تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-09-2025

مودی کا شکریہ‘ خان کی سوری

میرا خیال ہے کہ انسان کی سب سے خوفناک جبلت اس کی انا ہے۔ آپ ہر جبلت سے لڑ سکتے ہیں‘ اسے ٹھنڈا کر سکتے ہیں‘ خود کو سمجھا سکتے ہیں لیکن انا وہ چیز ہے جو آپ پر ایسے حاوی ہوتی ہے کہ آپ اس کیلئے مرنے مارنے تک تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان نے کبھی کسی چیز پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا تو وہ اس کی انا ہے‘ چاہے وہ ایک فرد کی انا ہو یا پھر قبائل‘ ملکوں یا قوموں کی۔ اس جبلت پر یقینی طور پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ وقت اور عمر کے ساتھ انسان بہت سارے معاملات کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتا ہے لیکن اس کیلئے لمبی چوڑی کونسلنگ اور تجربہ درکار ہے۔ خود کو مارنا پڑتا ہے۔ ورنہ اس کھیل میں تو لوگ جان دیتے بھی آئے ہیں اور لیتے بھی آئے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے آپ کو کسی انسان کی مثال دینے ضرورت نہیں ہے کہ ہم سب روز اس کیفیت سے گزرتے ہیں‘ جب ہمیں لگتا ہے کہ کسی بندے نے کچھ بول کر یا لکھ کر ہماری انا کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس انا نے انسانوں کو فائدہ بھی دیا ہے لیکن میرے خیال میں اس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ میں اگر خود کو سامنے رکھ کر دیکھوں اور اپنی زندگی پر نظر دوڑاؤں تو مجھے لگتا ہے کہ میں بھی اپنی انا کا قید ی رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ اگرچہ فرق یہ پڑا ہے کہ عمر کے ساتھ میں نے اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ انا نام کی چیز فائدہ کم اور نقصان زیادہ دیتی ہے۔ آج عمر کے اس حصے میں پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ بہت سارے مواقع پر مجھے خاموش رہنا چاہیے تھا یا نظر انداز کر کے آگے گزر بڑھ جانا چاہیے تھا لیکن میری انا نے مجھے مجبور کیا کہ میں نہ صرف واپس سخت جواب دوں بلکہ اگلے بندے کو بتاؤں کہ میں بھی کم نہیں ہوں۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ فضول میں محض اپنی کسی اندرونی خواہش کے دباؤ میں ایک غیرضروری Tug of war میں پڑ گیا۔ اپنی توانائی ضائع کی‘ فضول میں اپنا لہو جلایا۔ اب ان باتوں کو یاد کرتا ہوں تو خود پر ہنسی بھی آتی ہے اور غصہ بھی کہ کتنا وقت ضائع کیا۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کس کس بات پر اکڑ جاتے تھے اور اسے اپنی شان اور فخر سمجھتے تھے۔
میں نے کالج اور یونیورسٹی میں کئی لڑکوں کو گینگز اور گروہ بندی میں زندگیاں ضائع کرتے دیکھا‘ جو محض اپنی انا اور اکڑ کیلئے کالج‘ یونیورسٹی یا ہاسٹلز میں بدمعاشی کرتے تھے۔ اس اکڑ کے پیچھے بھی انا کھڑی تھی کہ ہم دوسروں سے زیادہ بہادر اور شیر جوان ہیں۔ ہم بزدل نہیں۔ ہم کالج یا یونیورسٹی یا ہاسٹل پر راج کریں گے۔ شہر کے بچے ہمیں سلام ٹھوکتے ہیں اور ہمارا رعب دبدبہ چلتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں ہر جگہ یہ رویہ نظر آتا تھا اور اب بھی نظر آتا ہے۔ یہی رویے دھیرے دھیرے قوموں کے مزاج میں داخل ہوتے ہیں۔ سرائیکی میں ایک محاورہ بڑا مشہور تھا (شاید اب بھی ہو) کہ غربت معیاد پر جائے گی‘ بندے کی اکڑ ختم نہیں ہونی چاہیے۔ مطلب کہ غربت تو جب دور ہو گی تب ہو گی لیکن زندگی اکڑ کے ساتھ گزارنی ہے۔ اکثر نوجوان جن کی جیبیں خالی ہوتی تھیں‘ وہ کلف والا سفید جوڑا پہن کر چمکتی چپل‘ جو چلنے کے ساتھ دور دور تک آواز پیدا کرتی تھی‘ باہر نکلتے اور ان کی اکڑ اور شان دیکھنے والی ہوتی تھی۔ اس صورتحال پر بھی ایک محاورہ ہوتا تھا کہ چٹے کپڑے‘ جیبوں خالی۔
میں نے اتنی لمبی تمہید تین لوگوں کا مزاج سامنے رکھ باندھی ہے۔ مقصد آپ کو انا پر لیکچر دینا نہیں تھا بلکہ بتانا تھا کہ کبھی یہ انا آپ کو تخت پر لے جاتی ہے تو کبھی تختے پر۔ اب تین چار عالمی مثالیں دیکھ لیں۔ اگر یوکرین کے زیلنسکی سے شروع کریں تو موصوف اب کہتے ہیں کہ روس اگر جنگ بندی کر دے تو وہ صدارت چھوڑنے کو تیار ہیں۔ روس کہہ رہا ہے کہ آدھا یوکرین ہمیں دے دو جس پر ہمارا قبضہ ہے۔ زیلنسکی اس کے لیے بھی تیار ہے۔ یوکرین کے ہزاروں فوجی مارے گئے۔ پورا ملک تباہ ہو گیا‘ صرف زیلنسکی کی اس انا کے چکر میں کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں۔ سب نے سمجھایا کہ نیٹو کی ضد چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانا۔ وہ بانس پر چڑھ گیا یا چڑھا دیا گیا اور آج خود تختے پر لٹک رہا ہے‘ اس کی سب انا اور اکڑ نکل گئی ہے۔
دوسرے نمبر پر بھارتی وزیراعظم مودی کو دیکھ لیں۔ اچھا خاصا ملک چل رہا تھا لیکن اسے لگا کہ نہیں اپنے فالورز کو کوئی بڑا کام کر کے دکھاتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ کتنا بڑا لیڈر انہوں نے چنا ہے۔ پاپولسٹ لیڈر کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی واردات سوچتا رہتا ہے تاکہ ووٹ بنتے رہیں اور فالورز بڑھتے رہیں اور شہرت بڑھتی رہے۔ زیلنسکی یوکرین کو جنگ میں لے گیا تو مودی نے بھی یہی کام کیا۔ اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑی اور نتیجہ سامنے ہے کہ دنیا حیران رہ گئی کہ پاکستان نے انڈیا کے سات جہاز مار گرائے۔ اچانک دنیا کو احساس ہوا کہ پاکستان تو اتنے بڑے ملک کو ٹکڑ دے سکتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مدد لینا پڑی اور ٹرمپ نے اس پر ٹویٹ بھی کر دیا۔ اب یہاں مودی کی انا آڑے آئی اور اس نے ٹرمپ کو وہ کریڈٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے نہ صرف ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ اس کے کردار کو بھی ہر فورم پر سراہا کہ خطے کو بڑی جنگ سے بچا لیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان بھی مودی والی انا کا روٹ لے سکتا تھا لیکن کیا وہ سمجھدار فیصلہ ہوتا؟ یا تو ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کو جنگ بندی کیلئے فون کالز نہ کی ہوتیں تو بھی بندہ کہتا ہے کہ کیوں بھائی کس چیز کا کریڈٹ۔ مودی کی اکڑ نے ہندوستان کو اس صورتحال میں لاکھڑا کیا جہاں پچاس سال پہلے اندراگاندھی اور صدر نکسن کھڑے تھے۔ انڈیا اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کیلئے پچاس سال تک کی گئی محنت ایک لفظ کی بھینٹ چڑھ گئی اور وہ تھا شکریہ۔ مودی کے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پر شکریہ مسٹر ٹرمپ لکھنے میں کتنا وقت لگنا تھا‘ جیسے وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا‘ لیکن مودی کی انا آڑے آگئی اور وہ ایک لفظ نہ لکھ سکا۔ نتیجہ سامنے ہے‘ پوری دنیا میں سبکی کا سامنا کیا۔ ٹرمپ نے کوئی تیس دفعہ کہا کہ پاکستان نے بھارت کے چھ جہاز گرائے گئے اور میں نے جنگ رکوائی۔
ادھر پاکستان میں عمران خان کی مثال دیکھ لیں۔ فوج نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نو مئی کے واقعات پر معافی مانگیں۔ خان کی انا آڑے آ گئی کہ میں کیوں معافی مانگوں۔ خان کو لگا کہ اگر انہوں نے سوری کہہ دیا تو پھر ان کا ووٹ بینک متاثر ہو گا کہ خان ڈر گیا۔ حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ جس دن یہ واقعہ ہوا میں نیب کی کسٹڈی میں تھا‘ مجھے کیا علم کہ باہر کیا ہو رہا تھا۔ جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر میرے پارٹی ورکرز نے نو مئی کیا ہے تو پارٹی کا بانی ہونے کے ناطے میں معافی مانگتا ہوں۔ لیکن وہی بات کہ بعض لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بھگوان ہیں اور لفظ تھینک یو اور سوری ان کیلئے نہیں بنے۔ صدر ٹرمپ نے مودی سے صرف شکریہ کہلوانا تھا لیکن مودی نے ملک کے مفادات کو داؤ پر لگا کر شکریہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان بھی ایک سوری کر کے پارٹی اور ورکرز کو ریلیف دلوا سکتے تھے لیکن مودی تھینک یو نہ کہہ سکے تو عمران خان سے سوری نہ بولا گیا کہ کہیں ہمارے فالورز ہمیں طعنے نہ دیں کہ ہمارے لیڈرز ڈر گئے۔ اب آپ کی مرضی کہ مودی اور عمران خان کو کریڈٹ دیں کہ ایک امریکی صدر سامنے نہ جھکا تو دوسرا اسٹیبلشمنٹ سامنے ڈٹ گیا۔ یا پھر یہ کہیں کہ دونوں کی انا ان کے ملک اور پارٹی پر بھاری پڑی ہے۔ بہرحال انسانی انا ایک دلچسپ لیکن خطرناک چیز ہے کہ یہ کبھی تخت تو کبھی تختے پر لے جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved