تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     25-09-2025

قاتل یا مسیحا

کچھ اور گوری اقوام نے بالآخر فلسطین کو ایک باقاعدہ ملک تسلیم کر لیا۔ ان میں فرانس‘ آسٹریلیا‘ بلجیم جیسے بڑے ملک بھی ہیں لیکن ان میں برطانیہ زیادہ اہم ہے۔ اب دنیا کے 81 فیصد کے لگ بھگ ممالک نے فلسطین کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان یعنی امریکہ‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس میں اکیلا امریکہ رہ گیا ہے جس نے فلسطین کو الگ ریاست تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ تسلیم کیے جانے سے فلسطینیوں اور غزہ کے جنگجوؤں کو یقینا تقویت ملی ہے لیکن یہ سوچنا خوش فہمی سے زیادہ نہیں کہ اس سے زمینی صورتحال عملی طور پر تبدیل ہو جائے گی۔
لیکن اس سے بھی بڑی خوش فہمی یہ سوچ ہو گی کہ برطانیہ اور دیگر گوری اقوام اسرائیل کی حمایت سے دستبردار ہوکر فلسطینیوں کی حمایت میں آ گئی ہیں اور اب اسرائیل کو ان کی پشت پناہی حاصل نہیں رہے گی۔ فلسطینیوں میں سوچنے سمجھنے والے اور تاریخ پر نظر رکھنے والے کبھی ایسا نہیں سوچ سکتے کہ اب انہیں صہیونیوں کی برابری حاصل ہو گئی ہے اور وہ اپنی جدوجہد کے ثمرات حاصل کر چکے ہیں۔ گوری اقوام خاص طور پر برطانیہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں سینکڑوں‘ ہزاروں برسوں سے رہنے والی اقوام پر نوآبادیاتی دور میں جو ظلم کیے‘ اور جس طرح ان کی زمینوں پر قبضہ کیا وہ ایسی دستاویز کی صورت ہیں جس سے آج بھی خون رس رہا ہو۔ لیکن ان کا بڑا جرم یہ بھی ہے کہ وہ جاتے جاتے بہت سے مستقل عذاب چھوڑ گئے۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے ڈوبتے اقتدار کے ہاتھوں برطانیہ مجبور ہو گیا کہ وہ بے شمار ملکوں سے اپنا جھنڈا لپیٹ کر نکل جائے‘ لیکن اس نے جاتے جاتے بھی جو گھاؤ لگائے ان میں فلسطین اور کشمیر سر فہرست ہیں۔ 1917ء میں برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بالفور اعلان کے ذریعے فلسطین کے دل میں ایک ایسا خنجر گھونپ دیا جس سے اُبلتا لہو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بالفور اعلان نے کہا ''برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک گھر یعنی ان کی ایک قومی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے‘‘۔ اگرچہ اسی اعلانِ بالفور میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ''یہاں پہلے سے موجود غیر یہودی اقوام کے مذہبی اور شہری حقوق کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا‘‘ (غور کیجیے کہ غیر یہودی اقوام کہہ کر فلسطینی کے لفظ سے بچنے کی کیسی کوشش کی گئی تھی) لیکن یہ بھی محض خانہ پُری کے الفاظ تھے‘ اصل اعلان ایک یہودی ریاست کا فلسطین میں قیام تھا۔ وہ یہودی جو یورپ‘ امریکہ اور دنیا کے مختلف علاقوں میں ہزاروں سال سے رہ رہے تھے اور فلسطین میں باہر سے لاکر بسائے جانے تھے۔ ان لوگوں کا حق فلسطین پر مانا گیا اور فلسطینی جو ہزاروں سال سے یہاں آباد تھے‘ ان کی زمینیں کسی نہ کسی بہانے سے یہودیوں کے حوالے کر دی گئیں۔ دو وجوہات کو جواز بنایا گیا۔ ایک یہ کہ فلسطین میں یہودیوں کی مذہبی یادگاریں ہیں اور ہزاروں سال پہلے وہ یہاں رہتے رہے ہیں‘ انہیں بزور جلا وطن کیا گیا تھا۔ اور دوسرے یہ کہ اس وقت یہود کا دنیا بھر میں کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ اتنی بودی اور فضول دلیلیں تھیں کہ اس وقت بھی انہیں ماننے سے انکار کیا گیا تھا۔ اقبال نے کہا تھا:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
ہسپانیہ سے بھی مسلمانوں کو بزور جلاوطن کیا گیا تھا۔ پھر فلسطین میں صرف یہودی عبادت گاہیں نہیں‘ مسلمانوں اور مسیحیوں کی بھی عبادت گاہیں تھیں۔ لیکن اعلانِ بالفور میں انصاف کے ہر قاعدے کو قتل کرکے فلسطین میں مستقل جنگ و جدل کی بنیاد ڈال دی گئی۔ جن لوگوں نے 1948ء میں یہ ریاست قائم کر دی وہ اس کے بعد آج تک فلسطینیوں پر ہر ظلم‘ ہر زیادتی‘ ہر بے رحمی اور ہر قتل کا خوشی سے مشاہدہ کرتے رہے اور تلواریں اور خنجر قاتلوں کو فراہم کرتے رہے۔ اس لیے یہ خوش فہمی نہیں پالنی چاہیے کہ گورے اب انصاف کے قائل ہو گئے ہیں یا مسلمانوں کی محبت جاگ اٹھی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عالمی رائے عامہ کا سخت دباؤ نہ ہوتا‘ دنیا بھر سے مسلمان‘ مسیحی اور خود یہودی عوام غزہ میں جاری قتلِ عام اور بربریت کو صاف صاف دیکھ نہ رہے ہوتے‘ اسرائیل اپنی درندگی سے لبادہ اس طرح نہ اتارتا اور غزہ میں غذا‘ ادویہ‘ پانی اور ضروری اشیا کا ایسا قحط نہ ہوتا کہ بچے بلک بلک کر مر رہے ہوں تو یہ لوگ کبھی فلسطین کو باقاعدہ تسلیم نہ کرتے۔ یہ اپنا داغدار چہرہ مزید داغدار ہونے سے بچانے کی رسمی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔
آج جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے‘ دنیا بھر کے 193 ممالک میں سے 157 ملک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ 81 فیصد ملک اگر ایک خطے کی مظلوم ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں تو اسے بہت پہلے دنیا کے باقی ممالک کے برابر حقوق حاصل ہو جانے چاہئیں تھے‘ لیکن آج تک انہیں یہ حق حاصل نہیں ہوئے۔ 1988ء میں جب یاسر عرفات نے فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا تو 80 کے لگ بھگ ممالک نے اسے فوری تسلیم کر لیا تھا‘ لیکن 2012ء میں جاکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 138 ارکان کی حمایت اور نو کی مخالفت سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست (Non member observer state) کے طور پر اقوام متحدہ میں شامل کرلیا جائے۔ یہ درجہ ایسا ہے کہ فلسطین اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں ہے‘ اور وہ اپنے علاقوں میں مکمل کنٹرول بھی نہیں رکھتا۔ سلامتی کونسل کے پانچ ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ ان میں امریکہ بار بار ایسی کوششوں کو ویٹو کرتا رہا ہے جن سے فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن بنایا جا سکے۔ آخری بار امریکہ نے اپریل 2024ء میں ایسی قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ دیگر سابق امریکی صدور کی نسبت زیادہ شدت سے فلسطینی ریاست اور دو ریاستی نظام کی مخالفت کرتی ہے۔ حتیٰ کہ امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی دورے میں فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کو تنبیہ بھی کی تھی کہ اس طرح دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل مکمل قبضہ کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دھمکی تسلیم کرنے والے ملکوں کو باز رکھنے کیلئے تھی ورنہ اسرائیل جو چاہتا ہے اور جہاں چاہتا ہے‘ کر گزرتا رہا ہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ جس دن برطانیہ نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اسی دن غزہ میں اسرائیلی فوج نے 54 فلسطینی شہید کیے۔ اس لیے اس کے ہر ظلم اور زیادتی کی طرف سے آنکھ بند کرنے والے ممالک سے آئندہ کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ صرف عالمی رائے عامہ کا دباؤ ہے جس کے تحت بہت سے ملک ان اقدامات پر مجبور ہوئے ہیں۔
میں نے دکھی دل سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا بیان پڑھا جس میں انہوں نے حماس سے ہتھیار ڈال دینے کو کہا ہے اور سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ ہمارا حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے باہمی جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ایک عام آدمی وہ فرق دیکھ سکتا ہے جو فلسطینی اتھارٹی کی اب تک کی کارگزاری اور حماس کی کارروائیوں کے نتائج میں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا اپنا طریقہ کار ہو گا لیکن دنیا میں فلسطین کا قضیہ جس طرح خون کی سرخیوں سے اجاگر ہوا ہے‘ جس طرح عرب ممالک ابراہم اکارڈ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے ہیں‘ جس طرح اسرائیل دنیا بھر میں اکیلا ہوا ہے اور جس طرح عالم اسلام میں عدم تحفظ کی کچھ لہر دوڑی ہے‘ وہ انہی شہادتوں‘ قربانیوں اور استقامت کے نتائج ہیں جو سات اکتوبر کے بعد ہویدا ہوئے ۔ یہ نہ ہوا ہوتا تو فلسطینی اپنے دشمنوں کی چالوں اور چالاکیوں میں گھر کر ایک بڑے شکنجے میں جکڑے جا چکے ہوتے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان دو برسوں میں دنیا جس طرح فلسطین کی طرف متوجہ ہوئی ہے‘ وہ فلسطینی اتھارٹی کے بس میں نہیں تھا۔ محمود عباس کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت جبکہ کچھ ثمرات مل رہے ہیں‘ فلسطینیوں میں انتشار ان ثمرات کو ضائع کرنے جیسا ہے۔ کب ایسا ہو گا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کرے گی؟ کب ایسا ہوگا کہ فلسطینی اپنے قاتلوں کو اپنا مسیحا سمجھنا ختم کریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved