پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بڑی گرم جوشی کے ساتھ نئے صوبوں یا چھوٹے انتظامی یونٹس کی تشکیل پر بات ہو رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی منظرنامے میں سیاسی سوچ رکھنے والے اور اہلِ دانش کی سطح پر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ موجودہ گورننس کا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کے مقابلے میں ایک نئے نظام کی تشکیل ضروری ہو چکی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کہہ چکے ہیں کہ اگر موجودہ گورننس کے نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں یا اس میں بڑی تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو سیاسی‘ انتظامی اور معاشی طور پر پاکستان کی ترقی کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔ عام پاکستانیوں کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر ہم نے اس نظام کی تبدیلی میں کوئی بڑا بریک تھرو نہ کیا تو یہ نظام اپنی افادیت کھو دے گا کیونکہ نظام جو بھی ہو‘ اس میں بنیادی ترجیح عام آدمی کے مسائل اور ان کے حل کو حاصل ہوتی ہے‘ جو اس نظام میں ممکن نظر نہیں آرہاکیونکہ ہمارا سیاسی‘ انتظامی‘ قانونی اور معاشی ڈھانچہ جدید تقاضوں کے مطابق اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں چاہتا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارا موجودہ نظام اور ہمارے حکمران اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں جس سے لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
دنیا میڈیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود‘ جو بنیادی طور پر سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کے حامی ہیں‘ کے بقول موجودہ حالات میں پاکستان کے مسائل اور بہتر گورننس کے نظام کا حل چھوٹے انتظامی یونٹس یعنی نئے صوبوں کی تشکیل اور مضبوط مقامی حکومتوں کا تقاضا کرتا ہے اور یہ ہماری ترجیحات کا بڑا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ صوبے جتنے چھوٹے ہوں گے‘ لوگوں کے مسائل کا حل مقامی سطح پر اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔اسی طرح لوگوں کا نئے صوبوں کی تشکیل کے بعد ریاست اور حکمرانی کے نظام پر اعتماد بڑھے گاکیونکہ بڑے انتظامی یونٹس کی موجودگی میں ہمارے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔بالخصوص وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور کمزور انتظامی ڈھانچوں کی موجودگی مسائل پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب بن رہی ہے۔اسی کو بنیاد بنا کر میاں عامر محمود صاحب نے نئے صوبوں کی تشکیل کی بحث کو ایک بڑے قومی ایجنڈے میں ڈال دیا ہے۔وہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس اہم موضوع پر اساتذہ اور طلبہ و طالبات سمیت میڈیا‘ اینکرز اور دانشوروں کو نہ صرف اعتماد میں لے رہے ہیں بلکہ اس مسئلہ کی افادیت اور نئے صوبائی یونٹس کی اہمیت پر بھی زور دے رہے ہیں۔پاکستان میں پہلے بھی نئے صوبوں کی تشکیل پر بات ہوتی رہی ہے لیکن اس بار میاں عامر محمود صاحب نے اس بحث کو ایک قومی مکالمے کی صورت میں اجاگر کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے اور اس اہم موضوع پر لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھی ہے۔
نئے صوبوں کی تشکیل کی بحث نہ صرف آگے بڑھنی چاہیے بلکہ اس پر عملی اقدامات ہوتے بھی نظر آنے چاہئیں۔یہ اسی صورت میں ممکن ہوگاجب ملک کی سیاسی جماعتیں روایتی سیاست اور فیصلوں سے باہر نکل کر لوگوں کے بنیادی مسائل کو سمجھ کر حالات کی بہتری کے لیے بڑے فیصلے کریں تاکہ ہم لوگوں کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بناسکیں۔لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم ریاست اور حکومت کی ضرورت کے تحت بڑے فیصلے کریں‘ جو آج کے حالات کا تقاضا بھی ہے۔ پاکستان میں اس وقت کہیں دو درجن صوبوں کی بات ہو رہی ہے اور کہیں ہر ڈویژن کو نئے صوبوں میں ڈھالنے کی بات کی جا رہی ہے۔اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم 13 نئے صوبے پاکستان میں تشکیل دیے جانے چاہئیں۔نئے صوبوں کی تعداد کے حوالے سے مختلف آرا ہو سکتی ہیں مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ہوچکی ہے اور یہ ایشو ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا‘ اُن کا تجزیہ درست نہیں ہے کیونکہ اگر صوبے چھوٹے یونٹس پر مشتمل ہوں گے تو صوبوں کا سیاسی ‘انتظامی اور مالی نظام شفاف ہوگا اور ان یونٹس کی جوابدہی بھی آسان ہوگی۔ اس لیے ہمیں نئے صوبوں کی بحث سے ڈرنے کی بجائے نئے یونٹس بننے کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔
دنیا بھر کا نظام صوبوں کی سطح پر چھوٹے یونٹس کی بنیاد پر چل رہا ہے اور ہمیں ان کے تجربات سے سیکھ کر بہتری کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔اگر نئے صوبوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ہم مضبوط مقامی حکومت کے نظام کی حقیقت کو بھی تسلیم کرلیں تو گورننس کے نظام میں بہتر اصلاحات کے ساتھ عوامی توقعات کی بہتر طور پر ترجمانی کرسکتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس نظام کو کمزور بنا کر ہم لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
کمزور مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عام آدمی کے مسائل نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عوام بھی مقامی حکومتوں کے مقابلے میں نئے صوبوں کی تشکیل کی بات کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں کسی بھی طور پر مقامی حکومتوں کو مضبوط نہیں بنانا چاہتیں۔اسی لیے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں اب زوردار انداز میں نئے صوبوں کی بات کرنی چاہیے کیونکہ بھاری بھرکم صوبوں کے مقابلے میں صوبوں کے چھوٹے انتظامی یونٹس ہی ہمارے مسائل کا حل ہوسکتے ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھائیں اور اس حل پر پہنچیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل کے بغیر ہم جدید طریقے سے ترقی نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم روایتی طور طریقوں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں یا ترقی کے نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔اگر ہمارا جواب جدید طور طریقوں کو اپنانا ہے تو پھر ہمیں روایتی نظام سے باہر نکلنا ہوگا اور ایک ایسے نظام کی طرف بڑھنا ہوگا جو عوام کے حقوق کی بہتر طور پر ترجمانی کر سکے۔
ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اس وقت پاکستان گورننس کے سنگین بحران سے گزر رہا ہے جس کا اظہار سول ملٹری قیادت بھی بار بار کر رہی ہے۔یہ جو پاکستان میں عام آدمی کی مشکلات ہیں جس میں معاشی بحران زیادہ سنگین ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کیا۔عام آدمی مقامی سطح پر نہ صرف معاشی مسائل کا شکار ہے بلکہ معاشی بدحالی سمیت روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی ادارہ بار بار نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان کی توجہ کا مرکز بنیادی اصلاحات ہونی چاہئیں۔ مربوط اصلاحات کے بغیر پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتا۔لیکن حکمران طبقات اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک درست انداز میں چل رہا ہے حالانکہ اگر ملک کے معاملات درست انداز میں چل رہے ہوتے تو آج لوگوں میں سیاسی اور معاشی بے چینی دیکھنے کو نہ ملتی۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکمران طبقات اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں غیر معمولی اقدامات کے ساتھ اصلاح کی طرف توجہ دینا ہوگی اور ایسی اصلاحات کو بنیاد بنانا ہوگا جن سے عام لوگوں کے مسائل حل ہو سکیں۔کہا جا رہا ہے کہ لاکھوں نوجوان پڑھ لکھ کر روزگار سے محروم ہیں اور اپنے روزگار کی تلاش میں وہ باہر کی دنیا کا رخ کر رہے ہیں۔ ملکی نظام کو ایسی اصلاحات درکار ہیں جو نہ صرف معاشی بدحالی کو ختم کر سکیں بلکہ نوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر سکیں۔پاکستان کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہے اور نوجوانوں کی سیاسی اور معاشی حالت کو بدل کر ہی پاکستان ایک مضبوط ریاست میں بدل سکتا ہے اور یہی ہماری ترجیحات کا محور ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved