تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     24-09-2025

کوئی احساسِ ایڈونچر ہونا چاہیے

دنیا دیکھی نہیں جتنی دیکھنی چاہیے تھی۔ اب دل کرتا ہے کہ اپنے ذاتی معاملات اس طرح سلجھائے جائیں کہ یہاں کے کام چلتے رہیں اور ہم وقتاً فوقتاً دنیا کی سیر کو نکلیں۔ کتنی بار ارادہ کیا کہ اندرونِ سندھ کو دیکھنے چلیں۔ سکھر جائیں ایک دو روز دریائے سندھ کے کنارے قیام ہو اور پھر بھٹ شاہ اور سیہون شریف کی زیارت کی جائے۔ ایک ہی دفعہ سیہون جانا ہوا‘ تقریباً 45 سال پہلے اور ارادہ باندھنے کے باوجود پھر جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ بھٹ شاہ بھی ہو آئے ہیں لیکن وہ بھی ایک دفعہ۔ ایک بکسا ہو جس میں پہننے کے لیے کچھ جوڑے اور کچھ کتب۔ پیسے کا ظاہر ہے کچھ بندوبست ہو اور آدمی بس سفر پر نکل پڑے۔
جوانی کے ایام تھے اور روس میں اڑھائی سال گزرے۔ کتنی بار سوچا کہ پھر جانا چاہیے لیکن کاہلی سمجھیے کہ پھر وہاں کے سفر کا ارادہ نہ بندھ سکا۔ اب جی کرتا ہے کہ اسلام آباد سے تاشقند جایا جائے‘ وہاں سے سمرقند اور بخارا کا سفر ہو اور پھر بذریعہ ٹرین ماسکو کی طرف روانہ ہوا جائے۔ ہمارے زمانے کا ماسکو کچھ اور لگتا تھا اب تو بہت تبدیلیاں آ گئی ہوں گی۔ لیکن کچھ گزارے کی روسی بول لیتے ہیں اور وہاں تین چار روز قیام ہو جائے تو کتنا اچھا لگے۔ ہمارے سفارت خانے کے قریب ہی کالینِن سَکی پراسپیکٹ یعنی سڑک ہوا کرتی تھی‘ یقینا اب نام تبدیل ہو گیا ہو گا۔ سٹالن کے زمانے میں کالینِن سوویت یونین کے نمائشی صدر ہوا کرتے تھے اور انہی کے نام پر اس سڑک کا نام رکھا گیا۔ وہاں ایک ریستوران ارباط ہوا کرتا تھا جہاں پر ہمارا اکثر جانا ہوتا۔ مختصر سا ڈانس ہوتا تھا‘ لائیو بینڈ تو ماسکو کے ہر ریستوران میں موجود ہوتا اور اسی کی دھنوں پر فلور پر آ کر لوگ ڈانس وغیرہ کر لیا کرتے تھے۔ تب کا روس نہایت ہی سستی جگہ تھی اور دکانوں میں یا بڑے ریستورانوں میں مشروبات کی قیمت ایک سی ہوتی۔ ہماری تنخواہ ڈالروں میں ہوتی تھی‘ بلیک مارکیٹ میں کچھ ڈالر تبدیل کیے جاتے تو ڈھیروں روبل مل جاتے۔ بلیک مارکیٹ میں ڈالروں کے بیچنے سے ہمارا اچھا خاصا گزارا ہو جاتا اور شہزادوں کی زندگی رہنے کی استطاعت میسر ہو جاتی۔
کیوی آر (Caviar) سٹرجن مچھلی کے انڈے ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں کیوی آر کو ایک سپیشل چیز سمجھا جاتا ہے۔ لندن یا نیویارک کے کسی ریستوران میں کیوی آر کا آپ آرڈر کریں تو جیب خالی ہو جائے لیکن ان سستے زمانوں میں اور ڈھیروں روبل جیب میں ہونے کے ناتے کیوی آر ہمارے لیے عام سی چیز تھی اور بلاجھجھک کسی ریستوران جاتے تو اس کا آرڈر کر ڈالتے۔ ایک مثال ہے کہ ان گزرے ہوئے دنوں میں روس میں چیزیں کتنی سستی دستیاب تھیں۔ سٹالن کے زمانے سے ڈبل روٹی کی وہی قیمت چلی آ رہی تھی‘ تیرہ پیسے۔ روس کے ایک کونے سے لے کر دوسرے تک تیرہ پیسے سے ڈبل روٹی کا ایک لوف آپ کو مل جاتا۔ دودھ مکھن دہی‘ اور سارے خالص‘ کچھ ان میں دو نمبری نہیں‘ وہ بھی سستے داموں ملتے تھے۔ البتہ سرکاری دکانوں میں اچھا گوشت نایاب ہوتا۔ کسانوں کی پرائیویٹ مارکیٹیں جو محدود تعداد میں شہر میں تھیں‘ سے اچھا گوشت مل جاتا لیکن وہاں قیمتیں کچھ زیادہ ہوتی تھیں۔
برانڈڈ کپڑوں کا اس پرانے روس میں کوئی تصور نہ تھا۔ جن روسیوں کو باہر کے ملک جانے کا موقع ملتا ظاہر ہے وہ اپنے لیے کچھ شاپنگ کر لیتے لیکن بالعموم روسی مرد اور عورتوں میں اتنا فیشن نظر نہ آتا۔ اب بات اور ہے‘ کمیونسٹ نظام کے ختم ہونے کے بعد اور سرمایہ داری نظام کے اجرا سے ہر برانڈڈ چیز روسی شہروں میں ملتی ہے۔ لیکن سچ پوچھیں اڑھائی سالوں میں اس نظام سے میں مانوس ہو گیا تھا جس میں ایک قسم کی برابری نظر آتی تھی اور جس میں پیسے کا زیادہ شو نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان میں ہم نے یہ کیا نظام بنایا ہے کہ کہیں کہیں پیسے اور دولت کا طمطراق اور اس کے علاوہ غربت اور لاچاری کا ایک سمندر۔ ہمارے جیسے ملک میں ہمیں شاپنگ مالوں اور بڑی گاڑیوں کی تو ضرورت نہ تھی۔ جیسی دکانیں یہاں ہوتی تھیں ایسے ہی نظام چلتا‘ ہاں تعلیم اور صحت پر کچھ زور دیا جاتا۔ ایسا ہم کر نہ سکے اور بس ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنے آپ کو یہاں پہنچا دیا جہاں قرض کی مے کیا ہر چیز ہی قرض پر لیتے ہیں اور پھر قرض سے لیے گئے ساز وسامان پر اتنا اتراتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ اس پرانے روس کے شہروں میں آپ ایک بار بس پر چڑھے تو سفر جتنا بھی کرنا ہوتا کرایہ پانچ پیسے ہوتا۔ الیکٹرک بسوں کا کرایہ چار پیسے ہوتا۔ یعنی ایک سٹاپ بعد آپ اترے ہیں یا بیس سٹاپوں کے بعد‘ کرایہ وہی چار یا پانچ پیسے۔ اور سٹالن کا بنایا ہوا زیر زمین تیز رفتار ٹرینوں کا نظام جو اَب تک چل رہا ہے‘ اس کا کرایہ ان دنوں پانچ پیسے ہوتا۔ ان چیزوں پر ہمیں دھیان دینا چاہیے تھا لیکن انگریزوں کا دیا ہوا ریل کا نظام چلا نہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی بسیں ہم سے چل سکیں۔ یہ تو ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا ہے کہ لاہور میں ڈبل ڈیکر بس چلتی تھی‘ مال اور گلبرگ کے درمیان آنا جانا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ انگریزوں کا کوئی کمیونسٹ نظام نہ تھا لیکن نظم ونسق کی ان میں خوب صلاحیت تھی۔ ہم ایٹم بم بنا گئے اور اچھا کیا اور اسی طفیل آج سعودی عرب کے محافظ بننے چلے ہیں لیکن ٹرینیں اور سرکاری بسیں ہم سے نہ چل سکیں۔ کوئی تو دریافت کرنے کی کوشش کرے کہ ایسا کیوں ہے۔
اس پرانے روس کی ایک اور خاصیت بتاتا چلوں۔ پورے ملک میں ایک کونے سے لے کر دوسرے تک ایک ہی قسم کی آئس کریم ملتی لیکن تھی لاجواب۔ باہر چھوٹی ریڑھیوں پر وہ آئس کریم ملتی اور بڑے سے بڑے ریستوران میں بھی وہی آئس کریم ہوتی۔ اور ریستوران کے باہر اور اندر قیمت ایک ہی ہوتی۔ پچھلے دنوں ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس سے پتا چلا کہ سٹالن کے زمانے میں روسیوں کو خبر ہوئی کہ امریکہ میں بڑی اچھی آئس کریمیں دستیاب ہیں۔ سٹالن نے حکم دیا کہ یہاں بھی اچھی آئس کریم ہونی چاہیے‘ لہٰذا ایک کمیٹی بیٹھی اور اس نے فیصلہ کیا کہ آئس کریم میں اتنی کریم ہو‘ اتنا میٹھا اور اتنا وغیرہ وغیرہ۔ اسی فارمولے پر وہ آئس کریم بننا شروع ہوئی اور جیسے عرض کیا پورے روس میں وہی ایک آئس کریم ملتی۔ مضمون سے پتا چلا کہ ریڈ سکویئر کے ملحقہ جو مشہورِ زمانہ گوم سٹور ہے اس میں آج بھی وہ آئس کریم ملتی ہے اور اس کے کھانے کے لیے لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ ہاں تو دل کرتا ہے کہ روس کا دورہ کیا جائے تاکہ کچھ پرانی یادیں اجاگر ہوں لیکن جائیں تو مسئلہ یہ بنے گا کہ پیسے اچھے خاصے لے کر جانے پڑیں گے۔ دس بیس ہزار ڈالر ہوں تب ہی کسی اچھے انداز سے وہاں کی زیارت ہو سکے لیکن اتنی رقم کہاں سے آئے۔ یہی تو ہمارا مسئلہ ہے کہ اس عمر میں بھی اتنے جھمیلے ہیں‘ یہ دیکھو‘ فلاں بچے کی وہ ضرورت پوری کرو‘ کہ جو دن اب ایڈونچر میں گزرنے چاہئیں وہ ہم کوہلو کے بیل کی طرح وہی پرانے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔
ڈر تو یہ ہے کہ روزِ محشر کے سوال جواب کے وقت یہ نہ پوچھا جائے کہ کہاں اپنا وقت برباد کرتے رہے۔ اتنا کچھ دیکھنے کو تھا اور بس اپنے کونے میں بیٹھے رہے۔ اب کبھی کبھی چنگاری بھڑکتی ہے کہ کاہلی کا کمبل ایک طرف کیا جائے اور دنیا کی سیر کو نکلیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved