27 ستمبر کو پشاور میں منعقد کیا گیا جلسہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے صرف ایک سیاسی اجتماع نہیں تھا بلکہ یہ پارٹی کے اندرونی بحران‘ کارکنوں کی مایوسی اور متبادل قیادت پر عدم اعتماد کا واضح ثبوت تھا۔ ایک کروڑ افراد کی شرکت کے دعوے کے برعکس جو صورتحال سامنے آئی وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پی ٹی آئی خان صاحب کے بغیر بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خان صاحب کو مائنس کر دیا جائے تو پی ٹی آئی میں کچھ بھی نہیں بچتا۔ جلسے میں اُس وقت صورتحال بے قابو ہو گئی جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور خطاب کے لیے سٹیج پر آئے۔ پنڈال میں موجود کارکنان نے انہیں مسترد کر دیا۔ شدید نعرے بازی‘ وزیراعلیٰ کا خطاب سننے سے انکار اور پھر پنڈال میں بوتلیں اچھالنے کا عمل متبادل قیادت کے خلاف کارکنان کے غصے اور مایوسی کا اظہار تھا۔ گنڈاپور نامنظور کے نعرے اس بات کا اعلان تھے کہ پی ٹی آئی کارکنان اب مصلحت پسندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی غیر متزلزل وابستگی صرف عمران خان سے رکھتے ہیں۔ وہ خان صاحب کا دم بھرتے ہیں اور ان کی رہائی کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مقصد سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خان صاحب کی غیر موجودگی میں بادل نخواستہ متبادل قیادت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ کارکنوں کو توقع تھی کہ یہ قیادت خان صاحب کے بیانیے پر قائم رہے گی اور ان کی رہائی کے لیے مؤثر جدوجہد کرے گی تاہم جب کارکنوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے علی امین گنڈاپور مصلحت کا شکار ہیں اور مرکزی بیانیے کے بجائے حکومتی بقا کو ترجیح دے رہے ہیں تو جذباتی تعلق ٹوٹ گیا۔ کارکنوں نے اپنے جذبات کا رُخ صوبائی حکومت کی طرف موڑ کر درحقیقت یہ پیغام دیا کہ وہ کوئی ڈیل یا خاموش مفاہمت قبول نہیں کریں گے۔
کارکنوں کی جانب سے شدید ردِعمل کے اظہار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیادت کی طرح کارکنان مفادات کے اسیر نہیں ہوتے۔ کارکن بالعموم پارٹی کے نظریے‘ مشن یا اپنے لیڈر کے ویژن سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کی وفاداری کسی وزارت یا سیاسی مصلحت کی محتاج نہیں ہوتی۔ جب انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی قیادت ان کے نظریے سے انحراف کر رہی یا دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے تو وہ اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ پشاور کے جلسے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کا ڈھانچہ صرف خان صاحب کی وجہ سے قائم ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں کوئی بھی متبادل رہنما چاہے وہ وزیراعلیٰ ہی کیوں نہ ہو‘ کارکنوں کو مطمئن کرنے اور متحرک رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ پی ٹی آئی کی آئندہ کی سیاست کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک فرد کی کرشماتی قیادت سے ہٹ کر پارٹی مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ کیسے بنے گی؟
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کا ارتقا ڈیجیٹل دور کے سیاسی رجحانات میں اہم اضافہ ہے۔ پی ٹی آئی نے سیاست کو سڑکوں سے اٹھا کر سوشل میڈیا کے میدان میں منتقل کیا۔ بلاشبہ پی ٹی آئی کے کارکنان آج بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہیں اور پارٹی کا سب سے بڑا ڈیجیٹل اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جس نے ماضی میں حکومتوں کے لیے دباؤ پیدا کیا‘ رائے عامہ کو تیزی سے بدلا اور خان صاحب کے بیانیے کو لمحوں میں گھر گھر پہنچانے کا مظاہرہ کیا۔ اس غیر معمولی ڈیجیٹل قوت نے پی ٹی آئی کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو روایتی سیاسی جماعتوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ یہ کارکنان خان صاحب کی کرشماتی قیادت اور انقلابی بیانیے کے ساتھ اب بھی کھڑے ہیں۔ اس بے پناہ عوامی اور ڈیجیٹل توانائی کے باوجود پارٹی چیلنجز میں گھری ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کارکنوں کو یہ علم نہیں ہے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ خان صاحب کی غیر موجودگی اور متبادل قیادت کی طرف سے مناسب رہنمائی نہ ہونے کے باعث کارکن اپنی تمام تر صلاحیتیں اب بھی صرف مخالفین کی کردار کشی‘ جارحانہ ٹرینڈنگ اور غیر ضروری محاذ آرائی پر صرف کر رہے ہیں۔ ان کا لب ولہجہ اور حکمت عملی وہی ہے جو خان صاحب کے سیاسی عروج اور حکومت میں ہونے کے وقت تھی‘ یعنی جارحانہ اور مزاحمتی انداز۔ مگر آج یکسر تبدیل شدہ سیاسی حالات میں یہ حکمت عملی پارٹی کے لیے فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ سیاسی میدان بدل چکا ہے۔ قیادت مشکل حالات اور قانونی پیچیدگیوں میں گھری ہوئی ہے۔ ایسے میں کارکنوں کی غیرمنظم اور بے لگام جارحیت پارٹی رہنماؤں کے لیے مزید قانونی اور سیاسی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ سیاسی جدوجہد کا محور اور کارکنوں کی تمام تر سیاسی سوچ کا مرکز خان صاحب کی رہائی ہے۔ ان کا مقصد کسی بھی قیمت پر اور فوری طور پر خان صاحب کی رہائی ہے اور وہ اس کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایوان کی سیاست کے بجائے جلسے اور احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا۔ تاہم مسلسل کوششوں کے باوجود خان صاحب کی رہائی ممکن نہ ہو سکی جس نے کارکنوں میں بے چینی اور مایوسی کو بڑھایا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت خود بھی خان صاحب کی رہائی چاہتی ہے لیکن کارکنوں کا پریشر زیادہ ہے اور یہی پریشر قیادت سے عجلت میں قدم اٹھوا رہا ہے۔ قائمہ کمیٹیوں سے استعفوں کا معاملہ اسی پریشر کا سبب ہو سکتا ہے۔ یہ اقدامات کارکنوں کو باور کرانے کی کوشش ہیں کہ قیادت ان کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹی‘ لیکن درحقیقت یہ غیر مؤثر سیاسی حکمت عملی کا تاثر دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست میں اب پہلے والا دم نہیں۔ جلسوں میں نہ وہ جوش نظر آتا ہے اور نہ وہ اجتماع۔ اس صورتحال میں آخری امید صرف جذباتی کارکن ہیں۔ یہ کارکن ہی ہیں جو پارٹی کو عوامی سطح پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر قیادت نے ان جذباتی کارکنوں کو بھی مایوس کر دیا اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ موجودہ قیادت نے پارٹی کے مقصد سے روگردانی کر لی ہے تو پی ٹی آئی کے لیے بطور جماعت اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ کارکنوں کا اعتماد کھونے کا مطلب ہے کہ پارٹی اپنے ٹرانسپورٹ سسٹم‘ ووٹ بینک کی متحرک قوت اور گھر گھر پیغام پہنچانے والی مشینری سے محروم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کی بقا اب اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی متبادل قیادت کس طرح کارکنوں کی جذباتی وابستگی اور نظریاتی مطالبات کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ اسے یا تو کوئی ایسی مؤثر حکمت عملی اپنانا ہو گی جو خان صاحب کی رہائی کا راستہ ہموار کرے یا پھر کارکنوں کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ ان کا مقصد اب بھی مقدم ہے۔ بصورت دیگر کارکنوں کی سیاسی بغاوت کسی بھی متبادل قیادت کے لیے پارٹی کا ڈھانچہ برقرار رکھنا ناممکن بنا دے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved