تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     28-09-2025

پاکستان کی عسکری قوت اور سفارتی برتری

کسی قوم کی حقیقی عظمت اور سربلندی کا معیار محض اس کی داخلی خوشحالی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس کے کلیدی اثر و رسوخ اور تکریم میں بھی جھلکتا ہے۔ برسوں کے سفارتی جمود‘ بین الاقوامی محاذوں پر عدم توجہی اور مخالفانہ مہموں کے حصار کو توڑ کر پاکستان آج عالمی افق پر وقار اور اعتماد کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ شاندار تبدیلی محض وقتی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ حکمت عملی پر مبنی طویل مدتی ویژن‘ عسکری قوت کا اظہار اور جرأت مندانہ سفارت کاری کے غیر متزلزل عزم کا ثمر ہے۔ یہ وہ تاریخی موڑ ہے جب پاکستان دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ اس نے اپنا رولنگ سٹون والا دور ختم کر دیا ہے اور اب وہ عالمی معاملات میں فیصلہ کن اور معتبر فریق ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا اپنی آنکھوں پر بندھی بھارتی پروپیگنڈے کی پٹی کو اتار کر حقائق کا ادراک کر رہی ہے۔ چند سال پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بھارت اپنی مضبوط لابنگ اور منظم میڈیا مہمات پر اربوں ڈالر کی رقم جھونک کر سفارتی محاذ پر پیش پیش تھا‘ لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستان نے اپنی حقائق پر مبنی سفارتکاری کی بدولت نہ صرف سفارتی محاذ پر برتری حاصل کی ہے بلکہ بھارت کی سازشوں اور منفی پروپیگنڈے کو بھی دم توڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو بین الاقوامی ملاقاتوں میں ملنے والی غیرمعمولی عزت و توقیر دراصل کسی فرد کی نہیں بلکہ مضبوط ریاست اور باوقار قوم کی عزت و تکریم کی براہِ راست آئینہ دار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا ہمیشہ انہی اقوام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو کسی بھی میدان میں برتری اور قوت کا مظاہرہ کریں۔ معرکہ حق میں پاکستان کی فیصلہ کن کامیابی کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اس معرکے نے دشمن کو اس کے غرور سمیت ذلت آمیز شکست دی اور دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان اب صرف دفاعی نہیں بلکہ خطے میں ایک مؤثر عسکری قوت ہے۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے سے لے کر نامساعد حالات کے باوجود روایتی جنگی صلاحیتوں میں برتری حاصل کرنا ہی وہ بنیاد ہے جس پر آج پاکستان کا وقار کھڑا ہے۔ اسی عسکری طاقت کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی ملک پاکستان پر جارحیت کی ہمت نہیں کر سکتا۔ یہ قوت صرف پاکستان کی سلامتی کی ضمانت نہیں بلکہ اس نے پوری مسلم اُمہ کیلئے ایک امید کی کرن کا روپ دھار لیا ہے۔ ملکی وقار کو بام عروج تک پہنچانے میں موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کی ہم آہنگ پالیسیوں کا اہم کردار ہے۔ یہ ایک نیا دور ہے جہاں پاکستانی قیادت عزت و اعتماد کے ساتھ عالمی رہنماؤں سے مل رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقات اور ملنے والا غیرمعمولی پروٹوکول سفارتی محاذ پر پاکستان کی نئی حیثیت کا ثبوت ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ تلخ باب ہے کہ ماضی میں پاکستانی قیادت کو امریکی صدر سے ملاقات کیلئے بہانے تلاش کرنا پڑتے تھے‘ مگر اب یہ وقت ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نہ صرف پاکستان کے معترف ہیں بلکہ متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے بھی تیار ہیں۔ یہ واضح تبدیلی پاکستان کے سفارتی قد میں اضافے اور عالمی طاقتوں کی پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس ملاقات میں وزیراعظم کی جانب سے امریکی کمپنیوں کو زراعت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا معاشی سفارت کاری کا عکاس ہے۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی آئی جو آنے والے دنوں میں معاشی حالات میں بہتری کی علامت ہے۔ عرب ممالک سے لے کر مغربی قوتوں کے اہم مراکز تک ہماری قیادت کو ملنے والا احترام اور خاص توجہ صرف افراد کا اعزاز نہیں ہے یہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدلتی ہوئی پوزیشن اور مضبوط پہچان کا ثبوت ہے۔ یہ تکریم دراصل ریاست کی طاقت‘ خارجہ پالیسیوں اور بین الاقوامی معاملات میں اپنا اثر و رسوخ منوانے کی صلاحیت کا اعتراف ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے عرب ممالک کے کامیاب اور نتیجہ خیز دوروں اور وہاں کی قیادت کے ساتھ مضبوط ہوتے عسکری و سکیورٹی تعلقات نے نہ صرف پاکستان کی جیو سٹریٹجک اہمیت کو مزید تقویت دی ہے بلکہ مسلم دنیا میں پاکستان کے مرکزی اور فیصلہ کن کردار کو بھی بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب پاکستان کی خود اعتمادی اور جرأت کی ایک شاندار مثال ہے۔ یہ خطاب حق گوئی اور سچائی کا ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جہاں ایک طاقتور اور خود دار پاکستان دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھارت کو آئینہ دکھایا اور دشمن کو اس کی ذلت آمیز شکست یاد دلائی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔ پاکستان نے جنگ جیت لی اب ہم امن جیتنے کے خواہاں ہیں۔ یہ بیان قوت کے ساتھ امن کا پیغام دیتا ہے۔ ایک جانب انہوں نے ہندوستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا‘ وہیں دوسری جانب پاکستان کی امن پسندی کو ظاہر کرتے ہوئے تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیاری کا اظہار بھی کیا۔ تاہم یہ امن کمزوری کا نام نہیں‘ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں دشمن کے ساتھ جرأت کے ساتھ اور اپنی شرائط پر بات کر رہا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں صرف پاکستان کی بات نہیں کی بلکہ وہ پوری مسلم اُمہ کی آواز بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے غزہ کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اسرائیل کی فلسطین کے خلاف شرمناک مہم اور نسل کُشی پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینیوں سے ناانصافی کو عالمی ضمیر پر داغ قرار دینا پاکستان کی اسلامی دنیا میں قیادت کے عزم کا مظہر ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی اور ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی نقصانات کے عوض مزید قرضوں کے بوجھ کو ناانصافی قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ جن ممالک کا موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں کوئی کردار نہیں وہ کیسے مزید قرضوں کا بوجھ بڑھائیں۔ یہ خطاب بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کے فعال اور اصولی مؤقف کو واضح کرتا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہونے کی یہ کہانی صرف حکومتی کامیابیوں کی داستان نہیں بلکہ پوری قوم کے عزم‘ جوانوں کی قربانیوں اور عسکری قیادت کے غیر متزلزل ارادوں کی ترجمان ہے۔ عالمی فورم پر پاکستان کی قوت کا اظہار اور پھر مذاکرات کی پیشکش‘ یہ ایک دبنگ انداز ہے جو دنیا کو نئے پاکستان کا پیغام دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صبح ہے جہاں سفارتی محاذ پر خود اعتمادی اور عسکری طاقت کی پختگی ملک کو بام عروج کی طرف لے جا رہی ہے۔ اب پاکستان کو اپنی داخلی کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے معاشی استحکام اور خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہے تاکہ عالمی قیادت کا یہ منصب مستقل اور پائیدار بن سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved