تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-09-2025

ہمیں اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑے گی

آج کل ملکی اور عالمی تناظر میں جو بات سب سے زیادہ زیرِ بحث اور زیرِ تبصرہ ہے وہ پاکستان اور سعودی عرب میں ہونے والا دفاعی معاہدہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ معاہدہ دراصل ایک ایسے تصور کی ابتدا ہے جو مسلم اُمہ کے دل میں عرصہ دراز سے جاگزیں تھا۔ کچھ لوگ اسے مسلم بلاک کا ''نیٹو‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ میں ان تمام خیالات سے جزوی طور پر متفق ہوں مگر موجودہ عالمی تناظر میں جو حقائق ہمارے سامنے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اس معاہدے کی حقیقی صورتحال کچھ زیادہ روشن اور قابلِ عمل دکھائی نہیں دے رہی۔
خدانخواستہ میں اس معاہدے کے تصور اور مستقبل میں مزید ممالک کی اس میں شرکت کے امکان کو مسترد نہیں کر رہا۔میرا خیال‘جو ظاہر ہے محض میرا ذاتی خیال ہے اور سرا سر غلط بھی ہو سکتا ہے‘ تاہم مجھے جو دکھائی بھی دے رہا ہے اور سمجھ بھی آ رہا ہے وہ ویسا خوش کن اور روشن نہیں ہے جیسا لوگ اسے تصور کر رہے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اس چیز کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں یا میرے پڑھنے والے کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں‘ میں شرح صدر سے جس بات کو درست سمجھتا ہوں پوری سچائی اور خلوص سے لکھ دیتا ہوں۔ مجھے لکھتے ہوئے اس بات کی رتی برابر پروا نہیں ہوتی کہ اس سے کون شخص ناراض ہوگا یا کون سا ادارہ اسے ناپسند کرے گا۔حتیٰ کہ مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں کہ پیدا کردہ حالات کے تحت باقاعدہ ہدایت جاری نہ کرنے کے باوجود رائج الوقت ہدایت نامہ کیا کہہ رہا اور لکھنے والوں کو کس طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں کہ مجھے محض ''لا ئکس‘‘ لینے کیلئے یہ گوارا نہیں کہ میں عمومی رائے عامہ سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس لہر کے ساتھ بہنا شروع کر دوں جس میں اور بہت سے لوگ بہہ رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں اور مجھے اپنی رائے یا خیال پر اصرار بھی نہیں کہ یہ سو فیصد درست ہے تاہم مجھے یہ حق ضرور حاصل ہے کہ جسے میں درست سمجھتا ہوں اس کا برملا اظہار کروں اور وہی کچھ لکھوں جو میرے دل میں ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے اس دفاعی معاہدے کی تفصیل اور دیگر خدو خال تو ابھی اس کم علم لکھاری پر عیاں نہیں ہوئے تاہم سنی سنائی‘ اخباری خبریں پڑھنے اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے خیالاتِ عالیہ سے مستفید ہونے کی حد تک یہ عاجز جس نتیجے پر پہنچا ہے اسے سامنے رکھوں تو مختصر الفاظ میں یہ معاہدہ ہردوممالک کو جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاعی پارٹنر یا حصہ دار بناتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دوسرا ملک اپنے دفاعی پارٹنر پر حملہ کرنے والے کے خلاف اس جنگ میں اس کا عملی حصہ دار بن کر اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اس جارحیت کا جواب دے گا۔ یہ تو ہو گیا معاہدے کا مختصر جائزہ اور اب ہم اس جائزے کا مزید عملی جائزہ لیتے ہیں۔
فی الوقت پاکستان کو دو ممالک کی جانب سے اپنی سرحدوں پر پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہمارا روایتی دشمن بھارت ہے جو اس سے قبل کئی بار جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے بلکہ دس مئی کی تازہ ترین ہزیمت کے بعد اس کی جانب سے اس قسم کی حرکت کا آئندہ امکان نہ صرف یہ کہ ردّ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس عاجز کا اس بارے میں یقین کی حد تک خیال ہے کہ وہ ایسی حرکت دوبارہ بھی کرے گا اور شاید اب اس میں زیادہ دیر بھی نہ ہو۔ جہاں ایک طرف ہمیں اپنی جنوب مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے کسی بھی وقت جارحیت کا خطرہ ہے وہیں ہمیں اب نئی صورتحال کے حساب سے شمال مغربی سرحد پر واقع افغانستان سے دراندازی‘ دہشت گردی اور ٹولیوں کی صورت میں کیے جانے والے مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔ اگر دیکھیں تو یہ کھلی اور سرا سر جارحیت ہے جو موجودہ طالبان حکمرانوں کی ہلہ شیری اور اشیر باد سے جاری ہے۔ حملہ آوروں میں ٹی ٹی پی کے علاوہ افغان اور کالعدم بلوچ تنظیموں کے منصوبہ ساز اور عسکریت پسند دہشت گرد بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف اگر سعودی عرب کے معروضی حالات کو دیکھیں تو بظاہر اسے یمن کے علاوہ اور کسی ملک کی جانب سے براہِ راست حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرق وسطیٰ کے وہ تمام ممالک کو جو خود کو امریکی دفاعی چھتری تلے محفوظ و مامون خیال کر رہے تھے اب گھبرائے ہوئے ہیں اور وہ منہ سے بیشک نہ مانیں لیکن وہ دل ہی دل میں اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں امریکہ انہیں تسلی تو دے سکتا ہے مگر عملی طور پر نہ انکا دفاع کرے گا اور نہ ہی اسرائیل کو لگام ڈالے گا۔ عرب ممالک کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہو چکی کہ معاملہ اگر اسرائیل اور کسی عرب ملک کے مابین ہوا تو امریکہ بلا کسی شک و شبہ ایک سو ایک فیصد اسرائیل کیساتھ ہوگا۔ رہ گئی بات آپس میں تصادم کی تو امریکہ ہر فریق کو اپنا مزید اسلحہ فروخت کرنے کی غرض سے جنگ کو ہوا تو دے سکتا مگر کسی ایک عرب ملک کی خاطر دوسرے کی عملی دفاعی مدد کسی صورت میں نہیں کرے گا۔ ایسے میں سعودی عرب نے اپنے دفاع کیلئے سو فیصد امریکی انحصار کے بجائے پاکستان کو اپنے دفاعی نظام میں حصہ دار بنایا ہے اور امکانی طور پر سعودی عرب پر اسرائیلی‘ یمنی اور اب کسی حد تک خارج از امکان قسم کی ایرانی جارحیت کی صورت میں پاکستان سعودی عرب پر حملے کو خود پر حملہ تصور کرتے ہوئے سعودی دفاع میں عملی طور پر شریک ہو جائے گا۔
میرے خیال میں ایران کی طرف سے سعودی عرب پر حملے کا اب دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ ایران اپنے انقلاب کو ارد گرد ایکسپورٹ کرنے کے تصور سے دستبردار ہو چکا اور علاقائی صورتحال کے علاوہ حالیہ واقعات سے بہت سے سبق سیکھ چکا ہے۔ رہ گئی بات اسرائیلی حملے کی تو وہ امریکی اشیر باد کے بغیر ممکن نہیں اور میرا نہیں خیال کہ اس صورت میں پاکستان اس جنگ میں کود پڑے کہ ایسی صورت میں جزیرہ نما عرب میں امریکی اڈوں اور بحر ہند میں موجود امریکی بحری بیڑا براہِ راست پاکستان کو نشانہ بنائے گا۔ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت ایک عرصے سے ایسے کسی بہانے کے منتظر ہیں اور انہیں اس سے بہتر بہانہ مل ہی نہیں سکتا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے جرم کی پاداش میں پاکستان اور اس کی دفاعی صلاحیت کو نشانہ بنائیں۔
رہ گئی پاکستان کی بات‘ تو مجھے اس بات کا یقین ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر بھارتی حملے کی صورت میں ہماری جنگ کا کسی صورت حصہ نہیں بنے گا۔ اس بات کا بھی مجھے یقین ہے کہ بغیر امریکی اجازت 167ملٹی رول F15سٹرائیک ایگل‘72 ملٹی رول یورو فائٹر ٹائیفون‘ 211امریکی F-15C اور 81 عدد ٹارنیڈو جہازوں میں سے ایک بھی ہمارے دفاع میں کام نہیں آئے گا۔ جہاں ہم امریکہ سے خرید کردہ اپنے ایف سولہ بھارت کیخلاف استعمال نہیں کر سکتے وہاں امریکہ سعودی عرب کو اپنے ساختہ جہاز بھارت کیخلاف کیسے استعمال کرنے دے گا؟ ہماری خاطر جنگ میں کودنا تو رہا ایک طرف اگر سعودی عرب پاکستان پر حملے کی صورت میں اپنے ملک میں کام کرنیوالے بھارتیوں اور افغانیوں کو بے دخل بھی نہیں کرے گا۔ ہاں البتہ ہمیں ایسی صورت میں مؤخر ادائیگیوں پر تیل مل جائے تو اور بات ہے۔
بقول ایک دوست کے اگر اس معاہدے کے تحت کہ 'سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا‘ کے جواب میں ہم پر قرضہ سعودی عرب پر قرضہ تصور ہو جائے تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ البتہ ہماری خاطر جنگ ونگ کسی نے نہیں کرنی‘یہ ہمیں آئندہ بھی خود ہی اکیلے لڑنا پڑے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved