افغانستان کے ایک بڑے حصے میں انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ طالبان کے سپریم کمانڈر کے حکم پر یہ قدم اٹھایا گیا اور اس کا مقصد غیراخلاقی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔
اس خبر کو تنقیدی زاویے سے دیکھا گیا۔ طالبان کی رجعت پسندی کی ملامت کی گئی اور اس فیصلے کو بھی ان کے خلاف قائم 'تہذیب دشمنی‘ کے مقدمے کے حق میں بطور دلیل پیش کیا گیا۔ میں اسے ایک دوسرے زاویۂ نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ میرے نزدیک یہ تہذیب دشمنی نہیں‘ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ وہی تصادم جس کی پیش گوئی ہنٹنگٹن نے تین دہائیاں پہلے کی تھی۔
یہ خواتین کا سماجی کردار ہو‘ فنونِ لطیفہ ہوں‘ فقہی تعبیرات ہوں یا انٹر نیٹ ہو‘ طالبان ان تمام مسائل میں ایک 'ورلڈ ویو‘ رکھتے ہیں۔ وہ اس کے مطابق افغانستان کے نظم کو چلانا چاہتے ہیں۔ یہ کسی دوسری تہذیب کی دشمنی نہیں‘ ان کا اپنی تہذیب پر اصرار ہے۔ وہ اپنا تہذیبی تشخص برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو یہ حق ہے اور اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک دوسرا سوال ہے کہ یہ تہذیبی اصرار کتنا قابلِ عمل ہے جو اس وقت زیرِ بحث نہیں۔
اسی انٹر نیٹ کو دیکھ لیجیے۔ یہ بداخلاقی پھیلانے کا ایک ذریعہ ہی نہیں‘ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ یہ مواصلات کا جدید ترین نظام ہے جو ساری دنیا میں رائج ہو چکا ہے۔ اس کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات‘ معاشی نظام اور باہمی روابط کی تشکیل ہو چکی ہے۔ اگر انٹرنیٹ کو بند کیا جاتا ہے تو پھر دوسرے ممالک کے ساتھ تعامل کے لیے کوئی متبادل نظام وضع کرنا پڑے گا۔ اس کا تعلق محض ریاستی امور سے نہیں ہے۔ عام شہری بھی اس سے متاثر ہو گا۔ مثال کے طور پر اسے اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ رکھنا ہے جو دوسرے ممالک میں رہتے ہیں۔ وہ اس کے لیے کیا صورت اختیار کرے گا؟ اس سوال کا جواب ریاست کے ذمہ ہو گا۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود کر دیا جائے۔ یا اس کا کوئی متبادل نظام تلاش کیا جائے۔ چین کی طرح اپنا فیس بک بنا لیا جائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی سے راہ و رسم رکھنا پڑے گا۔ اگر یہ دروازہ کھل گیا تو اس تہذیبی تشخص کا کیا ہو گا جس کی حفاظت کے لیے یہ حصار تیار کیا جا رہا ہے؟ تجربے نے یہ بتایا کہ نئی تہذیب کے پاس محدود تعامل کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ اگر اس کو اپنانا ہے تو مکمل اپنانا ہو گا۔ انتخاب کا حق آپ کو نہیں دیا گیا۔ اس تہذیب کے علمبرادر سیاسی تعلق کو بھی اپنی تہذیبی روایات کے مطابق آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف مغرب کے ساتھ خاص نہیں‘ چین بھی یہی کرتا ہے۔ فرق ہے تو حکمتِ عملی میں ہے۔
طالبان کی قیادت نے ممکن ہے اس پر سوچا ہو۔ میری دلچسپی مگر متبادل تہذیبی ماڈل میں ہے۔ انسانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اس 'ترقی‘ سے تنگ ہے۔ آنے والے دن کی تبدیلیوں نے انسانی معاشرت کو مضطرب کر دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مظاہر میں انسان کی شناخت کھو چکی ہے۔ وہ اس کے ہاتھوں اپنی آزادی کھو رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم اب بھگوان بن چکے۔ وہ ان کی پرستش پر مجبور ہے۔ اس کا چلنا پھرنا‘ اس کی صحت‘ اس کی معیشت‘ اس کی تفریح‘ سب اس کی محتاج ہے۔ لوگ اب اس سے تنگ آ رہے ہیں۔ وہ اس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں۔ انہیں کسی متبادل کی تلاش ہے اور وہ انہیں میسر نہیں۔
ترقی کے اس ماڈل نے انسان کی نفسیات پر جو اثر ڈالا ہے وہ برسوں سے سماجیات کا موضوع ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد جنم لینے والا انسان ماضی کے مقابلے میں زیادہ پُر آسائش زندگی گزار رہا ہے مگر سکون سے کوسوں دور ہے۔ سکون کی تلاش میں بارہا اس تہذیب کے حصار سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔ ایک دور میں ہِپی تحریک بھی اسی فرار کا اظہار تھا۔ اس تہذیب کی گرفت مگر اتنی مضبوط ہے کہ اس طرح کی کوئی کوشش تادمِ تحریر کامیاب نہیں ہو سکی۔ انفرادی سطح پر ہونے والی کاوشیں ایک الگ داستان سنا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے نجات کی عملی صورت کیا ہے؟ قدامت کی طرف مراجعت یا کسی نئے نظامِ حیات کی تشکیل۔ اگر ماضی میں متبادل کی کوئی کامیاب مثال موجود ہے تو عقل مندی اسی میں ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
افغانستان کیا یہ متبادل فراہم کر سکتا ہے؟ میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا لیکن اگر طالبان ایسا معاشرہ بنانے میں قائم ہو جاتے ہیں جہاں خواتین کی آزادی اور انٹرنیٹ کے بغیر پُرامن اور مطمئن زندگی گزاری جا سکتی ہے تو میری یا کسی اورکی تائید کے بغیر ہی یہ متبادل ماڈل بن جائے گا۔ دنیا ایک طویل عرصہ انٹرنیٹ کے بغیر گزار چکی۔ یہاں تک کہ بجلی اور جدید موٹر کے بغیر بھی۔ صنعتی انقلاب سے پہلے بھی انسانی تہذیب موجود تھی۔ خود مسلمان بغداد کی مرکزیت میں ایک خوبصورت تہذیبی ماڈل پیش کر چکے۔
طالبان کے ورلڈ ویو میں غلام اور لونڈیاں رکھنا ممنوع نہیں۔ فتوحات کے نتیجے میں غلام اور لونڈیاں ہاتھ آ سکتی ہیں۔ ہماری فقہی روایت میں اس حوالے سے ہدایات موجود ہیں۔ طالبان چونکہ اس تعبیر کو درست سمجھتے ہیں‘ اس لیے اگر وہ قدامت کے دیگر مظاہر کے ساتھ اس کا احیا بھی کرتے ہیں تو جدید تہذیبی انسان کے بہت سے مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ ممکن ہے یہ روزن جدید انسان کو اس گلستانِ رنگ و بو سے آشنا کر دے جس کی مشک بار تاریخ سے ہمارے دل و دماغ آسودہ ہیں۔
طالبان کے تجربات کو‘ اسی لیے میری درخواست ہے کہ تہذیبِ مخالف قرار دینے کے بجائے ایک متبادل ماڈل کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کتابی نہیں ہو گی کہ اس پر بحث کی جائے گی۔ اس تجربے کا جو نتیجہ نکلے گا‘ وہ سامنے آ جائے گا۔ افغانستان کا معاشرہ ترقی کرے گا یا انحطاط کا شکار ہو گا‘ اس پر معاشرے کا اپنا ردِ عمل سامنے آ جائے گا۔ اس لیے دوسروں کو کوئی نصیحت کرنے کے بجائے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب یہ عمل نتیجہ خیز ہو جائے۔
اس وقت سچ یہ ہے کہ دنیا تہذیب کی ایک ہی صورت سے آشنا ہے۔ مذہب‘ رواج‘ رسوم‘ ہر شے کی وہی صورت باقی ہے‘ یہ تہذیب جس کی اجازت دیتی ہے۔ اگر آپ نے پتنگ اڑانی ہے تو بھی کارپوریٹ کلچر کی معاونت اور اجازت سے۔ اب اگر وہ اس کی صورت ہی کو بدل ڈالے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ دنیا میں اس کے خلاف کوئی توانا آواز موجود نہیں۔ اگر ہے تو صفحۂ ہستی پر اس کے پاس کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں وہ اس کے عملی مظاہر پیش کر سکے۔ طالبان کے پاس ایک خطۂ زمین موجود ہے۔ وہ اس میں تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دینی چاہیے۔ دیگر مسلم معاشرے تو سر افگندہ ہیں۔ اس جرأت کی داد اپنی جگہ مگر ساتھ ہی افغان قیادت کو متنبہ بھی کرنا چاہیے کہ مروجہ چلن سے بغاوت کے لیے جرأت کے ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ طالبان اس کا امتزاج کیسے پیدا کرتے ہیں‘ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔
میں اس باب میں جو رائے رکھتا ہوں سرِ دست اس کا ظہار نہیں کر رہا۔ اس وقت صرف اس تجربے کا تجزیہ مقصود ہے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے۔ اس کا یہ حق مسلّم ہے کہ و ہ اپنے لیے کوئی طرزِ حیات اختیار کرے۔ اگر وہاں کے عوام کو کوئی اعتراض ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ اس کا اظہار کریں۔ ہمیں یہ حق نہیں کہ انہیں اپنی سوچ کا پابند بنائیں۔ یہ متبادل تجربہ اگر غالب تہذیب کو کسی ایک آدھ جوہری تبدیلی پر آمادہ کر لے تو یہ بھی کامیابی ہے۔ آخر اشتراکیت نے بھی تو سرمایہ داری کو بعض تبدیلیوں پر مجبور کر دیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved