تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     27-09-2025

رسول اللہﷺ سے ہمارے تعلق کے تقاضے …(6)

انبیاء علیہم السلام اور صُحُفِ سماوی کی قطعی تعداد قرآنِ کریم کی کسی صریح آیۂ مبارکہ یا احادیثِ صحیحہ میں روایت نہیں کی گئی۔ قرآنِ مجید میں ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم‘ اسمٰعیل‘ اسحٰق‘ یعقوب‘ اُن کے بیٹوں اور عیسیٰ‘ ایوب‘ یونس‘ ہارون اور سلیمان (علیہم السلام) کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے دائود کو زبور عطا کی اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کے احوال ہم اس سے پہلے آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ایسے رسول (بھی) بھیجے جن کے احوال ہم نے آپ کو (ابھی تک) بیان نہیں کیے اور اللہ نے موسیٰ سے (بلاواسطہ) کلام فرمایا اور ہم نے (جنت کی) خوشخبری دینے والے اور (جہنم سے) ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں (کی بعثت )کے بعدلوگوں کے پاس اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے کوئی (قابلِ قبول) حجت نہ رہے اور اللہ بہت غالب‘ بڑی حکمت والا ہے‘‘ (النسآء: 163 تا 165)۔ بعض روایات میں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار (یا کم وبیش) بتائی گئی ہے اور صُحُفِ سماوی کی تعداد ایک سو دس (یا کم وبیش) بتائی گئی ہے۔ ہم قطعیت کے ساتھ انبیاء کی تعداد متعین نہیں کر سکتے تاکہ کسی نبی کی نبوت کا انکار یا غیرِ نبی کو نبی ماننا لازم نہ آئے‘ کیونکہ یہ دونوں صورتیں کفر ہیں۔ ہم انبیائے کرام کی قطعی تعداد کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے علمِ قطعی کی طرف تفویض کرتے ہیں اور سب کی نبوت ورسالت پر اجمالی طور پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔ البتہ مندرجہ ذیل چھبیس انبیائے کرام علیہم السلام کے اسمائے گرامی قطعیت کے ساتھ قرآنِ کریم میں آئے ہیں: سیدنا آدم‘ سیدنا نوح‘ سیدنا ابراہیم‘ سیدنا اسماعیل‘ سیدنا اسحٰق‘ سیدنا یعقوب‘ سیدنا یوسُف‘ سیدنا موسیٰ‘ سیدنا ہارون‘ سیدنا شعیب‘ سیدنا لوط‘ سیدنا ہود‘ سیدنا دائود‘ سیدنا سلیمان‘ سیدنا ایوب‘ سیدنا زکریا‘ سیدنا یحییٰ‘ سیدنا عیسیٰ‘ سیدنا الیاس‘ سیدنا الیَسَع‘ سیدنا یونُس‘ سیدنا ادریس‘ سیدنا ذُوالکِفل‘ سیدنا صالح‘ سیدنا عُزیر اور خاتم النّبیین سیدنا محمد رسول اللہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ۔
ان انبیائے کرام پر نام بہ نام اور قطعیت کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے‘ مومن ہونے کیلئے کل ایمانیات اور ضروریاتِ دین پر ایمان لانا ضروری ہے اور کافر ہونے کیلئے ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار بھی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ہم (ایمان لانے میں) رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے (کہ بعض کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں)‘‘ (البقرۃ: 285)۔ حضرت خضر کا ذکر قرآنِ کریم میں سورۃ الکہف میں موجود ہے‘ البتہ نام کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں ہے۔ ان کی بابت جمہور کا قول یہ ہے کہ یہ نبی ہیں‘ بعض نے نبوت کی نفی بھی کی ہے‘ واللہ اعلم بالصواب۔
نبی کے معنی ہیں: ''غیب کی خبر دینے والا‘‘ اور اگر اس کا آخری حرف ''و‘‘ ہے تو اس کے معنی ہیں: ''بلندی والا‘ عظمت والا‘‘۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبروں کے ساتھ اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا۔ ''غیب الغیوب‘‘ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ملائک‘ جنّات‘ جنّت‘ جہنم‘ عالَمِ برزخ اور عالَم آخرت کے احوال اور اُخروی حساب کیلئے میزانِ عدل کا قیام‘ یہ سب غیبی امور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''کہہ دیجیے! آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کوئی (از خود) غیب نہیں جانتا‘‘ (النمل: 65)۔ پس علمِ غیب ذاتی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو غیبی خبریں بتائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''یہ (وہ) غیبی خبریں ہیں جو ہم نے آپ کی جانب وحی کی ہیں‘‘ (ہود: 49)۔ (2) ''آپ کہیے: وہ (از خود) ہر غیب کا جاننے والا ہے‘ سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا‘ ماسوا اُن کے جنہیں اس نے پسند فرما لیا ہے‘ جو (سب) اُس کے رسول ہیں‘‘ (الجن: 26)۔ (3) ''اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ تم سب کو غیب پر مطلع فرمائے‘ لیکن اللہ غیب پر مطلع فرمانے کیلئے جن کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ (سب) اللہ کے رسول ہیں‘‘ (آل عمران: 179)۔ پس علمِ غیب ذاتی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کو جو غیوب ملے‘ وہ سب اللہ کی عطا سے ہیں اور سب سے زیادہ غیوب خاتم النّبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو عطا ہوئے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور جو کچھ آپ نہیں جانتے تھے‘ وہ سب آپ کو سکھا دیا ہے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘ (النسآء: 113)‘‘۔
امام احمد رضا قادری نے لکھا ہے: ''کسی علم کی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تخصیص اور اس کی ذات پاک میں انحصار اور اس کے غیر سے مطلقاً نفی چند وجوہ پر ہے: (1) اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے‘ کسی کی عطا سے اُسے حاصل نہیں ہوا‘ (2) اللہ تعالیٰ کا علم آلات وذرائع‘ اسباب اور تدبّر وتفکّر کا محتاج نہیں ہے‘ (3) اللہ تعالیٰ کا علم ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘ (4) اللہ تعالیٰ کا علم واجب ہے‘ ایک لمحے کیلئے بھی اُس کا سلب وزوال ناممکن ہے‘ (5) اللہ تعالیٰ کا علم ماضی‘ حال اور استقبال تمام زمانوں کوعام اور شامل ہے‘ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اور کمی بیشی مُحال ہے‘ (6) اللہ تعالیٰ کا علم انتہائی اعلیٰ درجے پر اور کامل ہے‘ کسی بھی معلوم کی ذات‘ ذاتیات‘ اَعراض‘ احوالِ لازمہ‘ مفارقہ‘ ذاتیہ‘ اضافیہ‘ ماضیہ‘ آتیہ (مستقبلہ)‘ موجودہ ممکنہ سے کوئی بھی ذرّہ کسی بھی وجہ پر اُس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ ان چھ خصوصیات پر مشتمل مطلق علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور ایک ذرّے سے متعلق بھی غیر اللہ کی طرف ایسے علم کی نسبت مُحال ہے‘ چہ جائیکہ جمیع علومِ غیبیہ کی بات کی جائے۔ جو کسی غیر اللہ کیلئے ایک ذرے سے متعلق بھی ایسے علم کے اثبات کا یقین رکھے‘ وہ یقینی اور قطعی طور پر کافر ومشرک ہے‘ خواہ اس غیر کا تعلق فرشتوں سے ہو‘ انسانوں سے ہو یا جنّات سے‘‘ (الصمصام‘ص: 6‘ بتصرف)۔ آپ نے مزید لکھا: ''اگر تمام اوّلین وآخرین کا علم جمع کیا جائے تو اُس علم کو علمِ باری تعالیٰ کے ساتھ وہ نسبت بھی ہرگز نہیں ہو سکتی‘ جو ایک قطرے کے کروڑویں حصے کو سمندر سے ہے‘ کیونکہ یہ نسبت متناہی کی متناہی کے ساتھ ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم غیر متناہی ہے‘ سو متناہی کی غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت قائم نہیں ہو سکتی‘‘ (الملفوظ‘ج: 1‘ ص: 46‘ بتصرف)۔ امام احمد رضا قادری مزید لکھتے ہیں: ''علمِ غیب عطا ہونے کا ذکر اور انبیائے کرام ومقرّبینِ بارگاہِ الٰہی کی بہ نسبت ''غیب جاننے‘‘ کے کلمات امت کے مسلّمہ اکابر کے ہاں موجود ہیں‘ حتیٰ کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث مبارک میں حضرت خضر کے متعلق آیا ہے: ''وہ علمِ غیب جانتے تھے‘‘۔ مگر ہماری تحقیق کے مطابق مطلقاً ''عَالِمُ الْغَیْب‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ اس سے ہمارے عرف میں ''علمِ غیب ذاتی‘‘ ہی ذہن میں آتا ہے۔ رسول اللہﷺ یقینا بے شمار ممکنات کے عالم ہیں‘ مگر مطلقاً ''عالم الغیب‘‘ کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوگا۔ مثلاً: رسول اللہﷺ یقینا عزت وجلالت والے ہیں‘ تمام مخلوقات میں انکے برابر نہ کوئی عزیز وجلیل ہے اورنہ ہو سکتا ہے‘ مگر اسکے باوجود ''محمد عَزَّوَجَلَّ‘‘ کہنا جائز نہیں‘ بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کہا جائے گا‘‘ (فتاویٰ رضویہ‘ ج: 9‘ ص: 81‘ بتصرف)۔
خلاصہ یہ کہ اگر ذاتی خصوصیات کے اعتبار سے کسی شخصیت میں کوئی معنی پائے بھی جائیں‘ تب بھی جن کلمات کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے خاص ہے‘ انہیں غیر اللہ کیلئے نہیں بولا جائے گا اور جہاں ایسے کلمات آئے ہیں‘ وہ ذاتی معنی میں نہیں‘ بلکہ عطا کے معنی میں ہیں‘ جیسے اللہ تعالیٰ کیلئے رَئُوْف‘ رَحِیْم اور شَاھِد کے کلمات قرآنِ کریم میں آئے ہیں اور یہی کلمات قرآنِ کریم میں رسول اللہﷺ کیلئے بھی آئے ہیں‘ مگر چونکہ دونوں میں ذاتی اور عطائی کا معنوی فرق ہے‘ اس لیے یہاں شرک کا واہمہ نہیں ہوتا۔ نوٹ: امام احمد رضا قادری کی عبارت کافی ثقیل ہے‘ ہم نے اسے نسبتاً آسان بنانے کی کوشش کی ہے‘ البتہ اصطلاحات کو بدلا نہیں جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved