تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-09-2025

کوئی بشارت اہلِ غزہ کے لیے؟

بشارتیں‘ خوشخبریاں‘ سب اچھا چل رہا ہے‘ ماشاء اللہ۔ معاہدے ہو رہے ہیں اور صدر ٹرمپ نے بھی مسلم قیادت کو مدعو کیا ہے۔ ایک سوال مگر دامن سے لپٹا ہوا ہے: کیا اس میں کوئی خوشخبری‘ کوئی بشارت اہلِ غزہ کے لیے بھی ہے؟
غزہ میں انسانی المیہ اپنی آخری صورت میں نمودار ہو چکا۔ اب تو صرف قیامتِ کبریٰ برپا ہونی ہے۔ اس سے کمتر کسی انسانی بستی پر جو کچھ بیت سکتا تھا‘ وہ تو بیت گیا۔ غزہ کی گلیوں میں موت کا برہنہ رقص ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ابلیس کی یہ پارٹی ابھی جاری ہے۔ سب کی موت ہم نے دیکھ لی۔ غیرت کو مرتے دیکھا۔ حمیت کا دم نکلتے دیکھا۔ بصیرت کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھا۔ عالمی نظم کا دم گھٹتے دیکھا۔ یہی نہیں‘ موت کا ہر انداز بھی دیکھا۔ کوئی گولی سے مر رہا تھا‘ کوئی بھوک سے‘ کوئی بم سے‘ کوئی گفتار سے‘ کوئی حکمتِ عملی سے۔ خواہش تھی کہ یہ المیہ کسی بڑے فورم پر زیرِ بحث آتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ او آئی سی کا سربراہی اجلاس...
قطر میں مسلم دنیا کے راہنما جمع ہوئے۔ عالمِ اسلام کا دامن امید اور توقعات کے پھولوں سے بھر گیا۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ ہوا تو خوشی کی لہر اُٹھی اور ہر مسلمان اس میں بھیگ گیا۔ غزہ کا خیال آیا تو لگا 'کہ اب تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی‘۔ دلِ خوش کن کو ظلم کی رات ختم ہوتی نظر آئی اور اس نے سوچا 'کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہو گی‘ ۔ امیدکے بہت سے چراغ‘ چاروں طرف اس طرح جلے کہ چراغاں ہو گیا۔ دل کی مگر دل ہی میں رہی۔ ان چراغوں کی روشنی غزہ کی تاریکی کا مداوا نہ کر سکی۔ 'یوں نہ تھا‘ میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔
ان بشارتوں اور خوشخبریوں کے جلو میں‘ تاریخ کا سفر ایک اور سمت میں جاری ہے۔ معلوم ہو تا ہے کہ دو ریاستی حل کیلئے ماحول تیار ہو رہا ہے۔ کئی ممالک فلسطین کی ریاست کو قبول کر چکے ہیں۔ برطانیہ نے بھی فلسطین کو قبول کر لیا ہے۔ امریکی مشاورت کے بغیر برطانیہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ایک فلسطینی 'ریاست‘ پہلے سے موجود ہے مگر اس کو ریاست کہنا‘ اس تصور کی توہین ہے۔ یہ ایک میونسپل کمیٹی ہے۔ ریاست کی جو تعریف سیاسیات کی ابتدائی کتابوں میں لکھی ہے یا جسے اقوامِ متحدہ تسلیم کرتی ہے‘ اس کا اطلاق اس ریاست پر نہیں ہوتا۔ اگر تو یہ وہی ریاست ہے جسے سب مان رہے ہیں تو یہ محض اشک شوئی ہے۔ فلسطینیوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کیلئے یہ کوئی خوشخبری نہیں۔
انصاف تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کی ساری زمین ان کو ملے۔ اس دنیا میں مگر انصاف نہیں ہوتا۔ انصاف خریدنے کی طاقت ہم میں نہیں۔ اسرائیل کے خاتمے کیلئے جو سفارتی اور عسکری قوت چاہیے‘ وہ ہمیں میسر نہیں۔ اس لیے مجھے دکھائی یہ دیتا ہے کہ معاملہ دو ریاستی حل ہی کی طرف جائے گا۔ اگر اس سمت میں پیش رفت ہوتی ہے تو اس تجویز کی بہترین صورت یہ ہے کہ فلسطین اسی طرح کی ایک ریاست ہو جس طرح اسرائیل‘ یا کوئی دوسری ریاست ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ یروشلم کو فلسطین کا حصہ ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یروشلم کو کھلا شہر قرار دے دیا جائے۔ اگر ہم اس پر اصرارکریں گے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ہم نے کسی صورت قبول نہیں کرنا تو پھر وہ سفارتی اور عسکری قوت بہم پہنچانا ہو گی جو اس کو ممکن بنائے۔ کیا یہ دفاعی معاہدے ہمیں اس طرف لے جا سکتے ہیں؟
آج تو ممکن نہیں۔ اس وقت تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اپنے اپنے دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس سے پہلے وہ امریکی یقین دہانی پر یقین رکھتے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد‘ یہ یقین تو بے یقینی میں بدل گیا۔ عرب ممالک کو اندازہ ہو گیا ہے کہ دفاع کیلئے ان کے پاس متبادل ہونا چاہیے۔ سعودی عرب نے پہل کی۔ امکان یہ ہے کہ دوسرے بھی اس کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ اگر ہم انکے دفاع کی ذمہ داری اٹھا لیں اور وہ جواباً ہماری معیشت کی‘ تو اس میں سب کا بھلا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف جیسے اداروں کے دباؤ سے باہر آئے گا تو اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید بہتر بنا سکے گا۔ یہ دفاعی قوت سب کے کام آ سکتی ہے۔
مسئلہ مگر اہلِ غزہ کا ہے۔ اس ساری پیش رفت میں ان کیلئے کوئی خوشخبری دکھائی نہیں دے رہی۔ امریکہ بدستور اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے اور اسرائیل کا ہاتھ نہیں رک رہا۔ فلسطینیوں کیلئے خوراک اور دوا کے راستے بند ہیں۔ اس وقت تو فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ جمعہ کی دوپہر‘ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ لوگوں کو جنرل اسمبلی سے اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کا انتظار ہے۔ یہ انتظار خدشات سے بھرپور ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کا ا علان کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 43 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ ان حالات میں دوسرے ممالک کی طرف سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا غزہ کے شہریوں کیلئے کسی فوری ریلیف کا باعث نہیں بن سکتا۔ انہیں تو آج خوراک کی ضرورت ہے۔ بیمار کو تو آج دوا چاہیے۔ اس قتلِ عام کو آج رکنا چاہیے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس سے اہلِ غزہ کے دکھ کم نہیں ہوں گے۔
میں نے جب بھی غزہ کے حالات پر غور کیا‘ مجھے اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیا۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں کسی مزاحمت کا کوئی وجود نہیں۔ اگر کہیں سے کوئی اچھی خبر آتی ہے تو وہ اہلِ مغرب میں موجود ان روشن ضمیروں کی طرف سے ہے جو فلسطینیوں کی حمایت میں نکلے ہیں۔ الخدمت جیسے تنظیمیں بھی حسبِ توفیق ان کی مدد کر رہی ہیں لیکن کسی کے پاس محاصرہ توڑنے کی صلاحیت نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی ریاست اپنے وسائل سمیت فلسطینیوں کے ساتھ نہیں کھڑی۔ اب ایک ہی صورت دکھائی دیتی ہے کہ خدا صدر ٹرمپ کے دل میں رحم ڈالے اور وہ اسرائیل کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں۔ اس کیلئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ہماری دعا میں کتنا اثر باقی ہے‘ یہ ہم جانتے ہیں۔
مسلم دانش‘ سیاسی قیادت‘ کسی کے پاس غزہ کے مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل موجود نہیں۔ کسی کے پاس تسلی کے دو حرف ہیں‘ کسی کے پاس دوا کی چند شیشیاں ہیں‘ کسی کے پاس دو وقت کی روٹی ہے‘ کسی کے پاس مذمت کی طویل تقریر اور کوئی خواب فروشی کر رہا ہے۔ زندگی قابلِ عمل حل مانگتی ہے۔ آج کا مسئلہ آج حل چاہتا ہے۔ جو حل پیش کیے جا رہے ہیں وہ قابلِ عمل نہیں۔ جیسے پورا عالمِ اسلام اسرائیل پر پل پڑے۔ جیسے پاکستان ایٹمی حملہ کر دے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سفارتی سطح پر کچھ قابلِ عمل تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے کوئی پہلا قطرہ نہیں بن رہا۔ عرب ممالک سے ہمیں شکایت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی قیادت بھی مطعون رہتی ہے۔ لیکن یہاں تو ترکیہ جیسا ملک بھی کوئی ایسا حل نہیں بتا رہا ہے جس کی قیادت دینی حمیت کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتی ہے۔
اس کیفیت میں صرف شاعری ہمارے کام آ سکتی ہے۔ فیض صاحب ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ آئیے سب باجماعت ان کا کلام گنگناتے ہیں:
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved