یہ 2010ء کا سال تھا‘ بحث میں چھ ماہ لگ گئے۔ اکثر ایسے حضرات تھے جنہیں Constitution کی ''C‘‘ کا بھی پتا نہیں تھا۔ مگر اُن کے اردگرد دن رات Parliamentary Advocacy کی کارروائی ڈالنے والے خواتین وحضرات کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ اس طرح کے سارے کام ہمیشہ ایجنڈا Driven ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ایجنڈا بڑا واضح اور کھلا تھا۔ کچھ ملکوں کے متعلقہ یا پروردہ ٹولے پاکستان میں اپنی مرضی کا آئین بنوانے کے لیے رنگ برنگے لوگوں کو پارلیمنٹ کے اندر موجود طاقتوں کے ساتھ لگائے رکھتے تھے تاکہ اپنے حق میں پارلیمانی حلقوں کی ذہن سازی کا مرحلہ طے کیا جا سکے‘ کامیابی سے۔ قدرت کی مہربانی سے اُن دنوں میں فیڈرل منسٹر فار لاء اینڈ جسٹس تو تھا ہی‘ وزارتِ پارلیمانی افیئرز کا ڈویژن بھی میرے ماتحت کیا گیا تھا۔ قومی مفاد کی اس اہم ترین ایکسرسائز کی وجہ سے میں نے کچھ وکیل اور پارلیمنٹیرین دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اصول پہلے سے طے کر لیا‘ جس کے مطابق کسی فارن فنڈڈ NGO سے ملاقات اور تعلقات سے دور رہنا ہے۔ اس فیصلے کی دو ضروری وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ‘ آئین سازی ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ترین کام ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے آپ کو صرف ایک بات بتا دینا ہی کافی رہے گا۔ ماضی کے ڈکٹیٹر جنرل ضیا نے ریفرنڈم کے نام پر 1973ء کے دستور میں اپنا نام ٹھونس رکھا تھا۔ اُس کے نام کو نکال کر آئین کو صاف کرنے میں قوم کے 23 سال لگ گئے۔ اس کی دوسری وجہ بھی بڑی اہم تھی۔ افراد اور ٹولیوں کے علاوہ بہت سے ممالک پاکستان کے آئین کو سیکولر یا پھر اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لیے لبرل سیاسی مولویوں کو استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی بڑی دلچسپ ہے بلکہ ہوشربا بھی۔ مگر آج کا موضوع اس سے متعلق نہیں‘ اس لیے پھر کبھی ضرور بات کریں گے۔
میں ایک دن پارلیمانی افیئرز کے منسٹر آفس میں بیٹھا ہوا تھا‘ بلااطلاع ایک صاحب آ گئے جو بڑے ترقی پسند تھے‘ اسی لیے ذاتی ترقی کو بہت پسند کرتے تھے۔ معمولی سے کاروبار سے آغاز کرنے والے‘ آج کینیڈا میں ایک پورا علاقہ اُن کا فارم کہلاتا ہے۔ یورپی یونین کے پولینڈ اور اُس کے پیچھے والے ممالک میں اُن کی پراپرٹیاں اور مسلسل دورے اوورسیز پاکستانی بیان کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں اُن کے شاہانہ شادی ہال‘ ٹاپ آف دی لائن پٹرول پمپ کی لائن لگ گئی ہے۔ اس مرحلے پر مجھے پنجاب کی سی ایم کا بیان یاد آ گیا۔ موصوفہ نے حال ہی میں فرمایا: عمران خان جیل میں بند ہے‘ اُس کو کیا معلوم کہ پُلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے۔ یہ اُس کے زمانے والا پاکستان نہیں‘ یہ ہمارے دور کا پاکستان ہے جو ترقی کر چکا ہے۔ پنجاب نے ترقی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بیان پڑھ کر عوام پہلے روئے اور پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ روئے اس خاطر کہ اُن کو وزیراعلیٰ نے اطلاع دی ہے‘ پچھلا 75 سالہ دور عمران خان کا تھا اور دو سال کی قید کے دوران ہم اُس دور سے نکل کر ترقی کے سیلابی دور میں داخل ہو چکے ہیں‘ کسی کو پتا بھی نہیں چل سکا۔ اسی خانوادے کے ایک چشم وچراغ کا بیان تو آپ کو یاد ہی ہے۔ بچو کرپشن کرپشن ہوتی ہے اور سیاست سیاست ۔ سیاست میں کرپشن ہوتی رہتی ہے۔
یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں! پاکستان میں کرپشن سے بنائی گئی جائیدادوں کو ترقی کہنا حوصلہ مند سیاست کاروں کا کام ہے۔ حوصلے سے مجھے مارگلہ کے دامن میں شاہراہِ ایران پر لگے ہوئے کروڑوں روپے کے دو سٹیل کے ماڈلز یاد آ گئے۔ ان کی اونچائی چالیس فٹ کے قریب تھی‘ جو وفاقی ترقیاتی ادارے کے ذریعے حکومت نے ایک مصروف چوک میں ترقی کی علامت کے طور پر لگوا چھوڑے۔ پوٹھوہاریوں‘ ہزارے والوں اور اسلام آبادیوں نے ان برادر سٹیل ماڈلز کی وضع قطع کے بارے میں ایسے ایسے میمز بنائے کہ پہلے اونچے کرین منگوا کر ان ماڈلز پر کالے کپڑے ڈالے گئے۔ پھر دونوں کو پبلک پریشر کی وجہ سے ہٹانا پڑ گیا۔ اس چوک سے ذرا آگے میری پسندیدہ پہاڑی ہے‘ جس پر اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ چند دن پہلے دوستوں کے ساتھ جانا ہوا تھا۔ ماڈلز چوک پر پہنچے جہاں کسی صاحبِ طرز نے یہ سرجیکل سپرے بورڈ لگا رکھا تھا۔ کھنڈر بتا رہے ہیں خوشامد عظیم تھی۔ پنجابی زبان کا ایک جملہ بھی وہاں پڑے ہوئے ملبے پر یوں لکھا ہوا ہے: خودداری دے پھٹَے چُکّ۔
بچوں کو پنجاب میں فارم 47 کے بینی فشریز جو سبق دے رہے ہیں اُس کا ایک حصہ اوپر آپ نے پڑھ لیا۔ دوسرے حصے کے لیے لیڈی چیف منسٹر کا بیان پڑھ لیں۔ رشوت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی‘ رشوت جس رفتار سے آتی ہے‘ اُسی رفتار سے چلی جاتی ہے۔ یہ سو فیصد سچ ہے ۔ اس لیے کہ کیش کیری بوائز‘ مقصود چپڑاسی اور منی لانڈرنگ کا بغیر کسی مداخلت کے چلنے والا نظام ثابت کرتا ہے کہ رشوت جس رفتار سے پاکستان کے اندر سے آتی ہے اُسی رفتار سے وہ پاکستان سے باہر اکائونٹس میں چلی جاتی ہے۔
اس تمہید کی ضرورت پشاور جلسہ دیکھ کر پیش آئی‘ جہاں ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے اور ہزاروں کا اجتماع پنڈال میں 'عمران خان کو رہا کرو‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ پشاور والوں نے ہائبرڈ نظام کو سیدھا دو لفظی پیغام بھیجا۔ پشاور دیکھ لو۔ یہ پشاور والوں کا کپتان کے لیے جذبہ اور جنون ہے۔ کپتان تو ابھی جیل میں ہے ابھی یہاں نہیں تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے سرکاری بیانیے کا سارا زور ٹرمپ کی خوشنودی اور عمران خان کی فرمائشی سزائوں پر ہے۔ جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا تب دو عدالتیں راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں عمران خان کے خلاف مقدمے چلا رہی ہوں گی۔ ایک مقدمہ توشہ خانہ دو نمبر۔ دوسرا مقدمہ عمران خان کی طرف سے 9 مئی کی صبح ساڑھے 9 بجے گرفتار ہونے کے بعد زیرِ حراست ہوتے ہوئے تین بج کر 20 منٹ پر دہشت گردی کی سازش کرنا ہے۔ اب تک عمران خان کے خلاف 300 مقدمے بنائے جا چکے۔ سارا زور لگانے کے بعد طاقت دو نکتہ ہائے انجماد پر گِر گئی۔ پہلا نکتہ‘ کسی نامعلوم محبِ وطن شہری کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر تازہ درخواست ہے۔ اتنی شرمناک جس کی تفصیل لکھنے سے قلم بھی شرما گیا۔ دوسرا نکتہ‘ عمران خان کا ایکس (ٹویٹر) اکائونٹ ہے۔ اس اکائونٹ پر گلوبل جرنلسٹ اور انفلوئنسر مہدی حسن نے جھوٹی تہمت کی سرجری امریکہ کی سڑکوں پر کر دی۔ دفاع کے وزیر نے پہلے پاکستان میں کہا کہ عمران خان کا اکائونٹ انڈیا کی سہولت کاری سے چلتا ہے۔ مہدی حسن کے انٹرویو میںیہ بیان بدل دیا‘ کہا: عمران خان کا اکائونٹ جیل سے چلتا ہے لیکن بھارتی انٹیلی جینس کی امداد سے۔ کوئی شرم ہوتی ہے‘ حیا دور کی بات ہے۔
پشاور والوں نے صحیح یاد دلایا۔ دیکھ لو ابھی کپتان نہیں ہے تو ہائبرڈ نظام کا حال یہ ہے۔ ٹرمپ کی چِٹ والی بات تو آپ نے سُنی ہو گی‘ جس میں صدرِ امریکہ نے پاکستان سے حصولِ مطالبات کی ''وِش لسٹ‘‘ پیش کر دی۔ وش لسٹ کیا‘ یہ ایک چھپکلی ہے جو نہ کھائی جا سکتی ہے اور نہ اسے تھوک دینے کی گنجائش ہے۔ قیدی نمبر 804 سے خوف کی بجائے عوام کا فیصلہ مان لو‘ جن کی اُمید کی عمران ہے۔
جرسِ گُل نے کئی بار پکارا لیکن
لے گئی راہ سے زنجیر کی جھنکار مجھے
ناوکِ ظلم اٹھا‘ دشنۂ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجرِ بے نام سے مت مار مجھے
ساری دنیا میں گھنی رات کا سناٹا تھا
صحنِ زنداں میں ملے صبح کے آثار مجھے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved