تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     23-09-2025

پاک سعودی سکیورٹی تعاون

پاکستان اور سعودی عرب نے 17 ستمبر کو ریاض میں باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف‘ جو سعودی عرب کے دورے پر تھے‘ اور سعودی وزیراعظم‘ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ اقدام سکیورٹی کے ماہرین کے لیے حیران کن تھا کیونکہ اس سے قبل میڈیا میں ایسی کسی پیش رفت کے بارے کوئی قیاس آرائی موجود نہیں تھی۔ معاہدے کا مکمل متن جاری نہیں کیا گیا‘ سوائے ایک شق کے جس کے مطابق کسی ایک فریق پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک ایسے کسی فوجی خطرے کا مشترکہ طور پر مقابلہ کریں گے اور ان کی حکمتِ عملیاں خطرے کی نوعیت کے مطابق ہوں گی۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دفاعی معاہدہ خلیج کے خطے میں پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا ہے‘ خاص طور پر نو ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد۔ یہ ایک محرک ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر ہم سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں تو سعودی اسرائیل کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہیں اور ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ حماس یا حزب اللہ کو سعودی عرب میں جگہ دیں گے۔ اس لیے سعودی عرب پر اسرائیلی فضائی حملے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطے کے ایک کلیدی سیاسی پلیئر کے طور پر سعودی عرب ہمیشہ اپنی داخلی اور خارجی سلامتی کے بارے میں حساس رہا ہے‘ خاص طور پر یمن میں خانہ جنگی کے تناظر میں۔ سرحد پار دہشت گردی بھی سعودی عرب کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج ہے۔ اگرچہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں‘ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی اور خطے کے سکیورٹی نقطہ نظر میں فرق برقرار ہے۔
داخلی اور خارجی سلامتی کے فوری خدشات کے علاوہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نئے سکیورٹی بندوبست کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں پاکستان اور سعودی عرب کا تعاون کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی تاریخ 1966-67ء سے شروع ہوتی ہے جب ایوب خان کے دورِ حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا فوجی تربیتی معاہدہ ہوا تھا۔ سعودی فوجی اہلکار پاکستان کے فوجی تربیتی اداروں میں آنے لگے اور پاکستانی فوجی اہلکاروں کو سعودی عرب میں تربیتی ذمہ داریاں دی گئیں‘ یہ سب 1971ء سے پہلے کے دور میں ہوا۔
سعودی عرب نے نومبر‘ دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے لیے سفارتی اور مالی مدد فراہم کی۔ سعودی عرب نے فروری 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد میں بھی سہولت فراہم کی تاکہ بعد از 1971ء پاکستان کے لیے مسلم ممالک کی حمایت ظاہر کی جا سکے۔ سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے اس کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کے اخراجات کا بڑا حصہ برداشت کیا۔ بھٹو کے دورِ حکومت (1971-1977ء) میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تربیتی پروگرام پاکستان اور سعودی عرب‘ دونوں جگہ جاری رہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے سکیورٹی تعلقات جنرل ضیاالحق کے دورِ حکومت میں نئی بلندیوں تک پہنچے۔ 1979ء میں تین واقعات نے سعودی عرب کے خطرے کے تصور کو بدل دیا: فروری میں ایران کا اسلامی انقلاب‘ نومبر میں خانہ کعبہ میں دہشت گردوں کی یلغار اور دسمبر کے آخر میں سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت‘ جو فروری 1989ء تک جاری رہی۔ سعودی عرب نے داخلی سلامتی کے لیے پاکستان کی فوجی مدد طلب کی۔ پاکستانی فوجی سعودی عرب بھیجے گئے تاکہ حرمین شریفین کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد سے کچھ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تربیت اور فعال سکیورٹی ڈیوٹی کے لیے بھی موجود رہے‘ اگرچہ ان کی تعداد وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی۔ 2021-22ء میں سعودی عرب میں تقریباً 800 پاکستانی فوجی موجود تھے۔
پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغان اسلامی مزاحمتی قوت کو سوویت افواج کے خلاف تربیت دی۔ سعودی عرب نے اس اقدام کی حمایت کی اور جنرل ضیاالحق کی پاکستان میں اسلامی قدامت پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دینے کی پالیسی کی تائید کی۔ 1982ء میں جب پاکستان نے امریکہ سے ایف16 طیارے حاصل کیے تو سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی تاکہ پاکستان ان طیاروں کی پہلی قسط ادا کر سکے۔ پاکستان کی سعودی عرب میں فوجی تعیناتی کا بنیادی اصول یہ تھا کہ پاکستانی فوجی مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی سرحدوں کے اندر سکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔ وہ سعودی عرب کی سرحدوں سے باہر کسی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں گے۔ پاکستان نے 2015ء اور 2018ء میں یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ فوجی بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
نیا باہمی دفاعی معاہدہ دونوں ملکوں کے سکیورٹی مفادات کے لیے سودمند ہے۔ اس سے سعودی عرب کی سلامتی مضبوط ہو گی کیونکہ سعودی عرب میں پاکستان کی انتہائی پیشہ ور اور منضبط فوج موجود ہو گی۔ فوجیوں کی مشترکہ تربیت اور مشقیں دونوں ممالک کے علم اور مہارت کو اَپ ڈیٹ کرنے میں مدد دیں گی۔ پاکستان کو سعودی عرب کے پاس جدید امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو گی۔ یہ بھی امکان ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو چین اور دیگر ممالک سے اسلحہ اور جنگی طیارے حاصل کرنے کے لیے مالی مدد بھی فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ چین کے مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ کو بھی پاکستان کے ذریعے مضبوط کرتا ہے۔ مگر اس معاہدے کا اصل امتحان اس وقت ہو گا جب کوئی پاک بھارت جنگ چھڑ جائے۔
سعودی عرب کے ساتھ سکیورٹی میں شراکت کے ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں غیرضروری مداخلت سے گریز کرے۔ اسے عرب دنیا کے داخلی تنازعات میں سفارتی اور عسکری سطح پر براہِ راست شامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں ''دوستی‘‘ اور ''کدورت‘‘ مستقل نہیں ہوتیں۔
بھارت اور مغربی سیاسی تجزیہ کاروں کا ایک طبقہ اس معاہدے پر تنازع کھڑا کیے ہوئے ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے جوڑ رہا ہے۔ وہ اسرائیل اور امریکہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کیلئے اسرائیل کی ایٹمی اور روایتی برتری کے خلاف ڈھال کے طور پر دستیاب ہے۔ پاکستان کو اس تاثر کے پیدا ہونے سے بچنا چاہیے۔ اسے زور دینا چاہیے کہ اس کا ایٹمی پروگرام کسی ملک کو دھمکانے کیلئے نہیں‘ نہ ہی عالمی سطح پر کسی سٹیٹس کے حصول کے لیے۔ یہ صرف بھارت کی فوجی مہم جوئی کو روکنے کیلئے ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو وسیع تر علاقائی اور عالمی سیاق و سباق میں پیش نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھنے چاہئیں تاکہ ایرانی قیادت کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات باہمی مفاد کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے۔ باہمی دفاعی معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف بیرونی فوجی خطرات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ داخلی دہشت گردی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی ہے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی خود مختاری برقرار رکھتے ہوئے دیگر اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ ہم آہنگ تعلقات قائم رکھے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved