تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     30-09-2025

ایک نشست آوارہ کتوں کے ساتھ

وفاقی دارالحکومت میں آوارہ کتوں کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے کہ بہت بڑے بڑے سرکاری اداروں اور محکموں نے متعلقہ ترقیاتی اتھارٹی اور شہری کارپوریشن کو ہدایت کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کریں!
ویسے یہ کالم نگار تقریباً ساٹھ برس سے وفاقی دارالحکومت میں رہ رہا ہے۔ آج تک کسی آوارہ کتے نے نہیں کاٹا۔ کوئی آوارہ کتا اس کالم نگار پر نہیں بھونکا۔ کسی آوارہ کتے نے راستہ نہیں روکا۔ کوئی آوارہ کتا پیچھے نہیں بھاگا۔ کس کس نے کاٹا‘ کس کس نے راستہ روکا‘ کون کون بھونکا‘ اس کی تفصیل بتانے کا یہ موقع نہیں! بس اتنی وضاحت کافی ہے کہ ان حرکتوں میں سے کوئی حرکت کسی کتے نے یا کسی آوارہ کتے نے نہیں کی۔
کل جب میں ایک پارک میں سیر کر رہا تھا‘ ایک طرف چند آوارہ کتے بیٹھے آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ میں ابھی ان سے کافی دور تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ایک کتے نے میری طرف اشارہ کر کے اپنے ساتھیوں سے کچھ کہا جس کے نتیجے میں تمام کتے میری طرف دیکھنے لگے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے! جیسے ہی میں نزدیک پہنچا‘ اشارہ کرنے والا کتا آگے بڑھا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ اس کی آواز میں نرمی تھی۔ یوں لگتا تھا وہ ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے والا کتا تھا۔ مجھ سے پوچھا ''آپ وہی ہیں نا جو کالم وغیرہ لکھتے ہیں؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر اس نے کہا ''اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہو تو میں اور میرے ساتھی آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں!‘‘ اس کی نرم گفتاری اور شائستگی نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ میں اس کے ہمراہ اس کے ساتھیوں کی ٹولی میں چلا گیا۔ ایک کتے نے اپنی دُم سے زمین کا تھوڑا سا حصہ صاف کیا اور مجھے وہاں بیٹھنے کی دعوت دی۔ اس نے ساتھ ہی معذرت کی کہ یہ جگہ میرے شایانِ شاں نہیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے نوٹ کیا کہ سب کتوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور نرمی تھی۔ میں نے پوچھا: آپ حضرات پالتو ہیں یا آوارہ؟ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہم انسانوں کے برعکس وہ تمام بیک وقت نہیں بولتے تھے۔ اگر ان کا ایک ساتھی میرے سوال کا جواب دیتا تو باقی کتے خاموش رہتے۔ میں ان کے اس ڈسپلن اور اس تنظیمی رنگ پر حیران ہوا۔ جو کتا اپنی ٹولی سے نکل کر مجھے بلانے آیا تھا اس نے میرے سوال کا جواب دیا۔ اس نے کہا کہ وہ سب آوارہ کتے ہیں۔ اس نے یہ وضاحت بھی کی کہ وہ پالتو کتوں کو بر سرِ روزگار اور آوارہ کتوں کو بے روزگار کہتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''آوارہ‘‘ اور ''پالتو‘‘ کی اصطلاحات ان کے نزدیک تکنیکی لحاظ سے غلط ہیں۔ انہوں نے اس نکتے کی مزید وضاحت کی کہ ملک نکمے اور بیکار لوگوں سے اٹا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر کہیں ٹریفک کا حادثہ ہو جائے یا دو انسانوں کے درمیان جھگڑا یا ہاتھا پائی ہو جائے تو آن کی آن میں ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ پہروں جائے حادثہ یا جائے واردات پر کھڑے رہتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ڈیوٹی ہے نہ کام! انہوں نے کسی دفتر‘ کسی کھیت‘ کسی کارخانے میں نہیں جانا۔ ایسا ہوتا تو وہ ایک منٹ بھی بیکار کھڑے نہ رہتے۔ سوال یہ ہے کہ ان بیکار‘ نکمے اور غیر پیداواری انسانوں کو آوارہ کیوں نہیں کہا جاتا؟ سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس ان کے اس منطقی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر انہوں نے فوراً موضوع بدلا۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے لاجواب دیکھ کر وہ مجھے شرمندہ نہیں کرنا چاہتے۔ ان میں سے ایک معمر کتے نے کہا کہ ''اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت پر 2022ء میں ایک مرکز بنایا گیا تھا جس کا نام Stray Dogs Population Control Centre (SDPCC) تھا‘ یعنی آوارہ کتوں کی آبادی کم کرنے والا مرکز! مگر یہ مرکز چلانے والے اپنی نااہلی کی وجہ سے اسے اس طرح چلا ہی نہیں سکے جیسا کہ چلانا چاہیے تھا! جو ہماری‘ یعنی کتوں کی آبادی کم نہیں کر سکتے‘ وہ ملک کی بے تحاشا‘ بے لگام‘ بڑھتی ہوئی آبادی کو کیسے کنٹرول کریں گے؟‘‘ ایک کتا جو شکل سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لگ رہا تھا‘ کہنے لگا ''الزام یہ ہے کہ ہم آوارہ (بقول اُن کے) کتے لوگوں کو کاٹتے ہیں۔ میں حکومت کو اور تحقیقی اداروں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اعداد وشمار پیش کریں کہ ایک سال میں ہم کتوں کے کاٹنے سے کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ یہ تعداد بتانے کے بعد متعلقہ ادارے یہ بھی بتائیں کہ ملاوٹ والی غذاؤں کی وجہ سے سال میں کتنے افراد مرتے ہیں؟ دلوں میں جعلی سٹنٹ ڈالنے سے کتنے مریض جاں بحق ہوئے ہیں؟ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جعلی ادویات کی فیکٹریاں گھر گھر چل رہی ہیں۔ ان جعلی دواؤں سے ایک سال میں کتنے پاکستانی موت کے گھاٹ اترے ہیں؟ حکومت بتائے کہ ڈمپر ہر سال کتنے انسانوں کو کچل رہے ہیں؟ ابھی دو ہفتے پہلے ایبٹ آباد میں ڈمپر نے سکول جانے والے آٹھ بچوں کو کچل دیا۔ ڈمپر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ ہر سال شاہراہوں پر کتنے لوگ ٹریفک حادثات کے سبب مرتے ہیں؟ ٹریفک پولیس کے کتنے افسروں اور کتنے اہلکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں؟ کیا حکومت بتائے گی کہ ملک میں جعلی حکیموں‘ ہومیو پیتھوں اور اتائیوں کی کتنی تعداد ہے؟ اور ہر سال کتنے افراد ان کی سفاکی اور فریب کاری کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟ ان تمام اعداد ومار کے بعد بتایا جائے کہ زیادہ اموات ہم آوارہ کتوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں یا ان سب قاتلوں کی وجہ سے جن کا ذکر ابھی کیا ہے؟‘‘۔
میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان کتا میرے قریب آیا اور کہنے لگا ''یہ بتائیے کہ کیا کوئی آوارہ کتا سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں کبھی ملوث ہوا ہے؟ کتنے آوارہ کتوں نے حرام کے چند سکوں کی خاطر غیر ملکیوں کو ناجائز شناختی کارڈ اور ناروا پاسپورٹ بیچ کر غداری کے ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے؟ کتنے آوارہ کتوں نے کمیشن لے کر ناقص پُل اور شاہراہیں تعمیر کروائی ہیں؟ کیا چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ آوارہ کتے ملے ہوئے ہیں؟ کیا یہ آوارہ کتے ہیں جو کاریں اور بندے اغوا کرتے ہیں‘ پھر اس ''محنت‘‘ کا معاوضہ مسجدوں میں بیٹھ کر وصول کرتے ہیں؟ اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بچوں کی ''محنت‘‘ ہے! حکومت بتائے کہ آج تک کتنے آوارہ کتے رشوت لیتے یا دیتے پائے گئے ہیں؟ کیا کسی آوارہ کتے نے مکان کا نقشہ منظور کرنے یا کروانے کے بدلے میں رشوت لی ہے؟ اور کیا یہ آوارہ کتے ہیں جو ملک کے ہر شہر اور ہر قصبے میں لاکھوں گداگروں کا مافیا چلا رہے ہیں؟ کیا آج تک کوئی کتا کسی دوسرے ملک میں منشیات کی حمل ونقل کے جرم میں پکڑا گیا؟ کیا کسی کتے کا اس جرم میں سر قلم ہوا؟‘‘
سب سے زیادہ بزرگ کتا ابھی تک خاموش تھا۔ اس نے میرے قریب آنے کے لیے اٹھنا چاہا تو دو نوجوان آوارہ کتے فوراً اٹھے اور اسے سہارا دے کر لائے۔ بوڑھا کتا کھانس رہا تھا۔ وہ مجھ سے مخاطب ہوا ''دیکھیے! ہم نام نہاد آوارہ کتے کسی پر بوجھ نہیں۔ ہم اپنا رزق چوری کرتے ہیں نہ کسی کے آگے جھولی پھیلاتے ہیں۔ ہمیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے‘ گلی کوچوں سے‘ گندی نالیوں سے جو ملتا ہے کھا لیتے ہیں۔ یہ جو ہم کھاتے ہیں کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ ہم کتے ہیں مگر ہم حرام نہیں کھاتے!‘‘ بوڑھا کتا پھر کھانسنے لگا اور کھانستے کھانستے بے حال ہو گیا۔ اس کی سانسیں بحال ہوئیں تو اس نے میرے قدموں کو اپنے منہ سے مس کیا‘ پھر اپنی پوری کمیونٹی کی طرف سے میرا شکریہ ادا کیا۔ میں پارک سے نکلا تو یقین کیجئے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved