عربوں کی قدیم تاریخ میں بڑے بڑے اسمائے گرامی ملتے ہیں جن کے کارنامے تاریخ میں یادگار تھے۔ بعض شخصیات تو ایسی تھیں کہ اپنے دور ہی نہیں‘ تاریخ کے ہر دور میں ان کی خوبیاں ضرب المثل بن کر زندہ رہیں۔ ان میں بطور صفت شعر وشاعری کا کمال بھی بیان کیا جاتا ہے‘ حرب وضرب کے کارنامے‘ صدقاتِ خیریہ وجاریہ‘ فیاضی ومہمان نوازی‘ صلہ رحمی اور غریب پروری‘ غرض ہر نوع اور ہر میدان کی خوبیاں اس تاریخی البم اور شہرت کا حصہ ہیں۔ عربوں کے ہاں اور دیگر تمام اقوام میں اور ہر زبان میں جس شخص کا سب سے زیادہ نام لیا جاتا ہے وہ ایک فیاض وسخی مرد اور بڑے سردار حاتم طائی کا نام ہے۔ کسی بھی شخص کی بے پناہ فیاضی کا تذکرہ کرنا ہو تو حاتم طائی کا نام استعمال ہوتا ہے جو اس میدان کا استعارہ بن چکا ہے۔
یہ شخص مشہور قبیلہ بنو طے کا سردار تھا جس کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ حاتم طائی نے اسلام کا زمانہ نہ پایا اور آنحضورﷺ کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔ البتہ ان کے بیٹے اور جانشین عدی بن حاتم خوش نصیب تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کا دور پایا اور کئی منزلوں اور بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے آخر چشمۂ رشد وہدایت پر پہنچ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔ ان کے قبولِ اسلام کے واقعات بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہیں۔ نبی پاکﷺ نے مدینہ آمد اور قبولِ اسلام سے قبل بھی ان کی بڑی تکریم فرمائی۔ آپﷺ نے ہمیشہ اپنے حسنِ خلق اور کریمانہ رویوں سے انسانی دلوں کو فتح کیا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ آپﷺ ہر شخص کی خوبیوں کو جانتے اور ان کی قدر کیا کرتے تھے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ''خیار کم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذ فقھوا‘‘ (صحیح بخاری) یعنی جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں شریف اور بہتر اخلاق کے تھے‘ وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور شریف ہیں‘ بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔ یہ حدیث اس حقیقت کا اظہارِ مبین ہے۔
حضور اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس سے کئی کافر شدید نفرت اور بغض رکھتے تھے۔ بعض تو اسی حالت میں دنیا سے چلے گئے اور دائمی جہنم کا ایندھن بن گئے جبکہ بعض خوش نصیب نفوس کو اللہ تعالیٰ نے اس نفرت کی بیماری سے نکال کر ہدایت کی شفا بخشی اور ان کے دل حبِ رسول سے ایسے مالا مال ہوئے کہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ان کو رسولِ رحمتﷺ محبوب ہو گئے۔ یہ قلبِ ماہیت اللہ کے فیصلوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ عدی بن حاتم طائی کے متعلق مجھ تک جو روایات پہنچی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ قبل اسلام وہ رسول اللہﷺ سے حددرجہ نفرت کرتے تھے۔ خود ان کا بیان ہے کہ میں نے دین عیسائیت اختیار کر لیا تھا اور میں اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ میرا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں جیسا تھا۔ بنو طے سے مالِ غنیمت اور باغات کی پیداوار کا چوتھا حصہ مجھے ملتا تھا‘ اسی پر شاہانہ گزر بسر تھی۔ میں اپنے مذہب کو سچا مذہب گردانتا تھا اور اپنی حکمرانی پر بہت نازاں تھا۔ مجھے کسی قسم کا غم اور فکر نہ تھا۔ وقت گزرتا گیا‘ یہاں تک کہ کسی نے مجھے محمد بن عبداللہ (ﷺ) کے بارے میں بتایا۔ ان کا نام سنتے ہی مجھے ان سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جب مدینہ سے ان کی فوجیں گرد ونواح کے علاقوں میں نکلنے لگیں تو مجھے فکر دامن گیر ہوئی۔ میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا: تیرا بھلا ہو میرے لیے موٹے تازے تیز رفتار اونٹوں کا ایک گلہ تیار رکھنا۔ جونہی مدینہ کے لشکروں کی خبر پہنچے مجھے فوراً مطلع کر دینا‘‘۔ میرا یہ غلام میرے اونٹوں کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔ میری ہدایات کے مطابق اس نے اونٹ تیار کر لیے تھے۔ ایک دن علی الصباح وہ بھاگتا ہوا میرے پاس پہنچا اور کہا: ''مدینہ کے لشکروں کی آمد پر تم کچھ کرنا چاہتے تھے‘ سو وہ تو آ گئے ہیں۔ میں نے دور سے کچھ جھنڈے دیکھے ہیں اور جب پوچھا تو کسی نے بتایا کہ یہ افواجِ محمد ہیں۔ اب جو کرنا ہو‘ کر لو‘‘۔
انسان تدبیر کرتا ہے‘ تقدیر اسے بے اثر کر دیتی ہے۔ انسان منصوبے بناتے ہیں مگر منصوبہ اللہ ہی کا چلتا ہے جس کا توڑ کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ عدی مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے غلام سے کہا: میرے اونٹ جلدی حاضر کرو۔ جب اونٹ آگئے تو میں نے جلدی جلدی ضروری سامان لیا اور اہل وعیال کو اونٹوں پر بٹھایا اور شام کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ شام میں میرے ہم مذہب عیسائیوں کی حکومت ہے‘ ان سے جا ملوں گا۔ اس بھگدڑ میں میری بہن سفانہ بنت حاتم پیچھے رہ گئی۔ روانگی کے وقت وہ کہیں کسی ضروری کام سے آگے پیچھے چلی گئی تھی۔ میں بادلِ حزین بہن کو چھوڑ کر شام چلا گیا۔ یوں تو میں وہاں بالکل محفوظ ومامون تھا مگر بہن کی جدائی نے میری نیندیں حرام کر دی تھیں۔ میں ہر وقت سوچتا رہتا کہ اب کیا کروں مگر کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ اس طرح زندگی ایک وبال بن کر رہ گئی تھی۔
سردارِ قبیلہ تو اسلامی فوجوں کی آمد سے پہلے ہی بھاگ گیا تھا۔ جب جنگ ہوئی تو بنو طے مقابلہ نہ کر سکے۔ رسول اللہﷺ کے روانہ کردہ لشکر نے بنو طے کو شکست دی اور ان کے مال مویشی پکڑ لیے‘ بہت سی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اکثر مرد میدانِ جنگ سے بھاگ گئے۔ جنگی قیدی مدینہ لائے گئے۔ حضور اکرمﷺ کو عدی بن حاتم کے شام کی طرف بھاگ جانے کی اطلاع مل گئی تھی۔ بنو طے کے ان قیدیوں کو مسجد کے قریب ایک احاطے میں رکھا گیا جو ایک انصاری صحابیہ کی وسیع عریض حویلی تھی۔ عدی کی بہن بھی ان اسیرانِ جنگ کے ساتھ قید تھی۔ سب قیدیوں کا اسلامی آداب کے مطابق پوری طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ سب کو مناسب کھانا کھلایا جاتا تھا۔
رات گزری تو اگلے دن رسول اللہﷺ وہاں سے گزرے‘ آپﷺ نے سب قیدیوں کا معائنہ فرمایا اور ان کو فراہم کردہ سہولتوں کو دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا۔ آپﷺ کو دیکھ کر سفانہ بنت حاتم طائی کھڑی ہو گئی۔ وہ بڑی جرأت مند‘ ذہین اور فصیح زبان عورت تھی۔ اس نے کہا: ''اے سردارِ قریش میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور سرپرست بچھڑ گیا ہے۔ آپ مجھ پر احسان فرمائیں‘ اللہ آپ پر احسان فرمائے گا‘‘۔ پہلے روز آپﷺ کوئی جواب دیے بغیر واپس تشریف لے گئے۔ عدی کو بعد میں یہ سب واقعات اپنی بہن کی زبانی معلوم ہوئے اور وہ خود ان کو بیان کیا کرتے تھے۔
عدی بن حاتم کا بیان تاریخ میں یوں نقل ہوا ہے: ''رسول اللہﷺ نے میری بہن سے پوچھا: تمہارا والد کون ہے؟‘‘ اس نے کہا: ''حاتم بن عبداللہ بن سعد طائی‘‘۔ آپﷺ نے پوچھا: ''تیرا سرپرست کون ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''عدی بن حاتم‘‘۔ رسول پاکﷺ نے پوچھا: کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے دور دور بھاگتا ہے؟ یہ کہہ کر آپ مزید کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ دوسرے روز پھر نبی پاکﷺ قیدیوں کے پاس سے گزرے۔ بنت حاتم نے ان سے پھر وہی بات کہی جو پہلے دن کہہ چکی تھی۔ آپﷺ نے اپنا وہی جواب دہرایا۔ بنت حاتم کہتی ہیں کہ جب تیسرا دن ہوا اور آپﷺ قیدیوں کے پاس آئے تو میں مایوس ہو چکی تھی اورکچھ کہنا نہیں چاہتی تھی مگر حضور پاکﷺ کے پیچھے پیچھے ایک شخص چلا آ رہا تھا‘ اس نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں اپنا معاملہ پیش کروں؛ چنانچہ میں اس ہمدردانہ مشورے سے ہمت پاکر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی درخواست دہرائی۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved