تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     30-09-2025

بہار آئی تو .......!!

برادر عزیز نصرت جاوید نے مستحکم جمہوری انقلاب بپا کرنے کے حوالے سے ''سوشل میڈیا‘‘ کو ''واہمہ‘‘ قرار دے کر ایک پرانی بحث کا نیا دریچہ کھول دیا ہے۔ بلاشبہ کبھی یہ ''واہمہ‘‘ یا ''سرابِ نظر‘‘ تھا مگر ''بہارِ عرب‘‘ کے فیضان سے کھلے گلستانوں کے بعد یہ ''واہمہ‘‘ نابود ہو گیا۔ معلوم پڑا کہ فوری جذباتی اشتعال‘ جھنجھلاہٹ‘ غیظ وغضب اور بے سمتی جابروں کے تختے تو الٹ سکتی ہے‘ ریاستوں اور خلقِ خدا کی تقدیریں نہیں بدل سکتی۔
پندرہ برس قبل‘ دسمبر 2010ء میں‘ حالات سے تنگ ایک تیونسی نوجوان‘ محمد بن بُوعزیزی نے خودسوزی کر لی۔ صدر زین العابدین کے طویل اقتدار سے تنگ آئے‘ جبر کی چکی میں پستے عوام کا لاوا پھٹ پڑا۔ 'سوشل میڈیا‘ نے توپوں کے دہانے کھول دیے۔ زین العابدین فرار ہو کر سعودی عرب پہنچا۔ نو برس بعد انتقال ہوا تو مدینہ منورہ میں دفن کر دیا گیا۔
تیونس 'سوشل میڈیا‘ کی فتح عظیم کا استعارہ بن کے ابھرا۔ اُس کے قومی پھول 'چنبیلی‘ کی مناسبت سے فرانس کے ایک مفکر نے اسے ''انقلابِ یاسمین‘‘ کا رومانوی نام دے دیا۔ مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ایک معروف امریکی مبصر‘ مارک لنچ (March Lynch) نے فارن پالیسی میں لکھے اپنے ایک آرٹیکل میں اسے 'بہارِ عرب‘ (Arab Spring) کا نام دے کر ''سوشل میڈیا‘‘ کے ماتھے کا جُھومر بنا دیا۔
گزشتہ پندرہ برس کی کہانی تفصیل مانگتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ تیونس‘ ہمہ نوع زوال کی نئی پستیوں میں لڑھک چکا ہے۔ یہ اولیں تاثر خاک ہوا کہ شاید تیونس ''بہارِ عرب‘‘ کی شاخ پہ کھلنے والا پہلا جمہوری ملک ہو گا۔ وہاں ان دنوں قیس سعید نامی شخص کی حکمرانی ہے جو 2019ء سے صدارت سنبھالے بیٹھا ہے اور گزشتہ سال ایک ایسے انتخابات میں 90.6 فیصد ووٹ لے کر نئی میعادِ صدارت سنبھال لی‘ جس میں ووٹوں کی شرح صرف28 فیصد تھی۔ فوج کے پہرے میں کھڑی پارلیمنٹ معطل اور غیر فعال‘ ارکان کے حقوق اور ضمانتیں ختم‘ متفقہ آئین قصۂ پارینہ‘ لامحدود اختیار کا حامل خود وضع کردہ دستور‘ شہری آزادیوں پر شدید قدغنیں‘ سوشل میڈیا پر کسی سرکاری اہلکار یا ادارے کے بارے میں بال برابر گستاخی کی سزا چھ برس قید اور بھاری جرمانے۔ آج تیونس زین العابدین نہیں‘ قیس سعید کی جنبشِ لب کا نام ہے۔ پہلے سے کہیں تباہ حال‘ پہلے سے کہیں اذیت ناک ''وَن آن وَن‘‘ نامی تازہ عوامی سروے میں 87 فیصد افراد نے شدید مایوسی اور بداعتمادی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری زندگی زیادہ اجیرن ہو چکی ہے۔
فروری 2011ء کی ایک رُوپہلی صبح 'چنبیلی‘ نے اُڑان بھری اور قاہرہ کے ''میدان التحریر‘‘ (تحریر چوک) جا پہنچی۔ بتیس برس سے قابض حُسنی مبارک نے اقتدار مسلح افواج کو سونپا اور اپنے ذاتی محل منتقل ہو گیا۔ 2012ء کے انتخابات ''اخوان المسلمون‘‘ نے جیت لیے۔ محمد مُرسی نے پہلے جمہوری صدر کا حلف اٹھا لیا۔ چند ماہ بعد مُرسی کا تختہ الٹ کر آرمی چیف جنرل عبدالفتاح نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ 2013ء میں مُرسی کے حامیوں کے اجتماع پر افواج نے یلغار کر دی۔ ایک ہزار سے زائد افراد بھون ڈالے گئے۔ قاہرہ پہلے سے کہیں زیادہ قاہر موسموں کی گرفت میں ہے۔ حُسنی مبارک کا 91 برس کی عمر میں انتقال ہوا تو تابوت قومی پرچم میں لپیٹا گیا۔ وزیراعظم اور کابینہ سمیت افواج نے گارڈ آف آنر پیش کیا اور اُسے اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کر دیا۔ مصر کے نئے حُسنی مبارک کا نام جنرل عبدالفتاح ہے جس کے اقتدار کو اب تیرہواں سال آن لگا ہے۔ عالمی شاطر‘ من پسند مہرے چلا رہے ہیں۔ فروری 2011ء میں ہی‘ تیونس کی چنبیلی طرابلس پہنچی اور 42سالہ مطلق العنان اقتدار کے حامل کرنل معمر قذافی کے دروازے پر دستک دی۔ اب کے عالمی ضمیر بھی پھڑک اٹھا۔ اقوام متحدہ اور نیٹو حرکت میں آئے۔ لیبیا بموں کا نشانہ بنا۔ اکتوبر میں معمر قذافی کو بے دردی سے مار کر صحرا کے کسی گمنام گوشے کی نذر کر دیا گیا۔ لیبیا آج بھی انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ کوئی مستحکم مرکزی نظم قائم نہیں۔ عالمی گماشتوں کی ایک کٹھ پتلی کو حکومت قرار دے دیا گیا ہے۔ ملک شدید معاشی بدحالی‘ بدامنی‘ مسلح گروہوں کی جتھا بندی‘ سیاسی مفادی گروہوں کی آویزش‘ خانہ جنگی‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ جرائم‘ کرپشن‘ اقربا پروری اور عدم استحکام کا مثالی نمونہ بن چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی شہرت‘ غیر قانونی تارکین وطن کے ''ٹرانزٹ کیمپ‘‘ کی ہو کے رہ گئی ہے۔
واہموں کے خواب تراشتا اور سرابوں کا تعاقب کرتا 'سوشل میڈیا‘ 'بہارِ عرب‘ کے طلائی بجرے میں سوار یمن پہنچا۔ چنبیلی نے چونتیس برس سے اقتدار پر قابض علی عبداللہ صالح طنطاوی کو پیامِ رخصت دیا۔ اُس نے جان بخشی کے نام پر استعفیٰ دے دیا لیکن حوثیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آج یمن کو تمام عالمی ادارے سب سے بڑے انسانی المیے کا نام دیتے ہیں۔ کوئی مستحکم مرکزی حکومت نہیں۔ دارالحکومت صنعا‘ حوثیوں کے تسلط میں ہے۔ ایک نام نہاد صدارتی کونسل کو باضابطہ حکومت مانا جاتا ہے۔ عالمی اور گردوپیش کے ممالک نے اپنے اپنے مفاد میں یمن کے اندر کئی چھوٹے چھوٹے 'یمن‘ بنا رکھے ہیں۔ چار سُو بھوک‘ ننگ‘ افلاس‘ بیماریوں‘ وبائوں‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ فاقہ کشی‘ لوٹ مار اور افراتفری کا آسیب‘ رقص کر رہا ہے۔ 2023ء کے گیلپ پول کے مطابق 71 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں دو وقت کا پورا کھانا نہیں ملتا۔
مارچ2011ء میں 'بہارِ عرب‘ کا قافلۂ رنگ وبُو بشار الاسد کے دمشق پہنچا۔ شام کے ''نونہالانِ سوشل میڈیا‘‘ نے پل بھر میں اسے طوفان میں ڈھال دیا۔ بشار نے اپنے طاقتور اتحادیوں کے زور پر بھرپور مزاحمت کی۔ اس مزاحمتی جنگ میں پانچ لاکھ افراد قتل ہو گئے جن میں بڑی تعداد ''واہمہ پرست‘‘ نوجوانوں کی تھی۔ لاکھوں بے گھر ہوئے۔ لاکھوں نقل مکانی کر گئے۔ شرق وغرب اور شمال وجنوب میں اپنے اپنے آقا رکھنے والی حکومتیں قائم ہیں۔ اختیار واقتدار سے محروم بشار الاسد‘ روس کی بھرپور مدد سے تحکم قائم رکھنے کی کوشش میں ناکام ہو چکا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ وہ فرار ہو کر ماسکو جا بسا ہے۔ اُدھرکٹے پھٹے شام کے مفلوک الحال عوام کا حال یہ ہے کہ 90 فیصد خطِ غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک چکے ہیں۔ 'واہمے‘ کے گمانستان سے جنم لینے والی ''بہارِ عرب‘‘ ریگزاروں کی ریت اڑاتی‘ بگُولے بناتی‘ کانٹوں بھرے جھاڑ جھنکار کا کوہِ گراں سمیٹے عالم عرب کے پانچ ممالک میں رقص کر رہی ہے۔ آمروں اور جابروں کے تختے الٹ گئے لیکن جس ستم رسیدہ خلقِ خدا کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنا تھی‘ اُن کے دن پہلے سے کہیں زیادہ کڑے‘ راتیں پہلے سے کہیں زیادہ بھاری ہو چکی ہیں۔ 'سوشل میڈیا‘ کا 'واہمہ‘ یہی معجزہ دکھا سکتا تھا۔ اس کا طلسم ٹوٹ چکا۔ ایک حقیقت‘ در ودیوار پر کندہ ہو چکی ہے کہ فتنہ وفتور کی بے مہار لہر کو 'سوشل میڈیا‘ کا پُرشباب نام دیں‘ چنبیلی کہیں یا 'بہارعرب‘ کا معطّر خطاب‘ سب محض غارت گری کا نسخہ ہیں۔
سوشل میڈیا ابھار کو بہارِ عرب (Arab Spring) کا نام دینے والے امریکی مبصر اور کالمسٹ مارک لنچ نے صرف چار برس بعد 2014ء میں 'اعترافِ واہمہ‘ کرتے ہوئے اپنے آرٹیکل میں لکھا ''میری وضع کردہ اصطلاح 'بہار عرب‘ (Arab Spring) غالباً قبل از وقت تھی جس کے تحت عالمِ عرب میں ایک جمہوری انقلاب کا تصور اخذ کر لیا تھا۔ لیکن اصل میں ہوا یہ کہ بیشتر احتجاجی ابھار‘ تازہ دم آمریتوں‘ خانہ جنگیوں اور ریاستوں کے انہدام پر منتج ہوئے‘‘۔
آمروں اور جابروں کی معلوم ونامعلوم قبروں پر کس نے جانا ہے؟ نہیں معلوم تیونس کے چھبیس سالہ ریڑھی بان‘ محمد بن بُوعزیزی کے مزار یا اُس کی ریڑھی کے مجسمے پر بھی کوئی تازہ دم‘ معصوم‘ اُجلی چنبیلیوں کے ہار ڈالنے جاتا ہے یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved