میں نے دیکھی ہے مگر میرے بچے اس سے محروم ہیں۔ اور ہاں! یاد آیا۔ ایسے معاملات سے نپٹنے کے لئے خصوصی مجسٹریٹی نظام بنانا ہو گا جو راولپنڈی جیسی صورتحال کو اول تو پیدا ہی نہ ہونے دے اور اگر خدانخواستہ معاملات بگڑیں تو بروقت عملی اقدام کا کوئی سسٹم موجود ہو۔ لاوارث اور سسٹم کے بغیر چلنے والے سسٹم کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو راولپنڈی میں ہوا ہے۔ ان غیر معمولی حالات میں اور برباد شدہ امن و امان کی صورتحال میں ہمیں اپنے مسلکی معاملات میں لچک دکھانی ہو گی اور یہ بزدلی نہیں، حکمت ہو گی حکمت! جو مومن کی میراث ہے۔ آئیں اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کے حصول میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved