عام طور پر امن کو صرف روایتی جنگ یا مسلح تصادم کی غیر موجودگی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت میں امن کا تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ حقیقی امن کا مطلب انصاف‘ مساوات اور احتساب (Accountability) ہے۔ جنگ بندی وقتی طور پر تو بندوقوں کو خاموش کر سکتی ہے لیکن جب تک بدامنی کی اصل وجوہات کا تدارک نہ کیا جائے یہ تنازعات بار بار سر اٹھاتے ہیں۔ غربت‘ ناانصافی‘ محرومی اور ماحولیاتی بگاڑ محض سماجی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ عدم استحکام کو بھی ہوا دیتے ہیں۔ یوں تنازعات الگ تھلگ جنم نہیں لیتے بلکہ یہ اکثر انسانی ضروریات کی عدم تکمیل‘ کمزور حکمرانی اور نظام کی ناانصافی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ امن کے کئی دائرے ہیں‘ یہ باطنی سکون سے شروع ہوتا ہے‘ دوسروں کے ساتھ تعلقات تک پھیلتا ہے اور پھر ماحول کے ساتھ ہم آہنگی تک وسعت اختیار کرتا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ سرحدی جھڑپیں بستیوں کو اجاڑ دیتی ہیں‘ جنگیں انفراسٹرکچر تباہ کرتی ہیں‘ ماحولیاتی زوال وسائل کی کمی پیدا کرتا ہے اور یہ کمی مزید تنازعات کو جنم دیتی ہے۔ غربت اور سماجی ناہمواری مایوسی کو گہرا کر کے تشدد کے سفر کو جاری رکھتی ہے۔ یوں امن پائیدار ترقی کے لیے بنیادی شرط ہے۔ کوئی معاشرہ جس میں تشدد یا بدامنی ہو وہاں ترقی جڑ نہیں پکڑ سکتی۔ پائیدار ترقی کے مقصد نمبر 16 (امن‘ انصاف اور مضبوط ادارے) کا اصل پیغام یہی ہے کہ امن اور سلامتی اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہیں جو ترقیاتی ایجنڈے کا مرکز ہیں۔
کئی سالوں تک ترقی کو صرف اعداد و شمار سے ماپا جاتا رہا: فی کس آمدنی‘ جی ڈی پی‘ شرح خواندگی اور داخلوں کی شرح۔ یہ اشاریے اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن کہانی کا صرف ایک رُخ دکھاتے ہیں۔ ایک ملک میں معاشی ترقی تو تیز ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں کہ اس کے اثرات عام لوگوں تک بھی پہنچ رہے ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ملک کی دولت چند افراد کے قبضے میں ہوتی ہے اور عوام غربت‘ محرومی اور بنیادی آزادیوں کی کمی میں جکڑے رہتے ہیں۔ معروف ماہر معاشیات امرتیا سین (Amartya Sen) نے ڈویلپمنٹ کے اس محدود اور گمراہ کن تصور کو چیلنج کیا۔ Development as Freedom نامی اپنی کتاب میں امرتیا سین نے کہا کہ حقیقی ترقی کا مطلب لوگوں کی آزادیوں اور صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔ امرتیا سین کے مطابق معاشی آزادی‘ سماجی آزادی‘ سیاسی آزادی‘ شفافیت اور تحفظ سب ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ یوں ڈویلپمنٹ محض دولت پیدا کرنے کا نام نہیں بلکہ لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے‘ انتخاب کرنے اور اپنا مستقبل سنوارنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ سوچ کا یہ زاویہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تعلیم صرف داخلوں کی گنتی نہیں بلکہ سیکھنے کا معیاری عمل ہے۔ صحت صرف ہسپتالوں کا نام نہیں بلکہ انصاف پر مبنی رسائی ہے۔ سیاسی نظام صرف انتخابات کا نام نہیں بلکہ احتساب‘ شفافیت اور انصاف کا ضامن ہے۔ امن ترقی کی بنیاد بھی ہے اور اس کا نتیجہ بھی۔ اگر انصاف اور شمولیت نہ ہو تو امن کمزور رہتا ہے۔ امن کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے کو ناہمواری کم کرنے پر مسلسل کام کرنا ہوتا ہے۔ صنفی فرق‘ طبقاتی تقسیم‘ علاقائی محرومی‘ فرقہ واریت‘ ذات پات اور نسلی تعصب سب سماجی یکجہتی کے راستے کی رکاوٹیں ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے محض پالیسی کافی نہیں بلکہ ایسا معاشرہ درکار ہے جہاں خوشحالی کے ساتھ ساتھ انصاف کی بھی ضمانت ہو۔
جب لوگ خود کو محروم یا نظر انداز محسوس کرتے ہیں تو امن کے امکانات مدہم پڑ جاتے ہیں‘ لیکن جب معاشرہ عزت‘ مساوات اور مواقع کی ضمانت دے تو امن کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ امن کو وسیلہ (Means) اور مقصد (Product) دونوں کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ وسیلہ اس لیے کہ یہ تعلیم‘ ترقی اور خوشحالی کو ممکن بناتا ہے۔ مقصد اس لیے کہ یہ ایک عادلانہ معاشرے کی تصویر ہے جہاں شہری خوف اور محرومی سے آزاد زندگی گزار سکیں۔ برنڈٹ لینڈ کمیشن (Brundtland Commission)کی پائیدار ترقی کی مشہور تعریف آج بھی اس حوالے سے رہنمائی کرتی ہے جس کے مطابق پائیدار ترقی ایسی ترقی ہے ''جو موجودہ ضروریات پوری کرے لیکن آئندہ نسلوں کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت کو متاثر نہ کرے‘‘۔ یہ تصور تین باہم منسلک ستونوں پر کھڑا ہے: معاشی ترقی‘ ماحولیاتی تحفظ اور سماجی انصاف۔ معاشی ترقی پیداوار‘ روزگار اور ذریعۂ معاش فراہم کرتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ ماحولیاتی نظام‘ حیاتیاتی تنوع اور وسائل کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔ سماجی انصاف شمولیت‘ تعلیم‘ صحت‘ صنفی مساوات اور انسانی حقوق کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ستون الگ الگ نہیں چل سکتے۔ ایسی معاشی ترقی جو ماحول کو نقصان پہنچائے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ایسا ماحولیاتی تحفظ جو سماجی انصاف کو نظر انداز کرے‘ نفرت کو جنم دیتا ہے۔ ایسا سماجی انصاف جس کے پیچھے ذریعۂ معاش نہ ہو‘ دیرپا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے پائیدار ترقی کے لیے توازن ضروری ہے۔ ایک پہلو میں ترقی دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر کے قائم نہیں رہ سکتی۔ اس ویژن میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم صرف نوکریوں کا راستہ نہیں بلکہ آزادیوں کو وسعت دینے کا ذریعہ ہے۔ یہ افراد کو سوچنے‘ سوال کرنے‘ جدت پیدا کرنے اور سماج میں حصہ ڈالنے کے قابل بناتی ہے۔ جب تعلیم انصاف اور شمولیت (Inclusion) کے ساتھ ہو تو یہ ناہمواری کم کرنے کا مؤثر ہتھیار ہے۔ لیکن جس معاشرے میں لوگوں کے لیے تعلیم کے مواقع محدود ہوں وہاں ناانصافی اور محرومی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
پائیدار امن اور ترقی کا انحصار منصفانہ اور شمولیتی تعلیمی نظام پر ہے۔ سکول اور جامعات صرف علم منتقل نہ کریں بلکہ تنقیدی سوچ‘ ہمدردی اور شہری ذمہ داری کو فروغ دیں۔ امن اور ترقی کا ویژن بالآخر ایک عادلانہ معاشرے کا خواب ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو آزادی کو اہمیت دیتا ہے‘ کمزوروں کا تحفظ کرتا ہے اور آئندہ نسلوں کو کمی اور تنازع کے بجائے مواقع اور امید ورثے میں دیتا ہے۔ امن محض ایک خواب نہیں بلکہ عملی‘ قابلِ حصول اور لازمی ہے۔ یہ پائیدار ترقی کی بنیاد بھی ہے اور اس کا نتیجہ بھی۔ امن کے بغیر ترقی برقرار نہیں رہ سکتی۔ ترقی کے بغیر امن قائم نہیں رہ سکتا۔ جب ہم عالمی چیلنجوں موسمیاتی تبدیلی‘ ناہمواری‘ ہجرت اور تنازعات کا سامنا کرتے ہیں تو امن اور ترقی کا تعلق اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ نعرے کافی نہیں‘ ہمیں ایسے نظام بنانا ہوں گے جو سب کے لیے انصاف‘ احتساب اور عزت کو یقینی بنائیں۔ صرف اسی صورت میں ہم ایسا معاشرہ تعمیر کر سکیں گے جو انصاف کی بنیاد پر استوار ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved