قائداعظم یونیورسٹی میں مجھے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جہاں طالبعلموں کے ساتھ ایک نشست رکھی گئی تھی۔ پہلے کبھی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتدہ یا طالبعلموں کے کہنے پر چلا جاتا تھا۔ گفتگو‘ لیکچر یا گپ شپ کرتا تھا‘ لیکن پھر چھوڑ دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میری اور ان کی سوچ میں بڑا فرق تھا۔ نہ آپ ان کی طرح سوچ سکتے ہیں نہ وہ آپ کی طرح سوچ سکتے ہیں‘ اور ہم دونوں کا اس میں قصور نہیں۔ امیتابھ بچن کی فلم 'آخری راستہ‘ کا ایک سین برسوں سے ذہن سے نہیں اترا۔ اس فلم میں ان کا ڈبل رول تھا۔ ایک جگہ باپ کے رول میں امیتابھ بچن اپنے انسپکٹر بیٹے کو‘ جو اسے اپنی ماں کی قبر پر گرفتار کرنے پہنچا ہے‘ اپنے ہاتھ پر چھ لکھ کر اسے دکھاتا ہے۔ کہتا ہے بیٹا تمہیں یہ وہاں سے نو نظر آتا ہے لیکن مجھے یہاں سے چھ نظر آرہا ہے۔ نہ تم غلط ہو نہ میں ہوں‘ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ اس ڈائیلاگ نے میرے سوچنے کے انداز کو بڑی حد تک بدل دیا تھا۔ اُن دنوں میرے دوست اکثر کہتے کہ کیا وجہ ہے تمہیں اب بہت سی باتوں پر غصہ نہیں آتا تو میں انہیں جواب دیتا کہ بڑے عرصے بعد سمجھ آئی ہے کہ ہر بندے کو اپنی بات ہی ٹھیک لگتی ہے لہٰذا اس پر غصہ کرنا نہیں بنتا۔
ہم انسان زندگی میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ سوچ بھی بدلتی رہتی ہے۔ کئی دفعہ بڑے اداروں‘ یونیورسٹیوں یا کالجوں سے دعوت آئی لیکن ہر دفعہ ٹال گیا کہ مجھے شوق نہیں رہا کہ لوگوں کی رائے بدلوں یا وہ بھی وہی سوچیں جو میں سوچتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹھیک سوچتے ہوں اور میں ہی غلط سوچ رہا ہوں۔ اگرچہ بہت لوگ میرے اس فلسفے پر یقین نہیں کریں گے کہ اگر ہر بندہ یہی سوچ رکھے تو پھر کوئی ایک دوسرے سے بات ہی نہ کرے۔ میرا یہی خیال ہے کہ لوگ آپ کی باتوں‘ بھاشن یا گفتگو سے اپنی سوچ نہیں بدلتے۔ تاہم قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علموں کا سن کر دل کیا کہ ان سے گپ شپ ہونی چاہیے۔ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ آج کا طالبعلم کیا سوچتا ہے اور اس کے ذہن میں کیا سوالات ہیں۔ ہمارے اینکر دوست عادل نظامی نے پروگرام کا فارمیٹ اچھا رکھا تھا کہ وہ طالبعلموں سے پینل میں بیٹھے لوگوں سے سوال کرا رہے تھے۔ میرے پینل میں میرے ساتھ شیر افضل مروت اور سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ تھے۔ اگرچہ طالب علموں نے بڑے صبر اور حوصلے سے کام لیا کہ ہم سے پہلے وہ ایک اور پینل کو بھی ایک گھنٹہ سن چکے تھے جس میں جنرل (ر) عبدالقیوم اور وزیراعظم کے مشیر یاسر الیاس تھے۔ یاسر الیاس ایک ذہین کاروباری نوجوان ہیں۔ چند دن پہلے طالب علموں کے ایک ایوارڈ فنکشن میں ان کی گفتگو سنی تھی اور بہت متاثر ہوا تھا۔ اس نوجوان کے کریڈٹ پر بہت کامیابیاں ہیں اور اس کے اندر نوجوانوں کو موٹیویٹ کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ یاسر الیاس کو سننے کے بعد احساس ہوا کہ اس نوجوان کو اگر ٹکٹ خرید کر بھی سننا پڑے تو سودا مہنگا نہیں۔ جنرل (ر) عبدالقیوم بھی ذہین اور دھیمے مزاج کے انسان ہیں اور اچھی گفتگو کرتے ہیں۔
اکثر طالب علموں کے سوالات پاک سعودی دفاعی معاہدے پر تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کہاں کھڑا ہے‘ ملک کے اندر جاری سیاسی لڑائی کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ سب ملک میں جاری سیاسی تنائو سے پریشان تھے۔ کچھ کو فکر تھی کہ ہم نے سعودی عرب سے معاہدہ کیوں کیا‘ کچھ کا خیال تھا کہ اگر ہمارے اندر سپر پاور بننے کی صلاحیت موجود تھی تو ابھی تک ہم امریکہ‘ چین یا روس کے لیول تک کیوں نہیں پہنچ پائے؟ بعض کو لگا کہ پاکستان ترقی کرنے کے بجائے پیچھے چلا گیا ہے‘ ترقی کہیں کھو گئی ہے۔ میں ان سوالات کو سنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا میں ان کو وہ ساری باتیں کیمرے پر کہہ سکتا ہوں جو میرے ذہن میں آرہی ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ وہی بولو جو یہ سننا چاہتے ہیں‘ مجھے برا بننے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک سابق صحافی دوست یاد آیا جو مجھے ٹی وی پر گفتگو کرتے دیکھ کر مذاق اڑاتا تھا کہ بھائی تُو کس کام میں پڑ گیا ہے‘ کیوں اس قوم کو وہی باتیں سناتا ہے جو انہیں پسند نہیں اور جواباً ان سے سخت باتیں سنتاہے۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ جھوٹ کو پسند کرتا ہے‘ سچ جاننے کے بجائے بیوقوف بننا پسند کرتا ہے‘ وہ خوابوں اور خلائی گفتگو کو پسند کرتا ہے۔ وہ اپنی عظمت کی کہانیاں سننا چاہتا ہے‘ کچھ مذہب کا بھی تڑکا لگا دو تو کیا ہی بات ہے۔ ہاتھ میں میری طرح تسبیح بھی رکھا کرو‘ اور وہی گفتگو کرو جو دوسرے سن کر خوش ہوتے ہیں۔ تالیاں بجاتے ہیں‘ فالو کرتے ہیں‘ سیلفیاں لیتے ہیں اور آپ کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے دیکھو وہی باتیں کرتا ہوں جو مجمع سننا چاہتا ہے۔ تم وہ باتیں کرتے ہو جو ٹھیک تو ہیں لیکن مجمع تماشا دیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے اور تم تماشا نہیں لگا سکتے۔ میں حیرانی سے اس دوست کو دیکھتا تھا جس کے ہمارے ساتھ بیٹھ کر عمران خان بارے خیالات کچھ اور ہوتے اور ٹی وی پر وہ عمران خان کا اتنا بڑا مداح بن جاتا کہ خان بھی حیران ہوتا ہو گا۔ اس لیے یہ سوالات سنتے ہوئے وہی دوست یاد آرہا تھا کہ اگر وہ یہاں ہوتا تو ان سوالوں کے اس نے ایسے جواب دینے تھے کہ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ لوگ وہی سننا چاہتے ہیں جو وہ سوچتے ہیں۔ خیر میں نے طالب علموں کو کہا کہ اگر آپ سیاسی اتفاقِ رائے چاہتے ہیں تو جمہوریت نہیں‘ پھر آپ سعودی عرب‘ چین‘ روس یا شمالی کوریا کا ماڈل اپنا لیں۔ سب کو سکون آجائے گا۔ کہیں سے کوئی مخالف آوازنہیں اٹھے گی بلکہ آپ یہ سوال بھی نہیں کر سکیں گے۔ اگر ہمیں بولنے کا شوق ہے تو پھر یہ سب ایشوز بھی ہوں گے جنہیں آپ سیاسی ابتری کا نام دیتے ہیں۔ باقی ہم دنیا میں کوئی آخری بادشاہ نہیں‘ جیسے ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ دنیا ایک دوسرے کے سہارے سے چلتی ہے۔ ہم سعودی عرب‘ امریکہ اور چین کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اس لیے اگر ہم ان سے یا دیگر ملکوں سے معاہدے کرتے ہیں تو اس میں کوئی سازش نہیں ہوتی۔ اگر ہم ان کے کام آتے ہیں تو وہ بھی ہمارے کام آتے ہیں جیسے ابھی پاک بھارت جنگ میں کام آئے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پوری دنیا نے پاکستان پر پابندیاں لگائیں مگر سعودیوں نے ہمیں مفت تیل دیا‘ ایٹم بم بنانے میں بھی پاکستان کو لیبیا اور سعودی عرب کی مدد حاصل تھی۔ وہاں لاکھوں پاکستانی کام کرتے اور اربوں ڈالر زرِمبادلہ بھیجتے ہیں۔ ایسے معاہدے دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں پر ہمیں مطمئن ہونا چاہیے کہ دنیا ہماری فوجی صلاحیتوں سے مطمئن ہے‘ ورنہ یوکرین کے زیلنسکی کا حال دیکھ لیں جس نے امریکہ اور نیٹو کے کہنے پر جنگ شروع کی اور ہزاروں فوجی اور شہری مروانے اور اپنے علاقوں پر قبضہ کرانے کے بعد اب وہ صدر کا عہدہ چھوڑنے کو تیار ہے۔ یہ ہے پاپولسٹ لیڈر کا انجام‘ جو کہتا تھا کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں اس نے اپنے ملک کو تباہ کرا لیا ہے کیونکہ عوام ایسے نعرے سن کر جھوم اٹھتے ہیں۔ باقی دنیا کے کس ملک میں سیاسی افراتفری نہیں ہے۔ بھارت‘ امریکہ‘ یورپی یونین‘ برطانیہ۔ جہاں جمہوریت ہو گی وہاں فساد اور پھڈے بھی ہوں گے۔
ایک طالب علم نے گلہ کیا کہ آپ تینوں نے ہمارا وقت ضائع کیا ہے۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ نوجوان ہم تو خوش خوش آئے تھے کہ آپ لوگوں سے گپ شپ لگے گی‘ ہم نے کسی سے ایک روپیہ اس پروگرام کا نہیں لیا اور دو گھنٹے سے آپ کے سخت سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔ آپ میں سے تو کسی نے ہمیں ایک لفظ شکریے کا نہیں کہا کہ آپ سب نے ہمارے لیے وقت نکالا اور ہمارے تلخ سوالات سنے۔ کیا دو گھنٹوں میں ہم تینوں نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا جس سے آپ کو لگا ہو کہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہوا؟ اس پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ہمیں لگا کہ ہمیں ہمارا معاوضہ مل گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved