تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-09-2025

برابری کے حقوق کی آئینی ضمانت بیکار ہے

شاہ جی میں سو خرابیاں ہوں گی لیکن ان کی ایک خوبی کا میں معترف ہوں اور وہ ان کی سحر خیزی ہے۔ ان کے مقابلے میں مَیں صبح فجر کے بعد دوبارہ سونے کا عادی ہوں۔ میری یہ عادت کوئی اب کی بات نہیں‘ لڑکپن سے ہے۔ اللہ بخشے ابا جی مرحوم نے مجھے میری اس عادت پر بارہا ڈانٹا لیکن یہ فرمانبردار اس معاملے میں خاصا ڈھیٹ واقع ہوا۔ ایک روز تو یوں ہوا کہ اباجی کا موڈ بہت خوشگوار دیکھ کر حوصلہ کیا اور انہیں کہا کہ وہ ایک بار فجر کے بعد خود سو کر دیکھیں کہ اس دوبارہ والی نیند میں کس قدر مزہ ہے‘ آپ خود کہیں گے کہ ساری رات کی نیند ایک طرف اور یہ صبح والی نیند ایک طرف۔ ابا جی اللہ جانے کس موڈ میں تھے‘ بجائے ڈانٹنے کے ہنسنے لگ گئے اور ماں جی کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اسے دیکھو‘ بجائے خود ٹھیک ہونے کے الٹا مجھے خراب کرنے لگا ہے۔ سو یہ عادت ایک تسلسل اور مستقل مزاجی سے چل رہی ہے۔
شاہ جی علی الصبح اٹھنے والوں میں سے ہیں۔ میں نے کئی بار پوچھا کہ آخر سحر خیزی کا کیا فائدہ ہے؟ آپ کون سا صبح سویرے اُٹھ کر کوئی توپ چلا لیتے ہیں۔ آپ جتنی جلدی اٹھ جائیں مخلوقِ خدا کی اتنی جلد شامت آ جاتی ہے۔ آپ سوائے لوگوں کی زندگی مشکل بنانے کے علاوہ اور کرتے ہی کیا ہیں۔ شاہ جی جواباً کہتے ہیں کہ تم ایمان سے بتاؤ کہ کیا میں تمہیں کبھی صبح سویرے فون کرتا ہوں؟ کبھی تمہیں نیند سے اٹھاتا ہوں؟ میں ان کا اس بات پر نہ صرف شکریہ ادا کرتا ہوں بلکہ ان کے خلاف بولے گئے اپنے کلمات پر ان سے معذرت کرتا ہوں اور اس کے پیشِ نظر صرف یہی ایک خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ جواباً مجھے صبح سویرے فون کر کے پریشان کرنے پر آ گئے تو کیا ہو گا۔ وگرنہ میں جو اُن سے کہتا ہوں وہ ہوتا سو فیصد سچ ہے۔
دور روز قبل ہوٹل میں سو رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو دوسری جانب شاہ جی تھے اور وہ جب کبھی علی الصبح فون کریں تو خیریت نہیں ہوتی۔ وہ عموماً اس وقت رات گئے ہونے والے کسی ضروری واقعے‘ کسی فوتگی یا اسی قسم کی کوئی ضروری بات بتانے کیلئے فون کرتے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے: دو روز قبل میں نے تمہارا کالم پڑھا تھا۔ تمہیں تو علم ہی ہے کہ تمہارا کالم میں بلاناغہ پڑھتا ہوں۔ میں نے کہا: شاہ جی یہ میری بدقسمتی ہے کہ آپ میرے قاری ہیں تاہم میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا کالم پڑھنے کے پیچھے آپ کا واحد مقصد میرے کالم سے غلطیاں تلاش کرنا اور میری بے عزتی کرنا ہوتا ہے۔ میں آپ سے کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ آپ جس طرح دیگر بہت سے لوگوں کی بشمول میرے‘ بلاوجہ بے عزتی کرنے پر قادر ہیں‘ تو اس کیلئے آپ کو میرا کالم پڑھنے جیسی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: کبھی کبھار بامقصد بے عزتی میں جو مزہ ہے وہ عموماً بلاوجہ بے عزتی کرنے میں نہیں ہے۔ تاہم میں نے آج صبح صبح یہ فون تمہاری عزت افزائی کیلئے کیا ہے۔
میں ابھی آدھا گھنٹہ قبل پرانے بہاولپور روڈ سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں‘ سیشن حج صاحب کے گھر کے عین سامنے واقع ملتان کا وہ قدیمی اور تاریخی کھڈا‘ جس کے بارے میں تم نے اپنی ذاتی اور گمراہ کن قسم کی تاریخ منسوب کر رکھی ہے‘ اسے بڑی پھرتی اور سپیڈ سے پُر کیا جا رہا تھا۔ میں نے اس سارے کام کی نگرانی کرنے والے سپروائزر ٹائپ بندے سے کہا کہ وہ اس تاریخی کھڈے کو کیوں پُر کر رہا ہے‘ کیا اسے علم نہیں کہ وہ ملتان کی تاریخ کے ایک روشن باب اور اہم سنگِ میل کو اُکھاڑ رہا ہے۔ بعض مؤرخین کے نزدیک سات ہزار سال قدیم اور مسلسل آباد شہر ہونے کے باوجود ملتان شہر تاریخی مقامات‘ قدیمی عمارات اور اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے سے محروم ہے اور آپ لوگ اس کے چند بچ جانے والے تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کو بھی تاراج کر رہے ہیں۔ اس سپروائزر نے پہلے تو مجھے ہونقوں کی طرح دیکھا پھر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے کام میں حرج نہ کریں‘ ورنہ کمشنر صاحب کو کہہ کر آپ پر کارِ سرکار میں مداخلت کا پرچہ کروا دوں گا۔ آپ کو علم نہیں کہ کمشنر صاحب نے حکم دیا ہے کہ یہ کھڈا دو دن میں بند کر کے میرے دفتر میں رپورٹ کریں۔ میں اب اس جاہل کو کیا سمجھاتا۔ وہاں سے گاڑی پر گھر کی جانب جاتے ہوئے ابھی دو منٹ پہلے نو نمبر چونگی کے پاس سے گزرا تو وہاں بھی واسا والے تمہاری تحقیق کے مطابق بھنگیوں والی توپ کے قاتل کھڈے کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کرنے کے درپے تھے۔ وہاں کھڑے اہلکاروں سے اس کھڈے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو سیشن جج ہاؤس کے سامنے 1857ء کی جنگ آزادی والے کھڈے کو ختم کرنے کے درپے سپروائزر نے بتایا تھا۔ پھر کہنے لگے تمہارے کالم ہیں ہی منحوس‘ جس چیز کے بارے میں بھی لکھتے ہو اس کی شامت آ جاتی ہے۔ صرف تمہارے کالم نے ان دو تا ریخی کھڈوں کو ہستی سے نیستی میں بدل دیا۔ تمہیں کئی بار منع بھی کیا ہے کہ خواہ مخواہ کی باتوں میں غیر ضروری دخل اندازی نہ کیا کرو مگر تم ہو کہ باز ہی نہیں آتے۔
ٹریفک کے معاملات پر لفٹر کے ذریعے ہونے والے چالانوں کی ساری رقم جو سرکار کے کھاتے میں جانے کے بجائے ایک پرائیویٹ قسم کے ویلفیئر فنڈز میں جا رہی ہے‘ تم نے اس کے خلاف دو تین کالم لکھے تو نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملتان پولیس کے کرتا دھرتا کی چھتری تلے ہونے والے اس لوٹ مار پروگرام کا دائرہ کار مزید وسیع ہو گیا۔ سڑک پر نو پارکنگ والی جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے اور ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ بننے والے مقام پر گاڑی پارک کرنے پر تو چالان کی منطق سمجھ میں آتی ہے لیکن کارڈیالوجی ہسپتال کی ایمرجنسی والے دروازے کے ساتھ ایک ڈیڑھ مرلے پر مشتمل بالکل خالی جگہ ہے۔ جہاں کھڑی گاڑی نہ تو ٹر یفک میں روڑا اٹکاتی ہے اور نہ ہی کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کے ایمر جنسی والے دروازے سے گزرنے والوں کیلئے رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ اس جگہ سامنے دیوار پر ٹریفک پولیس نے لکھوا دیا ہے کہ یہاں گاڑی کھڑی کرنے پر اٹھا لی جائے گی۔ یعنی کسی مریض کے لواحقین ایمرجنسی میں بھی یہاں گاڑی کھڑی نہیں کر سکتے۔ بندہ پوچھے اس جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے سے ملتان پولیس کو کیا مسئلہ ہے؟
چند روز قبل ایک دوست نے بتایا کہ وہ گزر رہا تھا تو کسی مریض کے ساتھ آنے والے بندے نے پارکنگ میں جگہ نہ ہونے کے باعث اپنی گاڑی ادھر کھڑی کر دی تو لفٹر فوراً اٹھانے آ گیا۔ اس شخص نے بتایا کہ اندر پارکنگ میں جگہ نہیں ہے۔ جواباً ٹریفک پولیس والے نے کہا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں کہ اندر جگہ نہیں ہے۔ آپ فوراً دو ہزار روپے ادا کریں۔ اندر مریض حیات وموت کی کشمکش میں ہے اور باہر پولیس کو محض اپنا لفٹر گاڑی سے ٹچ کرنے کے عوض دو ہزار روپے وصول کرکے نام نہاد ویلفیئر کے نام پر غتر بود کرنے کی پڑی ہوئی تھی۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ کورٹس اور ہائیکورٹ کے ساتھ والی سڑکیں صبح ساڑھے آٹھ بجے سے سہ پہر تک عملی طور پر وکلا اور سائلوں کی گاڑیوں کیلئے پارکنگ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہائیکورٹ سے متصل سڑک پر پرانے بہاولپور روڈ سے ایس پی چوک کی طرف جانے والی عام ٹریفک تو اس ''پارکنگ لاٹ‘‘ سے بہرطور کسی نہ کسی طرح پھنس پھنسا کر نکل جاتی ہے۔ دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک کو ان اوقات میں باقاعدہ بیریئر لگا کر اس طرف داخل ہونے ہی سے روک دیا جاتا ہے کہ وکلا کی غیر قانونی پارکنگ کو تحفظ دیا جا سکے۔ کیا شاندار ریاست ہے کہ جہاں عدالت کے دروازے پر قانون شکنی ہو رہی ہے۔ مریض کے ورثا کو جرمانے اور وکلا اور ان کے موکلین کو غیر قانونی پارکنگ کی باحفاظت سہولت۔ آئین کی کسمپرسی آپ کے سامنے ہے لیکن پھر بھی اس بات پر اصرار ہے کہ پاکستان کے تمام شہری برابر کے حقوق کے حامل ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved