میں کالم کے آغاز ہی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو خود ساختہ تاریخ‘ ٹویوں‘ کھڈوں اور ملتان سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اس کالم کو پڑھنے کے بجائے اس کالم کے دائیں‘ بائیں اور نیچے موجود پانچ کالموں میں سے اپنی پسند کا موضوع منتخب کر کے ابھی دائیں بائیں ہو جائیں‘ بعد میں یہ کالم گھسیٹ ذمہ دار نہ ہوگا۔
ملتان گزشتہ سات ہزار سال سے مسلسل آباد شہر ہے اور اس لحاظ سے یہ شہر شاید برصغیر کا سب سے قدیم یا قدیم ترین آباد دو تین شہروں میں شامل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ملتان دراصل سات ہزار سال نہیں بلکہ پانچ ہزار سال پرانا مسلسل آباد شہر ہے۔ شاہ جی کا فرمانا ہے کہ ان درمیان والے دو ہزار سال کا فرق ایسا نہیں کہ اس پر اپنا سر کھپایا جائے۔
آج کے اس تحقیقی کالم کا موضوع ملتان میں موجود قدیمی اور تاریخی کھڈے یعنی گڑھے ہے۔ ملتان کا سب سے مشہور اور قدیمی کھڈا تو گجر کھڈا ہے‘ لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ملتان کا سب سے پرانا اور تاریخی کھڈا ہونے کے باوجود یہ اپنی تاریخ سے اور ہم اس کھڈے کی تاریخ سے ناآشنا ہیں۔ ہم نے ملتان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے عالم‘ فاضل‘ محقق اور تاریخ دانوں کے علاوہ اپنے ہر جاننے والے گجر دوست سے بھی اس کھڈے کی تاریخی اور معاشرتی اہمیت کے بارے میں دریافت کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ندیم گجر نے کہا کہ ممکن ہے کبھی یہاں پر کوئی کھڈا ہوتا ہو اور کوئی گجر اس میں گر کر جاں بحق ہو گیا ہو جس کے بعد اس کھڈے کا نام گجر کھڈا پڑ گیا ہو مگر یہ صرف میرا خیال ہے۔ شوکت گجر سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ اسے ملتان آئے محض سترہ سال ہوئے ہیں اس لیے اس سے ایسے سوالات کرنا انتہائی نامناسب اور نامعقول حرکت ہے۔ نثار گجر کو نیویارک فون کر کے دریافت کیا تو اس نے ایسی نامعقول وجہ بتائی کہ لکھنے کی تاب نہیں۔ لہٰذا اس کھڈے کے بارے میں مزید فضول وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ملتان کے دیگر تاریخی کھڈوں کا ذکر کیا جائے۔
ملتان کے قدیمی کھڈوں میں ایک کھڈا نو نمبر چونگی کے پاس ہے۔ یہ کھڈا پانچ سڑکوں کے حسین سنگم پر واقع نو نمبر چونگی چوک‘ جو ملتان کا معروف ترین چوک ہے‘ سے کچہری‘ کینٹ اور شہر کے مغرب میں موجود ساری آبادی کی طرف جانے والی ملتان خانیوال روڈ پر صرف تیس چالیس گز کے فاصلے پر سڑک کے بائیں طرف واقع ہے۔ یہ فقیر اس کھڈے کو ایک عرصے سے روزانہ دیکھ تو رہا تھا لیکن اسے اس کھڈے کی تاریخی اہمیت سے آگاہی نہ تھی۔ تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس کھڈے کی موجودگی کا پہلا ذکر سکندرِ اعظم کے حملے کے دوران ملتا ہے۔ لیکن اس کھڈے کا مستند حوالہ ملتان پر نواب مظفر خان سدوزئی کے دورِ حکومت میں سکھوں کے حملے کے دوران ملتا ہے۔ ہری سنگھ نلوہ کی قیادت میں سکھ فوج نے مارچ 1818ء میں ملتان کا محاصرہ کیا لیکن ملتان شہر اور قلعے میں داخل نہ ہو سکے۔ قلعہ کی فصیل اور شہر کی دیوار کو توڑنے کی غرض سے لاہور سے شہرہ آفاق زمزمہ توپ المعروف بھنگیوں والی توپ کو لایا گیا۔ یہ توپ معرکۂ ملتان میں زخمی قرار دے کر واپس لاہور بھجوائی جا رہی تھی تو اس جگہ پر موجود کھڈے میں گر گئی جسے کئی دن کی محنت اور مشقت کے بعد بیلوں اور ہاتھیوں کی مدد سے بمشکل نکالا گیا۔ توپ کے پہیے اس حادثے میں ٹوٹ گئے۔ اس تاریخی واقعہ کی بنا پر یہ کھڈا اہلِ ملتان کے نزدیک بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ملتان کے شہری تنگی کے باوجود اس کھڈے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ اسی محبت کی بنا پر ضلعی انتظامیہ و ایم ڈی اے وغیرہ اس کی نہ صرف مکمل حفاظت کرتے ہیں بلکہ مسلسل اس کی تزئین وآرائش میں بھی مصروف رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اسے صاف کرکے اس کی چوڑائی اور گہرائی کو اصل سائز کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔
ملتان شہر کا دوسرا تاریخی کھڈا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کی رہائش گاہ کے عین سامنے واقع ہے اور اس کی حفاظت کے سلسلے میں انتظامیہ کی انتھک کاوشیں دور سے دکھائی دیتی ہیں۔ تقریباً پچیس فٹ چوڑی سڑک کے بائیں کنارے پر واقع اس سات آٹھ فٹ کے کھڈے کی عظمتِ رفتہ کے پیش نظر اسے چھچھورے ڈرائیوروں کی حرکتوں سے بچانے کے لیے یہاں دس بارہ فٹ چوڑا پائپ سے بنا ہوا رکاوٹی بیریئر لگا دیا گیا ہے تاکہ کھڈے کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس کھڈے کے بارے مشہور ہے کہ مجاہدین جب 1857ء میں ملتان چھائونی میں انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے شہر کی جانب آنے لگے تو مخدوم شاہ محمود قریشی (سینئر) کے مریدوں نے اس کھڈے میں چھپائے ہوئے بارود کو آگ لگا دی جس سے درجنوں مجاہدین شہید ہو گئے۔
ملتان کے کھڈوں کا ذکر ادھورا رہے گا اگر دو کھڈوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ ان میں سے ایک کھڈا اب بھی پیر خورشید کالونی روڈ کے عین درمیان میں موجود ہے تاہم اربابِ اختیار کی بے اعتنائی کے باعث نہایت ہی کسمپرسی کا شکار ہے۔ اس کھڈے کے بارے میں روایت ہے کہ جب 713ء میں محمد بن قاسم نے ملتان پر حملہ کیا تو شہرِ پناہ پر ہلّہ بولنے سے قبل اس کی فوج نے شہر سے باہر موجود جنگل (بیلے) میں رک کر فوج کو مستحکم کیا۔ یہ مقام قاسم بیلہ کے نام سے معنون ہوا اور آج کل شہر کا حصہ ہے۔ ملتان کا ہندو برہمن حاکم جس کا نام بعض روایات میں راجہ ''جیب لہ‘‘ ملتا ہے‘ قلعے میں سے خفیہ راستے سے فرار ہو کر اس کھڈے میں چھپ گیا تاہم محمد بن قاسم کے ایک سپاہی نے اسے اس کھڈے سے پکڑ کر محمد بن قاسم کے روبرو پیش کیا۔ اس کھڈے کو تب سے تاریخی مقام کی اہمیت حاصل ہے۔ ایک اور تاریخی کھڈا اس وقت نادر آباد پھاٹک پر حالیہ تعمیر شدہ فلائی اوور کے شہر کی جانب اختتام سے چند فٹ کے فاصلے پر موجود ہے اور جولائی 2024ء میں بننے والے فلائی اوور کے تمام تر تعمیراتی کام اور بعد از تعمیر ہونے والی تزئین وآرائش کے دوران بھی پوری کوشش کی گئی کہ اس کھڈے کو کوئی گزند نہ پہنچے اور الحمدللہ تمام متعلقہ محکمے اپنے اس کاوش میں پوری طرح کامیاب رہے۔ اس کھڈے بارے روایت ہے کہ اس جگہ پر کئی سو سال قبل سائیں سخی توپ شاہ المعروف بابا کھڈے شاہ کا ڈیرہ تھا اور انہوں نے اپنی جھونپڑی کے داخلی راستے کو کتوں بلیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ کھڈا خود اپنے ہاتھ سے کھودا تھا اور اس حوالے سے روایت ہے کہ جو اس کھڈے کو ختم کرے گا وہ جل کر بھسم ہو جائے گا۔ اس دن سے کوئی مائی کا لعل اس کھڈے کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس روایت کی سچائی کے بارے میں یہ عاجز کچھ کہنے سے قاصر ہے کیونکہ کسی نے اس کو ختم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ ملتان شہر اور اس کے نواح میں اس طرح کے درجن بھر مزید تاریخی اور قدیمی کھڈے خستہ حالت میں موجود ہیں تاہم ایک کالم میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
میری کالم ہٰذا کے ذریعے سرکار سے گزارش ہے کہ ان کھڈوں اور ان کے علاوہ دیگر تاریخی اور قدیمی کھڈوں کو محکمہ آثارِ قدیمہ کے حوالے کرتے ہوئے تاریخی ورثہ قرار دے اور ان کے گرد جنگلا لگا کر انہیں محفوظ کیا جائے۔ ان کی تاریخی اہمیت پر مبنی واقعات پتھر پر کندہ کرکے نصب کیے جائیں تاکہ نئی نسل ان کی تاریخی اہمیت سے واقف ہو سکے۔ اگر ممکن ہو تو ان کھڈوں کو یونیسکو سے عالمی ورثہ میں شامل کروانے کی کوشش کی جائے جس سے ملتان میں عالمی سیاحت کو فروغ ملے گا۔ میری اس کالم کے ذریعے جہاں انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ان تاریخی کھڈوں کی حفاظت کو یقینی بنائے وہیں دیگر کالم نویس اصحاب سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں موجود تاریخی کھڈوں کی حفاظت کی تحریک چلا کر اس تاریخی ورثے کو بچانے کی مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس قسم کے کالم لکھنا کالم نویسوں کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved