تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-09-2025

رسول اللہﷺ سے ہمارے تعلق کے تقاضے…(5)

گزشتہ ایک کالم میں ہم درج کر چکے ہیں کہ آپﷺ نے اپنے خصائص وامتیازات خود بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو خصوصی مقام عطا فرمایا‘ وہ یہ ہے: ''بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی مکرّم پر درود پڑھتے ہیں‘ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘ (الاحزاب: 56)۔ سلام کے معنی تو سلامتی کے ہیں اور صلوٰۃ متعدد معانی کیلئے آیا ہے۔ علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں: ''نبیﷺ پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی صلوٰۃ کے معنی میں کئی اقوال ہیں۔ امام بخاری نے ابوالعالیہ سے نقل کیا ہے اور ان کے غیر نے ربیع بن انس سے اور حلیمی نے شُعَبُ الْاِیْمَان میں لکھا ہے: اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپﷺ کا ذکر بلند کر کے‘ آپ کے دین کو غالب کر کے اور آپ کی شریعت کو باقی رکھ کر آپ کی تعظیم کو ظاہر فرمائے گا اور آخرت میں آپ کو اپنی امت کے لیے شفیع بنائے گا‘ آپ کے اجر وثواب کو بدرجہا زائد فرمائے گا‘ آپ کو مقامِ محمود عطا فرماکر اوّلین وآخرین پر آپ کی فضیلت کو ظاہر فرمائے گا اور تمام مقربین پر آپ کو مقدم فرمائے گا اور صلوٰۃ میں آپ کے ساتھ آپ کی آل اور اصحاب کا ذکر اس معنی کے منافی نہیں ہے‘ کیونکہ ہر ایک کی تعظیم اس کے مرتبے کے حساب سے اور اس کی شان کے لائق کی جاتی ہے‘‘ (روح المعانی‘ جز: 22‘ ص: 109)۔ شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی لکھتے ہیں: ''اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب صلوٰۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے رحمت کو نازل کرنا اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے دعا کرنا اور اس آیت میں فرمایا ہے: اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو ایک لفظ یُصَلُّوْنَ سے دو معنوں کا ارادہ کرنا کس طرح جائز ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صلوٰۃ اور فرشتوں کی صلوٰۃ دونوں سے مراد ہے نبیﷺ کے شرف اور آپ کی فضیلت کا اظہار کرنا اور آپ کی شان کی عظمت بیان کرنا اور اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے کہ اس کے نزدیک اس کے نبی کا کتنا عظیم مرتبہ ہے کہ وہ ملائکہ کے سامنے اپنے نبی کی توصیف کرتا ہے اور ملائکہ بھی اس کے نبی کی ثنا کرتے ہیں اور اس نے اپنے بندوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی اقتدا کریں اور اس کے نبی کی حمد وثنا کریں‘‘ (فتح القدیر‘ ج: 4‘ ص: 397)۔ علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی‘ علامہ غلام رسول سعیدی‘ مفتی محمد شفیع (دیوبندی) اور اہلِ حدیث عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی اس معنی کی توثیق کی ہے۔
دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن کے ناموں کے ساتھ پکارا‘ مثلاً: یٰا اٰدمُ‘ یَا نُوحُ‘ یَا اِبْرَھِیْمُ‘ یَا مُوسٰی‘ یَا عِیْسٰی‘ یَا دَائودُ‘ یَا یَحْیٰی‘ یَا زَکِرِیَّا وغیرُہم۔ جبکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کو آپ کی صفات اور القاب کے ساتھ ذکر فرمایا‘ مثلاً: ''یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ‘ یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر‘ یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ‘ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ سے خطاب فرمایا۔ نیز الاحزاب:46 میں ایک ہی مقام پر آپﷺ کو شَاہِد‘ مُبَشِّر‘ نَذِیْر‘ دَاعِی اِلَی اللّٰہ اور سِرَاجٌ مُّنِیْر فرمایا۔
خاتم النّبیینﷺ کی شان یہ ہے کہ نماز اللہ کی عبادت ہے اور طریقِ ادا میں نبی مکرمﷺ کی سنّت ہے‘ آپﷺ نے صحابۂ کرام کو فرمایا: ''تم جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھو‘ ویسے ہی نماز پڑھو‘‘ (بخاری: 631)۔
بیماری عیب نہیں ہے‘ بلکہ انسان کو لاحق ہونے والے عوارض میں سے ہے‘ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں: ''پس جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے‘‘ (الشعراء: 81) بلکہ رسول اللہﷺ نے صبر وشکر کی صورت میں بیماری کو کفارۂ سیئات اور بلندیِ درجات کا سبب بھی بتایا ہے اور طاعون اور پیٹ کی بیماری میں وفات پانے والے کو شہادت کا درجہ ملے گا۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے حتیٰ کہ کانٹا بھی چبھ جائے تواللہ تعالیٰ اُسے اُس کیلئے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے‘‘ (بخاری: 5640) (2) ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھا دوں‘ عطاء بن ابی رباح نے کہا: ضرور دکھائیے‘ انہوں نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے‘ پس اللہ سے میرے لیے (عافیت کی) دعا کیجیے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو اور اس کے صلے میں تمہارے لیے جنت ہے اور اگر چاہو تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمہیں اس بیماری سے نجات دے‘ انہوں نے عرض کی: میں صبر کروں گی‘ اس عورت نے مزید کہا: (دورہ پڑنے پر) میرا ستر کھل جاتا ہے‘ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میرا ستر قائم رہے تو رسول اللہﷺ نے اس کیلئے دعا فرمائی‘‘ (مسلم: 2576)۔ (3) رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اُس کیلئے ہر صورت میں خیر ہے‘ اگر اُسے راحت پہنچے اور وہ شکر ادا کرے تو اس کیلئے خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو وہ بھی اس کیلئے خیر ہے‘‘ (مسلم: 2999)۔ (4) نبیﷺ کے سامنے بخار کا ذکر ہوا‘ تو ایک شخص نے بخار کو برا کہا‘ آپﷺ نے فرمایا: اسے برا نہ کہو‘ یہ گناہوں کو اس طرح دھو ڈالتا ہے جیسے آگ لوہے کے میل کچیل کو دھو ڈالتی ہے‘‘ (ابن ماجہ: 3469)۔ پس انبیائے کرام کی بیماریاں اُن کیلئے بلندی درجات کا سبب ہیں‘ کیونکہ اُن کے معصوم ہونے کے سبب اُن کی طرف کفارۂ سیئات کی نسبت شرعاً ممنوع ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ انبیائے کرام کو ہر ایسی بیماری اور ذہنی وجسمانی نَقص سے محفوظ فرمایا ہے جو لوگوں کے نزدیک باعثِ عار ہو‘ کراہت کا سبب ہو‘ جس سے گھن آئے‘ اس لیے انبیائے کرام جذام‘ برص اور جلدی بیماریوں سے محفوظ رہے‘ پس ہر وہ اسرائیلی روایت جو اس مسلّمہ اصول کے خلاف ہو‘ اُسے ردّ کر دیا جائے گا۔ مثلاً: حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں امام ابن عساکر نے لکھا ہے: ''زبان اور دل کے علاوہ حضرت ایوب علیہ السلام کے تمام جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے‘ ان کا دل اللہ کی مدد سے غنی تھا اور زبان پر اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا‘ کیڑوں نے ان کے تمام جسم کو کھا لیا تھا حتیٰ کہ ان کی صرف پسلیاں اور رگیں باقی رہ گئی تھیں‘ جب کیڑوں کے کھانے کیلئے بھی کچھ باقی نہ رہا تو کیڑے ایک دوسرے کو کھانے لگے‘ دو کیڑے باقی رہ گئے تھے‘ انہوں نے بھوک کی شدت سے ایک دوسرے پر حملہ کیا اور ایک کیڑا دوسرے کو کھاگیا‘پھر ایک کیڑا ان کے دل کی طرف بڑھا تاکہ اس میں سوراخ کرے‘ تب حضرت ایوب علیہ السلام نے یہ دعا کی: ''بیشک مجھے (سخت) تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ (مختصر تاریخ دمشق‘ ج: 5‘ ص: 107)۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے پڑنے کا واقعہ حافظ ابن عساکر اور حافظ ابن کثیر دونوں نے بنی اسرائیل کے علماء سے نقل کیا ہے اور ان کے اتباع میں مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے‘ لیکن ہمارے نزدیک یہ واقعہ صحیح نہیں‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو ایسے حال میں مبتلا نہیں فرماتا جس سے لوگوں کو نفرت ہو‘ وہ ان سے گھن کھائیں‘ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے متعلق فرمایا: ''یہ سب ہمارے نزدیک چنیدہ اور پسندیدہ ہیں‘‘ (ص: 47)۔ حضرت ایوب علیہ السلام پر کوئی سخت بیماری مسلّط کی گئی تھی‘ لیکن وہ بیماری ایسی نہیں تھی جس سے لوگ گھن کھائیں‘ کسی حدیث صحیح مرفوع میں بھی اس قسم کی کسی چیز کا ذکر نہیں ہے‘ صرف ان کی اولاد اور ان کے مال مویشی کے مرجانے اور ان کے بیمار ہونے پر صبر کا ذکر ہے‘ علماء اور واعظین کو چاہیے کہ وہ حضرت ایوب علیہ السلام یا دیگر انبیائے کرام کی طرف ایسے احوال منسوب نہ کریں جن سے لوگوں کو گھن آئے‘ اگرچہ بعض مفسرین نے ان روایات کو ذکر کیا ہے‘ لیکن ہمارا ذوق اسے قبول نہیں کرتا‘ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved