نیویارک میں اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر‘ جہاں کبھی امریکی طاقت کے فیصلے حرفِ آخر سمجھے جاتے تھے‘ اُس دوپہر کو ایک لرزتی ہوئی زمین بن چکا تھا۔ وہی سرزمین جہاں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قراردادیں بارہا ویٹو ہوتی رہیں‘ جہاں ٹرمپ جیسے صدور اسرائیلی مظالم کو ڈھکے چھپے یا کھلے عام جواز فراہم کرتے رہے‘ اسی عمارت کی دیواریں اب غزہ کے جلتے گھروں اور شہید بچوں کی حمایتی آوازوں سے گونج رہی تھیں۔ دنیا کے بے شمار ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ اس اعلیٰ سطحی کانفرنس میں یک زبان ہوکر ‘ کہہ رہے تھے کہ اب مزید انتظار نہیں! فلسطین کو اس کا حق دیا جائے اور خون کی یہ ہولی فوراً بند کی جائے۔ یہ کوئی پہلا اجلاس نہیں تھا‘ ماضی میں بھی اس مسئلے پر بات چیت ہوتی رہی ہے مگر اس بار ہر آواز پہلے سے کہیں زیادہ بلند‘ زیادہ دو ٹوک اور زیادہ فیصلہ کن تھی۔
ہال کے اندر درجنوں ممالک کے رہنماؤں نے غزہ میں ہونے والے قتلِ عام کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ترکیہ‘ انڈونیشیا‘ آسٹریا‘ اردن‘ برازیل‘ پرتگال‘ کینیڈا‘ بلجیم‘ آسٹریلیا‘ جرمنی‘ جاپان‘ روس‘ برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک کے وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ اپنا اپنا مؤقف پیش کر رہے تھے۔ فضا ایسی تھی کہ ہر جملہ اسرائیل کی سفاکی پر کاری وار تھا۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے اس اجلاس کو تاریخ کے نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے فرانس کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا: دنیا امن کے مقام سے محض چند لمحوں کی دوری پر ہے‘ اگر اب بھی عالمی برادری نے فیصلہ نہ کیا تو یہ موقع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ صدر میکرون نے غزہ کی جنگ کو ناقابلِ جواز اور شرمناک قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے اسرائیلی عوام کے حقوق پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ یہ وہ الفاظ تھے جو اسرائیل کے سفارتی قلعے کی دیواروں سے زلزلہ بن کر ٹکرا رہے تھے۔
یہ اعلان محض ایک تقریر نہیں بلکہ برسوں سے اسرائیلی پالیسیوں کے لیے ڈھال بنے عالمی نظام کے منہ پر طمانچہ تھا۔ اس وقت تک 155 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں‘ اور فرانس جیسے بڑے یورپی ملک کے اس اقدام نے اس فہرست کو مزید وزنی بنا دیا۔Andorra‘ آسٹریلیا‘ بلجیم‘ لکسمبرگ‘ مالٹا‘ مراکش‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور سان مارینو جیسے ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں اور اب فرانس کے اس فیصلے نے اسرائیلی جارحیت اور سفارتی تنہائی کو مزید واضح کر دیا ہے۔
یہ سب کچھ امریکی سرزمین پر ہونا خود اس بات کی ایک بڑی علامت تھی کہ دنیا اب فلسطین کے معاملے پر اسرائیلی پروپیگنڈا کو اہمیت نہیں دے رہی۔ وہی امریکہ جس کے ایوانوں سے ہمیشہ اسرائیل کے حق میں گھن گرج سنائی دیتی تھی‘ آج اس کی زمین پر بیٹھ کر دنیا نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف متفقہ آواز بلند کی۔ اجلاس میں موجود امریکی صحافیوں اور کانگریس کے کئی اراکین سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی یہی سننے کو ملا کہ اب امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ یہ وہ ملک ہے جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا اسرائیلی قبضے کو مضبوط کرنے کی باتیں کیں‘ مگر اب اسی ملک کے بااثر لوگ فلسطین کے حق میں فیصلہ کن لہجہ اختیار کر رہے ہیں۔
کانفرنس میں شریک رہنماؤں میں ترکیہ کے وزیراعظم‘ انڈونیشیا کے صدر و دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے بھی کہا کہ اس مسئلے کو مزید ٹالنا انسانی ضمیر کی توہین ہے۔ ان سب کا مؤقف ایک ہی تھا کہ فلسطین کی آزادی اور دو ریاستی حل کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن محض خواب ہے۔ ہر ملاقات‘ ہر بیان اسرائیل کے لیے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آ رہا تھا‘ لیکن اس تاریخی منظر کے بیچ پاکستان کا طرزِ عمل شرمندہ کر دینے والا تھا۔ کانفرنس میں سپیکرز کی فہرست میں دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے نام درج تھے۔ کل 33 ممالک تھے لیکن ان میں پاکستان کا نام موجود نہیں تھا۔ پاکستان‘ جو ہمیشہ سے فلسطین کے مقدمے کا سب سے بڑا وکیل رہا‘ اس موقع پر مکمل طور پر غائب تھا۔ میں اس کانفرنس کی کوریج کے لیے خود وہاں موجود تھا لیکن پاکستانی وفد کی حالت دیکھ کر دل بوجھل ہو گیا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بار بار کوریڈورز میں آتے جاتے دکھائی دیے۔ کبھی ایک دروازے سے نکلتے‘ کبھی دوسرے میں داخل ہوتے۔ ان کے ساتھ ان کی ٹیم کے کچھ اراکین بھی تھے‘ کوئی موبائل فون تھامے‘ کوئی پانی کی بوتل یا بیگ اٹھائے‘ مگر یہ تمام نقل و حرکت رسمی تھی۔ نہ ان کے پاس کوئی ایجنڈا تھا‘ نہ کوئی ملاقات کا شیڈول‘ نہ ہی کوئی تقریر۔ پانچ پانچ منٹ بعد ان کی بے مقصد چہل قدمی دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ خود بھی اپنی جگہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کا طیارہ تب نیویارک پہنچا جب کانفرنس اختتامی مرحلے میں تھی۔ دنیا اپنے بیانات تاریخ کے پتھر پر کندہ کر رہی تھی اور وطنِ عزیز کے نمائندے ہال کے باہر غلام گردش میں گھوم پھر رہے تھے۔ اس منظر نے وہاں موجود غیرملکی صحافیوں اور رہنماؤں کو بھی حیران کر دیا۔ کئی لوگوں نے سوال کیا کہ آخر پاکستان جو ہمیشہ فلسطین کا حامی رہا ہے‘ اس موقع پر خاموش کیوں ہے؟ کیا یہ محض انتظامی کوتاہی تھی یا کسی پالیسی کا حصہ؟ کوئی جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
یہ اجلاس محض ایک سفارتی تقریب نہیں بلکہ عالمی سیاست کا ایک کڑا امتحان بھی تھا۔ جہاں دنیا کے بڑے ممالک فلسطین کے حق میں تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہو رہے تھے‘ وہاں پاکستان کی خاموشی کئی سوال اٹھا رہی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قراردادوں اور جذباتی تقریروں سے آگے بڑھ کر عملی فیصلے کی ضرورت تھی‘ مگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا۔
غزہ کے تباہ شدہ گھروں سے اٹھتی چیخیں‘ بچوں کی لاشوں پر روتی مائیں اور دنیا کے ایوانوں میں فلسطین کے حق میں گونجتی آوازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی رائے عامہ اب اسرائیل کے خلاف کھل کر کھڑی ہو چکی ہے۔ فرانس کے صدر کا اعلان‘ درجنوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی دوٹوک تقاریر اور امریکی ایوانوں میں ابھرنے والی نئی سوچ اس بات کا اعلان ہے کہ اسرائیل کی طاقت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان اس تاریخی موقع پر خاموش رہا۔دنیا تاریخ رقم کر رہی ہے‘ مگر پاکستان نے صرف تماشائی بننے کا انتخاب کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved